یہ دن تو آنا ہی تھا۔ وہ لوگ جو اپنے حالاتِ حاضرہ کو مخبرِ صادق، رسولِ رحمت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی بتائی گئی آخرالزمان اور دورِ فتن کی پیش گوئیوں کی روشنیوں میں دیکھتے ہیں اور یہود نصاریٰ اور کفار کے عادات و خصائل کے بارے میں قرآنِ پاک سے رہنمائی لیتے ہیں، ان کے لئیے آج کی یہ خبر کسی حیرت کا باعث نہیں ہے کہ ’’متحدہ عرب امارات‘‘ اور ’’اسرائیل‘‘ کے درمیان امن معاہدہ ہوا ہے۔ اس کی علامات تو اس دن سے واضح ہونا شروع ہو گئیں تھیں، جب اپریل 2019ء میں ہندو مندر کی تعمیر کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ پورے جزیرہ نمائے عرب کو شرک سے پاک کرنے کے بعد سید الانبیاء ﷺ نے قیامت کی نشانیوں میں جزیرہ عرب میں صرف ایک بت خانے اور بتوں کی پرستش کی خبر دی تھی جو اس علاقے اور اس کے قرب و جوار میں ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، ’’قیامت قائم نہیں ہوگی، یہاں تک کہ قبیلہ دوس کی عورتوں کا ذوالخلصہ کا (طواف کرتے ہوئے) چو تڑسے چوتڑ چھلے۔ ذوالخلصہ قبیلہ دوس کا بت تھا جسے وہ زمانہ جاہلیت میں پوجا کرتے تھے‘‘ (صحیح بخاری: 7116)۔ یہ ذوالخلصہ کا بت کہاں تھا اور اس کا علاقہ کونسا تھا۔ اس علاقے کی تاریخ کیا ہے اور رسولِ اکرم ﷺنے کس کو بھیج کر اس علاقے سے بت پرستی کے مرکز کو تباہ و برباد کروایا تھا۔ یہ سب احادیث و تاریخ کی کتب میں مذکور ہے۔ سید الانبیاء ﷺ کی بعثت کے وقت جزیرہ نمائے عرب کی وہ ساحلی پٹی، جس پر آج کویت، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات، مسقط، عمان کے ممالک اور یمن کے وہ مغربی علاقے جو عدن کی بندرگاہ کے ساتھ منسلک ہیں، یہ سب کے سب ایران کی زرتشت ساسانی سلطنت کا حصہ تھے۔ اس ایرانی خطے کو ’’ماذون‘‘ کہا جاتا تھا۔ ساسانی سلطنت کے بانی ’’اردشیر‘‘ نے 240قبل مسیح میں یہ علاقہ فتح کیا تھا اور یہاں اپنا ایک گورنر یعنی مرزبان مقرر کررکھا تھا۔ رسولِ اکرم ﷺ کی ولادت سے پہلے مشہور ایرانی بادشاہ ’’خسرو‘‘ نے 531میں المنذر بن النعمان کویہاں کا گورنر مقرر کیا اور اسے ’’الخمیون‘‘ کے بادشاہ کا لقب دیا تھا۔ ایرانیوں نے اس پورے ساحلی علاقے کو اپنا باجگزار اس لئیے بنایا ہوا تھا تاکہ جزیرہ نمائے عرب کے اکھڑ قبائل کو قابو میں رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیدنا عمرؓ کے دور میں صحابہ کرامؓ یزدگرد کے دربار میں پہنچے تو اس نے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا، ’’تمہاری یہ مجال کہ تم یہاں تک آپہنچے ہو، ہم تو تمہارا دماغ اپنے گورنروں کے ذریعے سیدھا کیا کرتے تھے‘‘۔ لیکن حضرت عمرؓ کی ایران پر اس عظیم الشان فتح سے بہت پہلے ہی رسولِ اکرم نے اس خطے کو بت پرستی اور ایرانی اثرورسوخ سے پاک فرمایا دیا تھا۔ اس پورے خطے میں بت پرستی کا ایک مرکز تھا جسے ’’کعبۃ الیمانیہ‘‘ یعنی یمن کا کعبہ کہا جاتا تھا۔ یہ قبیلہ خثعم کا بت خانہ تھا جسے ذوالخلصہ کہتے تھے۔ یہی وہ خطہ تھا جہاں ابرہیہ نے صنعا کے قریب بہت بڑی عبادت گاہ تعمیر کی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ عرب اسے مرکزِ عبادت بنائیں مگر عربوں کے دل میں کعبہ بسا ہوا تھا، اسی پر غصے کے عالم میں وہ 570ء میں ہاتھیوں کی فوج کے ساتھ خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کے لئیے نکلا، مگر جب مکہ کے نزدیک پہنچا تو اللہ نے اس کی فوج پر ’’ابابیلوں‘‘ سے حملہ کرواکر انہیں کھائے ہوئے بھس کی مانند کر دیا تھا۔ یہ ساحلی پٹی کبھی ایرانیوں کے زیراثر رہتی اور کبھی رومن بادشاہوں کے زیرنگیں۔ یہی پٹی اوپر جاکر بحیرہ روم کے کنارے شام، لبنان اور فلسطین کے ساتھ ساتھ دریائے نیل تک جا نکلتی تھی۔ ان سب کے بیچوں بیچ عرب کی وہ مقدس سرزمین ہے، جسے میرے اللہ نے ان عالمی حکومتوں کی دست برد ہی نہیں بلکہ تہذیب سے بھی آزاد رکھا۔ جب پورے جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کی دعوت پھیلی تو یمن سے بھی لوگ جوق در جوق اسلام لانے لگے، مگر ذوالخلصہ کا ابھی تک بت خانہ قائم تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت جریر بن عبداللہؓ سے فرمایا، ’’ذوالخلصہ کو برباد کرکے مجھے راحت کیوں نہیں دیتے‘‘ (بخاری)۔ جریر نے بیان کیا کہ پھر وہ قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سواروں کو لے کر چلا۔ یہ سب اچھے گھڑسوار تھے مگر میں گھوڑے کی سواری اچھی نہیں کرپاتا تھا۔ آپؐ نے میرے سینے پر اپنا ہاتھ مارا میں نے انگشت ہائے مبارک کا نشان اپنے سینے پر دیکھا، فرمایا،’’اے اللہ! گھوڑے کی پشت پر اسے ثبات عطا فرما، اور اسے دوسروں کو ہدایت کی راہ دکھانے والا اور خود ہدایت یافتہ بنا‘‘۔ اس کے بعد جریرؓ روانہ ہوئے اور ذوالخلصہ کی عمارت گراکر اس کو آگ لگادی (صحیح بخاری)۔ اسی قبیلہ خثعم کے بارے میں ترمذی اور ابودائود کی وہ مشہور حدیث ہے جس میں ایسے مسلمانوں کا ذکر ہے جو وہاں کافروں کے درمیان رہائش پذیر تھے۔ آپ ﷺ نے ایک سریہ اس جانب روانہ کیا اور وہاں پر رہائش پذیر مسلمان بھی مشرکوں کے ساتھ اسی جنگ میں قتل کردئیے گئے۔ آپؐ کو خبر ملی تو آپؐ نے ان کی آدھی دیت دینے کا حکم دیا اور پھر قیامت تک ایک اصول واضح کرتے ہوئے فرمایا، ’’میں ہر اس مسلمان سے برّی الذمہ ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسولؐ آخر کیوں۔ آپؐ نے فرمایا، ’’مسلمانوں کو کافروں سے اتنی دوری پر سکونت پذیر ہونا چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکیں (ترمذی: 1604)۔ اس علاقے کے گردونواح میں ہی قبیلہ دوس آباد تھا، جس کے سردار عرب کے قابلِ ذکر اشراف اور معدودے چند اصحاب مردت میں سے تھے۔ اسی قبیلے کا سردار طفیل بن عمرو بہت مہمان نواز تھا، وہ رسولِ اکرمؐ کا سن کر مکہ پہنچا تو سردارانِ قریش نے اسے گمراہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ایک نبی آیا ہے جو قبیلے سے لوگوں کو جدا کرتا ہے اور تمہاری سرداری کو بھی اس سے خطرہ ہے۔ اس لئیے وہ جب حرم میں گیا تو اپنے کانوں میں روئی ٹھونس کر گیا کہ کہیں آپؐ کا کوئی کلام اس کے کانوں میں نہ آجائے۔ لیکن جیسے ہی اس نے رسولِ اکرمؐ کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا تو وہ قریب ہو تا گیا اور ایسا مسحور ہوا کہ ایمان لے آیا۔ بہت دن کعبہ میں ٹھہرا۔ جتنا ممکن ہوا قرآن یاد کیا اور پھر رسولِ اکرمؐ سے کہا میں قبیلے میں واپس جا کر دعوت دینا چاہتا ہوں۔ آپؐ مجھے کوئی نشانی عطا کردیں۔ آپؐ نے دعا کی ’’اللہ طفیل کو کوئی نشانی عطافرمائیں‘‘، طفیل کہتے ہیں کہ میں جب اپنے قبیلے کے قریب پہنچا تو میری دونوں آنکھوں کے درمیان ایک روشنی پیدا ہو گئی۔ میں نے دعا کی کہ یہ روشنی میری لاٹھی میں منتقل ہو جائے تو وہ ایک قندیل بن کر میری لاٹھی کے سرے پر لٹکنے لگی۔ پورے دوس قبیلے میں سب سے پہلے حضرت ابوہریرہ نے ایمان قبول کیا جبکہ باقی سب بہت لیت و لعل کے بعد مسلمان ہوئے۔ اس سارے پس منظر کے بعد سیدالانبیاء ﷺ کی احادیث کی روشنی میں متحدہ عرب امارات کے یہودیوں سے دوستی کے فیصلے کو سمجھنے میں مشکل نہیں ہوتی۔ جزیرہ عرب میں یہ پہلا خطہ ہے کہ جس نے سب سے پہلے رسولِ اکرمؐ کی اس ہدایت کی خلاف ورزی کی جس میں آپؐ نے مشرکین اور مسلمانوں کو علیحدہ رہنے کا حکم دیا تھا۔ متحدہ عرب امارات نے ایک ایسی دنیا آباد کی جس میں تمام طرز زندگی تک یورپ سے مماثلت رکھتی تھی، یہاں تک کہ نائٹ لائف تو مغرب سے بڑھ کر ہے، جس میں ہر علاقے کی خاتون میسر ہوتی ہے۔ آپؐ نے حکم دیا تھا کہ جزیرہ نما عرب میں دوادیان کو جمع مت ہونے دینا (مسلم: 1767)۔ بلکہ حضرت ابوعبیدہ الجراح روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرمؐ نے آخری کلام جو فرمایا وہ یہ تھا کہ ’’یہود کو حجاز سے نکال دو‘‘(مسند احمد)۔ اسی خطے میں قیامت کی سب سے اہم نشانی پوری ہوئی کہ ’’ننگے پائوںچرواہے بلند و بالا عمارتیں تعمیر کرنے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے (بخاری، مسلم)۔ دبئی شہر کی آسمان کو چھوتی عمارات اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ صدیوں ایرانی اور رومن مشرکین کے زیر اثر رہنے والا یہ خطہ عربوں کی اس تباہی پر دستک کر رہا ہے، جس کی خبر میرے آقاؐ نے دی تھی۔ آپؐ نے ایک ایسے فتنے کے بارے میں بتایا تھا، جس سے عرب کا کوئی ایک گھر بھی نہیں بچے گا(مشکوٰۃ)۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کا یہ معاہدہ اسی تباہی کی جانب اٹھنے والا پہلا قدم ہے۔