وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سفارتخانے اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کریں۔ ہمارے سفیر جو وقت دیتے ہیں اس پر ملتے نہیں‘ سمندر پار پاکستانی ہمارا اثاثہ ہیں۔انہوں نے قیدیوں کے معاملے کے حل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ غیرملکی جیلوں میں موجود ہمارے لوگوں کو کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے، ہم اس کے لیے فنڈ بنانے کے لیے تیار ہیں، ان پر چھوٹے موٹے جرمانے ہوتے ہیں،جنھیں ہم ادا کر سکتے ہیں ۔ حکومتیں بیرون ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے‘ رابطوں کو مستحکم رکھنے ‘ غیر ملکی سرمایہ کاری ملک میں لانے ‘ ملکی اشیاء کو غیر ملکی منڈیوں میں پیش کرنے اور اپنے شہریوں کو بیرون ممالک ملازمتیں دلوانے کے لئے باصلاحیت‘ ذمہ دار اور پروفیشنل افراد کو سفیر تعینات کرتی ہیں،حکومتیںسفیروں پر بڑی سرمایہ کاری کرتی ہیں ۔اسی بنا پر سفیر کے کندھوں پر بے تحاشہ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔انہیں مستحسن طریقے سے اداکرنا ان کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ایک اناڑی‘غیر تربیت یافتہ سفیر دو ملکوں کے تعلقات کو کشیدہ کر سکتا ہے جبکہ تجربہ کار‘عقلمند اور فہم وفراست کا حامل آدمی دو ملکوں کے کشیدہ تعلقات کو بھی دوستی کے بندھن میں باندھ دیتا ہے۔ حکومت جب بھی کسی سفیر کی تعیناتی کرتی ہے ،تو ہمیشہ قومی مفادات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستانی سفیر اپنے فرائض منصبی کو کماحقہ ادا کرتے نظر نہیں آتے۔ جس کی متعدد شکایات سٹیزن پورٹل پر موصول ہوئی ہیں۔ماضی میں بھی اوورسیز پاکستانیوں کو شکایات ہوتی تھیں لیکن وہ شکایات براہ راست وزیر اعظم پاکستان تک پہنچانے کا انتظام نہیں تھا۔ سفارتخانوں میں شکایات کا اندراج کرایا جاتا‘ جس کے بعد ملی بھگت سے انکوائری کروا کر اپنے پیٹی بھائیوں یا ماتحت عملے کو کلین چٹ دے دی جاتی۔ وزیر اعظم عمران خان نے سٹیزن پورٹل کا جب سے اجرا کیا ہے، بڑے بڑے بیورو کریٹ کے خلاف شکایات سامنے آئی ہیں۔ سعودی عرب میں پاکستانی سفارتی عملے کے بارے جو شکایات سامنے آئی ہیں، وہ حیران کن ہیں۔ مزدور طبقے کو کاغذات کے حصول میں شدید دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ کویت میں نادرا عملے کی جانب سے 250درہم رشوت لینے کی شکایات سامنے آئی ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ سفارتخانے کے اندر رشوت ستانی کا بازار گرم ہے لیکن سفیر کوئی کارروائی نہیں کر رہا۔ اگر کوئی شہری کسی طرح وزارت خارجہ تک رسائی حاصل کر لے تب بھی سفارتخانوں کی جانب سے شکایات کے ازالے کی بجائے روایتی جواب دیا جاتا ہے۔ درحقیقت سفارتخانوں میں عوامی شکایات کے ازالے کے لئے سرے سے کوئی نظام ہی موجود نہیں۔ اگر آپ پاکستانی سفارتی عملے کا دیگر ممالک کے عملے کے ساتھ موازنہ کریں تو آپ کو زمین و آسمان کا فرق محسوس ہو گا۔ ہمارے ہمسائے ملک بھارت کے سفیر اپنے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں لیکن ہمارے سفارتخانوں میں اس قسم کی سرگرمیاں دکھائی نہیں دیتی۔جو باعث افسوس ہے۔ اوورسیز پاکستانی ہمارا اثاثہ ہیں، ان لوگوں نے ہماری معیشت کو سہارا دے رکھا ہے۔ سالانہ اربوں ڈالر کا زرمبادلہ ملک میں بھیج کر انہوں نے ہماری معیشت کو پائوں پر کھڑا کر رکھا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا سفارتی عملہ نہ تو بیرون ممالک ان کی مشکلات کا ازالہ کرتا ہے نہ ہی انہیں ملازمتوں کے حصول میں کوئی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ اگر وہ کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائیں تو تب بھی ان کی مدد نہیں کی جاتی۔ مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں کئی پاکستانی گرفتار ہیں لیکن سفارتی عملہ ان کی رہائی کے لئے کوئی کردار ادا کرتا نظر نہیں آتا۔ یہاں تک کہ اگر کسی پاکستانی کی دیار غیر میں وفات ہو جائے،اس کی میت کو وطن واپس لانے کے لئے کاغذات کی تکمیل میں مدد نہیں کی جاتی اور اس کے برعکس اگر آپ یورپی یونین یا پھر امریکی سفارت کاروں کو دیکھیں تو وہ اپنے شہریوں کی مدد کے لئے سرتوڑ کوششیں کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے شہری اپنے ملک کو ترسیلات زر بھی نہیں بھیجتے جبکہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کا تمام تر دارومدار ہی اوورسیز پاکستانیوں کے سر پر ہے۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے سب سے زیادہ ترسیلات زر آتی ہیں۔ اگر آپ انہیں لاوارث چھوڑ دیں گے یا پھر ان سے رشوت لیں گے تو وہ کیونکر اپنا قیمتی سرمایہ یہاں بھیجیں گے۔ اس لئے ہمارے سفیروں کو جس مقصد کے لئے بیرون ممالک تعینات کیا گیا ہے انہیں اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔ حکومت پاکستان کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تجربہ کار محنتی‘ سنجیدہ‘ نظم و ضبط اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے حامل افراد کو سفارتی میدان میں اتارے۔ جب آپ غیر پیشہ ور افراد کو محض سیاسی بنیاد پر سفیر تعینات کریں گے تو پھر ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر کسی جگہ کسی غیر پیشہ ور سفیر کی تعیناتی کی ضرورت پڑ جائے تو ایسے افراد کے انتخاب کے لئے پروفیشنل بورڈ تشکیل دے کر ان کا انٹرویو کرنا چاہیے۔ جس کے بعد اسے واجبی سے سفارتی آداب سکھا کر بیرون ملک تعینات کرنا چاہیے۔ سفارتکاروں کو ٹاسک بھی دیے جائیں اور پھر دو تین ماہ بعد رزلٹ وصول کیا جائے تاکہ اس بات کا علم ہو سکے کہ آیا وہ اپنے فرائض کو احسن طریقے سے ادا کر بھی رہا ہے یا نہیں۔کسی بھی فرد پر جب تک چیک اینڈ بیلنس نہیں ہو گا، وہ کام چوری سے باز نہیں آتا،وزارت خارجہ نے اب ایک آفیسر تعینات کیا ہے جوسفیروں کی کارکردگی دیکھے گااور شکایات سنے گا، جس کے بعد امید ہے کہ سفارتی میدان سے مثبت ثمرات ملنا شروع ہو جائیں گے۔