اسلام آباد (خبر نگار)عدالت عظمیٰ کے 3رکنی بنچ نے شالیمار سٹیل ملز سے متعلق کیس میں ہائیکورٹ کو زیر التوا درخواست پر 3ماہ میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کر دی۔ دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے شالیمار سٹیل ملز کے وکیل سے استفسار کیا آپ نے 8 کروڑ روپے لینے ہیں بینک گارنٹی کیوں نہیں دے رہے ؟8کروڑ روپے نیشنل بینک میں پڑے ہیں، سود بھی مل رہا ہے ۔ وکیل نے کہا 7سال سے ملز بند ہے ہمارے پاس پیسے ہی نہیں جس کے باعث ہمارے سینکڑوں ملازمین بے روزگار ہیں۔جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دیئے کہ کیس ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے ، سپریم کورٹ نے کوئی فیصلہ دیا تو مرکزی کیس متاثر ہوگا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا 7سال کے دوران کیس میں41بار التوا لیا گیا۔ ملزم کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا ہم عدالت سے مزید التوا نہیں لیں گے ، میرے موکل نے زیور بیچ کر ضمانت لی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کورونا کیوجہ سے جلدی کچھ نہیں ہوگا ۔ہائیکورٹ کو 3ماہ میں فیصلے کا کہہ دیتے ہیں اوردرخواست نمٹا دی۔علاوہ ازیں منگل کو کیس ڈی لسٹ کرنے پرسپریم کورٹ میں پاکستان سٹیل کے مقدمے کی سماعت نہیں ہوسکی جبکہ وفاقی وزارت صنعت و پیدوار کی متفرق درخواست کے ذریعے جمع کرائی گئی تحریری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سٹیل کو متعدد بار بیل آئوٹ پیکیج دینے کے باجود ملز کو خسارے کا سامنا ہے ۔رپورٹ کے مطابق پاکستان سٹیل ملز کو پرائیوٹائز کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ،جس کے لئے فنانشل ایڈوائزر کی تقرری کی جاچکی ہے ، پاکستان سٹیل ملز کے ملازمین کو تنخواہوں اور بقایات کی ادائیگی سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کی جائے گی۔رپورٹ کے مطابق پاکستان سٹیل ملز کو چلانے کے لئے اب تک 5 بیل آوٹ پیکجزکے تحت2008ئسے ابتک 58 ارب روپے دئیے گئے ،پاکستان سٹیل ملز کو سوئی گیس کے بل کی مد میں 22 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔نیشنل بینک آف پاکستان کا36ارب قرضہ بھی ا ادا نہیں کیا گیا۔پاکستان سٹیل ملز نے جون 2015ء میں کمرشل آپریشن بند کیا اور 14 ہزار 753 ملازمین کا کوئی پلان نہیں بنایا،2019ء میں ملز ملازمین کی تعداد کم ہوکر 8 ہزار 884 تک رہ گئی، پی ایس ایم انتطامیہ کی جانب سے ادائیگی کا پلان حتمی ہوگا۔علاوہ ازیں پاکستان سٹیل ملز لیبر یونین نے کیس میں فریق بننے کے لئے درخواست دائر کردی ہے ۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ سرکاری شعبے میں ملز کو منافع میں چلایا جا سکتا ہے ۔ ماضی میں 2000ء سے 2008ء تک ملزقرضہ ادا کرنے علاوہ 20 ملین روپے کا منافع بھی کمایاتھا۔