16دسمبر آیا اور ہمیں ایک بار پھر خون کے آنسو رلا کر گزر گیا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ آنسوئوں کی اس برسات میں سقوط ڈھاکہ کا ناقابل فراموش سانحہ ہمیں کیا سبق یاد دلا گیا۔ اوائل دسمبر سے ہی زخم پرانے یاد آنے لگتے ہیں۔ دلوں اور شہروں کی بربادی کا سماں یاد آتا ہے۔ وہ جوش اور جذبہ یاد آتا ہے۔ جو قیام پاکستان کے لئے مشرق بنگال کے لیڈروں اور شہریوں کے دلوں میں موجزن اور ان کے نعروں اور قرار داد سے عیاں تھا۔ ان جذبوں کا نقطہ عروج قرار داد لاہور تھی جو قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت 23مارچ 1940ء کو منٹو پارک لاہور میں مولوی فضل الحق نے پیش کی‘ جو اس وقت مشرقی بنگال کے وزیر اعظم تھے۔1940ء سے لے کر 1947ء تک کی ولولہ انگیز تحریک پاکستان میں بنگالی مسلمان ایک پاکستان کے لئے پیش پیش تھے۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ آخر کیا ہوا کہ صرف 25برس میں صدیوں کی ایمانی و قلبی رفاقتیں اور دلوں کی محبتیں پاش پاش ہو گئیں۔ اس سوال کے جواب میں کئی عینی شاہدوں‘ جرنیلوں‘ فوجی افسروں اور سیاست دانوں نے کئی کتابیں لکھیں‘ دانشوروں اور صحافیوں نے اپنے تجزیے پیش کئے اور آج تک کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ سقوط ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بارے میں جسٹس حمود الرحمن کمشن نے طویل عرصے تک تحقیق کی اور مفصل رپورٹ تیار کی مگر آج تک سرکاری سطح پر یہ رپورٹ منظر عام پر نہیں آ سکی۔ جب 1970ء کے انتخابی نتائج سامنے آئے تو مشرقی پاکستان کی 162 میں سے 160نشستوں پر شیخ مجیب الرحمن کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس سے آگے ہماری قومی دانش کا امتحان شروع ہوا۔ اس امتحان میں اگر سیاست دان اور اسٹیبلشمنٹ مل کر شعلوں کو بجھانے کے لئے شبنمی و شیریں لب و لہجہ اختیار کرتے اور فہم و فراست سے کام لیتے تو بھڑکتی ہوئی نفرت کی آگ پر قابو پایا جا سکتا تھا مگر بدقسمتی سے اس کے برعکس ہوا اور حکمت و دانش کی بجائے انا پرستی اور ہٹ دھرمی سے کام لیا گیا بلکہ کام تمام کر دیا گیا۔ اس وقت کے ممتاز سیاست دان اور پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان میں باقی سب پارٹیوں سے بڑھ کر سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ گویا اس وقت سیاسی افق پر مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اہم ترین سیاست دان بن کر ابھرے۔ اگر اس وقت ذوالفقار علی بھٹو جمہوری و پارلیمانی رویہ اختیار کرتے اور قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں منعقد ہو لینے دیتے اور جمہوری تقاضوں کے مطابق خوش دلی کے ساتھ متحدہ پاکستان کی اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار سپرد کرنے کی راہ ہموار کرتے تو نہ پاکستان ٹوٹتا اور نہ ہی ہمیں ہزیمت کے داغ کا سامنا کرنا پڑتا۔ ہمارے بہت سے دانشور اور سیاسی تجزیہ کار ذوالفقار علی بھٹو کی ذہانت کی بڑی تعریف و توصیف کرتے ہیں۔ بلا شبہ بھٹو بلا کے ذہین اور شاطر تھے۔ وہ سیاسی شطرنج کے ماہر تھے مگر ان کی نگاہ ذاتی اقتدار پر مرکوز تھی جس کے لئے وہ ہر قیمت دینے کو تیار ہو گئے۔ انہوں نے پسِ پردہ یحییٰ خان کو اپنے شیشے میں اتارا اور جنرل یحییٰ خان سے مارچ 1971ء میں ڈھاکہ میں بلائے گئے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کروا دیا۔اس التواء کے بعد مشرقی پاکستان میں بدترین قسم کی افراتفری اور قتل و غارت گری شروع ہو گئی۔ حیرت کی بات یہ ہے ک مشرقی پاکستان کی ساری فوجی کمان جن میں اس وقت کے گورنر مشرقی پاکستان لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان‘ میجر جنرل رائو فرمان علی اور میجر جنرل خادم حسین راجہ وغیرہ شامل ہیں وہ سب معاملے کا سیاسی حل چاہتے تھے اور ملٹری ایکشن کے خلاف تھے پھر ایسا کیوں ہوا؟ مختلف کلیدی ذمہ داریوں پر مامور ان اعلیٰ افسران کی رائے کے برعکس جنرل یحییٰ خان نے ملٹری ایکشن کا کیوں فیصلہ کیا۔ اس ملٹری ایکشن کے نتیجے میں ساری دنیا میں ہماری رسوائی ہوئی‘ بدترین قسم کی جگ ہنسائی ہوئی ‘عالمی رائے عامہ ہمارے خلاف ہو گئی۔ انڈیا نے ہمارے خلاف افواہ سازی اور پروپیگنڈے کا بازار گرم کر دیا۔ بعد میں جیل سے رہائی کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے پاک فوج پر الزام لگایا کہ اس نے ملٹری ایکشن میں 30لاکھ بنگالیوں کا قتل عام کیا۔ شرمیلا بوس نے غیر جانبدارانہ تحقیق کے ذریعے اپنی کتاب میں ثابت کیا کہ مکتی باہنی نے بھارتی تعاون کے ذریعے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اور مشرقی پاکستان میں آباد بہاری مسلمانوں کو جگہ جگہ تہ تیغ کیا۔ اور ملٹری ایکشن میں قتل ہونے والوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار سے زیادہ نہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے مسلسل اسباب کو ایک طرف رکھتے ہوئے۔1971ء میں اگر ’’18ویں آئینی ترمیم‘‘جیسا کوئی بندوبست کر کے اس ٹریجڈی کو روکا نہیں جا سکتا تھا؟ میں نے اس سوال کے جواب میں ایک بار پھر ان کتابوں کی ورق گردانی کی جن کو میں کئی مرتبہ پڑھ چکا تھا۔ ان کتابوں میں ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب ’’پاکستان کیوں ٹوٹا‘‘ رائو فرمان علی کتاب How Pakistan Got Divided‘میجر جنرل خادم حسین راجہ کی کتابA Stranger in my Own Countryاور بریگیڈئر صدیق سالک کی کتاب ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ شامل ہیں۔ ان سب کتابوں کی ازسر نو ورق گردانی سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب باغباں برق و شرار کے ساتھ مل جائیں تو پھر ٹریجڈی اور تباہی کو روکنا ممکن نہیں رہتا۔میجر جنرل خادم حسین راجہ کے1969-1971ء تک کے براہ راست مشاہدے اور تجزیے کے مطابق یکم مارچ کے پرتشدد واقعات سے پہلے جنرل یحییٰ خان جنوری فروری میں ہی ملٹری ایکشن کا فیصلہ کر چکے تھے۔ یہ تو فوجی مائنڈ سیٹ تھا۔ جہاں تک سیاسی مائنڈسیٹ کا تعلق ہے تو ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے مغربی پاکستان کی سیاسی کمان خود ہی اپنے ہاتھ میں لی تھی اور انہوں نے علی الاعلان کہا ’’ادھر ہم ادھر تم‘‘ جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے وہ اس زمانے میں پاکستان کے اسلامی و جمہوری تشخص اور مشرقی و مغربی پاکستان کے اتحاد کی علامت بن کر ابھری مگر 1970ء کے انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ جماعت اسلامی ایک گرداب میں گرفتار ہو گئی۔ اس نے متحدہ پاکستان کو بچانے کے لئے آخری کوشش کے طور پر ملٹری ایکشن کا ساتھ دیا جس کا وہ آج تک سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں پھانسیوں اور گرفتاریوں کی صورت میں خمیازہ بھگت رہی ہے۔ اگر ہم دیدہ بینا سے کام لیں تو سقوط ڈھاکہ کا پیغام ہماری اسٹیبلشمنٹ ‘ ہماری سیاسی قیادت اور ساری قوم کے لئے بڑا واضح ہے۔ پیغام یہ ہے کہ کسی کا حق غصب نہ کرو‘ عوام کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا آپ کی اولاد کا حق ہے۔ آئین ایک مقدس امانت ہے ۔اسے نہ توڑو اور نہ ہی توڑ مروڑ کر پیش کرو‘ نظریہ ضرورت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دو۔ سقوط ڈھاکہ کا اہم ترین سبق یہ ہے کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے وژن اور آئین پاکستان کی روشنی میں پاکستان کو ایک جدید اسلامی جمہوری فلاح ریاست بنائو۔ یہ سارے کام کیسے ہوں گے‘ اس کا سبق بھی ہمیں سقوط ڈھاکہ کی ٹریجڈی سے ہی ملا ہے کہ جمہوریت اور صاف شفاف انتخابات کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے تو انشاء اللہ سب کام ٹھیک ہوں گے۔