اسلام آباد کے بارے میں کسی زمانے میں باکمال شگفتہ گو شاعر پروفیسر عنایت علی خاں نے یہ پھبتی کسی تھی کہ: اس شہرِ دل آویز کی کیا بات ہے واللہ رعنائی و زیبائی میں ہم دوش اِرم ہے لیکن مِرا اک دوست یہ کہتا ہے کہ یارو! اسلام تو اسلام ، یہ آباد بھی کم ہے پھر لگتا ہے اس بات کو اسلام آباد والوں نے دل پہ لے لیا اور ایک دوسرے مزاحیہ شاعر کے بقول ’کاکے پہ کاکا چل رہا ہے‘ کا ایسا جذباتی مظاہرہ پیش کیا جو آج تیسرے شاعر کے الفاظ میں ’اپنی راہیں کر دے گا مسدود یہ بڑھتا ہجوم‘ کی عملی تصویر پیش کر رہا ہے۔ معروف مصور جناب اسلم کمال نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ۱۹۸۰ء تک یہ شہر اتنا ویران تھا کہ جگہ جگہ سانپ اور سؤر پھرا کرتے تھے۔ یہ دونوں مخلوقات تو خیر اب بھی وہاں بہ کثرت موجود ہیں لیکن چھوڑیں ہمیں ان موذیوں سے کیا لینا؟ اسلام آباد کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ گملے میں اُگایا ہوا شہر ہے۔ حکیم جی کے بقول یہاں کی صدر کاری اور شجر کاری دنیا بھر میں مشہور ہے۔ صدر کا پودا یہاں سیاسی شجر کاروںکی ڈیکوریشن پِیس کی ضروریات کے پیشِ نظر اِن ڈور پلانٹ کی صورت اگایا جاتا ہے، جسے ہرحکومت بالعموم اپنے اپنے ڈرائنگ روم کی گنجائش کے مطابق کاشت اور نمایاں کرتی ہے۔ ویسے توسیاست کے آدم خور پودے بھی یہاں ملک کے چپے چپے سے درآمد کیے جاتے ہیں لیکن اپنی جبلّی پختہ کاری کے سبب وہ جڑ پکڑنے کی بجائے جڑ کاٹنے کی مہارت حاصل کرتے پائے جاتے ہیں۔ ان سب باتوں کے بر عکس یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادب کی شجرکاری اس شہر کے لیے بہت مفید رہی ہے کیونکہ ایسے خود سر، خود ساختہ اور پیوندیدہ شجر کا پھل اگر ممتاز مفتی، خالدہ حسین، منشا یاد، شفیق الرحمن، ضمیر جعفری، کرنل محمد خاں، احمد فراز، فتح محمد ملک، مسعود مفتی، افتخار عارف، مظہرالاسلام، جلیل عالی، انور مسعود، وحید احمد،پروین شاکر، نجیبہ عارف کی صورت ملتا ہے تو ہمیں سارے شہر ڈھا، گِرا کے نئے سرے سے گملوں میں کاشت کر لینے چاہئیں۔ جہاں تک میری طرح کی جوان نسل کا تعلق ہے، ان میں ایک ہمارا دوست سلمان باسط ہے، جس کے مختصر سے نام میں بھی دو سین پائی جاتی ہیں حالانکہ ایک سے زیادہ سین کی اجازت تو اُردو حروفِ تہجی کو بھی نہیں ملی۔ ایک دن حکیم جی فرمانے لگے کہ جب سنار، ستارے، سکون کی طرح اسلام آباد، سعودی عرب، امجد اسلام، پطرس بخاری، سیالکوٹ، ساہیوال،ظہیر عباس، ششمیتا سَین، سب کا ایک ہی سِین پہ گزارا چل رہا تھا، حتیٰ کہ فلسطین اوراسرائیل تمام تر مخالفتوں کے باوجود ایک ایک سین پہ متفق ہیں، تو اس عزیزی کو فضول خرچی کی کیا ضرورت تھی؟ لالہ بسمل کہتے ہیں کہ یہاں تو جس رشتے میں دو سین آ جائیں وہ لوگوں کے دلوں سے اتر جاتا ہے، نہیں یقین تو دنیا کے کسی بھی فرد سے اس کی ساس یا سسر سے متعلق پوچھ کے دیکھ لیجیے۔ میرے نزدیک سلمان باسط کی یہی انفرادیت ہے کہ یہ ڈبل سین میں بھی اچھا لگتا ہے۔ ادب میں اس کی سب سے بڑی خوبی خاکہ نگاری ہے اور خامی یہ کہ اس نے یہی شغل عرصے سے بند کر رکھا ہے۔حکیم جی نے چلتے ہوئے میرے کان میں پھونکا کہ اس عزیزی سے پوچھ کے آنا کہ ’خاکی خاکے‘ کے بعد اب ’باقی خاکے‘ کون لکھے گا؟ ایک وہ ہمارا پیارا عزیز فیصل ہے، جو پینسٹھ کلومیٹر کی رفتار سے مزاحیہ اشعار لکھتا ہے اور جس کے محبوب ہَیک ہو جانے کی خبر بھی ہمیں اس کی مترنم شاعری سے ملتی ہے۔ ادبی حلقوں میں جتنی ان کی بشیراں مقبول ہوئی ہے، اتنی تو سلطان راہی کی ’بشیرا‘ بھی ہِٹ نہیں ہوئی تھی۔ یہ حضرت ایک سکول میں پرنسپل ہیں حالانکہ اب تو ان کا ایک اپنا ’سکول آف ٹھاٹ‘ ہے۔ شاعری اور دوستی کی محافل پہ اس قدر اصرار کرتے ہیں کہ جی چاہتا ہے عزیزِ مصر کی رعایت سے ان کا نام ’عزیزِ مُصر‘ رکھ دیں۔ ایک زمانے میں ہم بہت خوش ہوا کرتے تھے کہ انجئیرنگ نے اردو ادب کو بڑے بڑے نام دیے ہیں لیکن اب ہم شاکی ہیں کہ یہی انجنئیرنگ ہمارے بڑے بڑے قلم کار کھا گئی ہے۔ محمد خالد اختر تمام عمر اس شعبے سے رنجیدہ رہے۔ اب ادریس بابر، شاہین عباس، نوید صادق کے ساتھ ساتھ اسلام آباد سے لپٹا، امکانات سے بھرا رحمان حفیظ بھی کام کو عشق سمجھنے سے قاصر ہے۔ رحمان حفیظ اپنی ذہانت و دیانت کے سبب شعری دنیا کا نقشہ تبدیل کر سکتا تھا لیکن شہری کالونیوں کے زمینی نقشے بناتے بناتے خود لاہور کا نقشہ سٹاپ بنا کھڑا ہے۔ گویا سول انجنیئرنگ ان کے لیے اِول (Evil) انجنیئرنگ ثابت ہوئی ہے۔ پھر اس کے علاوہ بھی اسلام آباد کے موجودہ پُر بہار منظرنامے پہ نعیم فاطمہ علوی، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، محمد حمید شاہد، نسیمِ سحر، جبار مرزا، محبوب ظفر، ڈاکٹر روش ندیم،ڈاکٹر عابد سیال، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد، علی محمد فرشی، رفیق سندیلوی، انوار فطرت، اختر عثمان، ارشد معراج، اختر رضا سلیمی، ڈاکٹر حمیرا اشفاق، خلیق الرحمن، حمید قیصر، قاسم یعقوب،عارفہ ثمین اختر، ڈاکٹر فرحت جبیں وِرک، ڈاکٹر ذوالفقار علی،فاخرہ نورین، رباب تبسم،فاروق عادل، سعید اختر ملک، مقصودہ حسین اور تازہ آوردہ جناب ڈاکٹر رؤف پاریکھ اور ڈاکٹر یوسف خشک کو دیکھ کے بھی بلبل تقریباً نغمہ سنج ہے۔ میری موجودہ اسلام آباد یاترا کی محرک محترمہ نعیم فاطمہ علوی تھیں۔ ان سے میری انسیت بھی اورینٹل کالج کے حوالے سے ہے۔ نعیم فاطمہ علوی کا مخفف ، ن، ف، ع، یعنی نفع بنتا ہے۔ اس لیے یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ ان کے ساتھ تعلق کا کھاتہ نفع نقصان کی بنیاد پر نہیں نفع نفع کی بنیاد پر کھلتا ہے۔ کیسی حوصلہ مند خاتون ہیں کہ ایسے شوہرِ نامدار سے نبھاہ کیے چلی جا رہی ہیں، جن کے نام میں دو پاکستانی صدور چھپے بیٹھے ہیں۔ یہاں پورے ملک سے ایک وقت میں ایک صدر برداشت نہیں ہوتا۔ ایسی مرصع دل، مرفع دماغ اور مقفیٰ آداب خاتون ہمارے معاشرے میں کم کم ملتی ہیں، وگرنہ تو اسلام آباد ایسی طرح دار خواتین سے بھرا پڑا ہے، جو بقول یوسفی چہل قدمی بھی کر رہی ہوں تو لگتا ہے چُہل قدمی کر رہی ہیں۔ اس نفع خاتون کے جن میاں صاحب کا ذکر آیا ہے، وہ جناب ڈاکٹر ایوب علوی ہیں جو فاسٹ نیشنل یونیورسٹی کے ریکٹر ہیں اور نہایت اونچے ریکٹر سکیل پہ ہونے کے باوجود محنتی اور محبتی آدمی ہیں۔ یونیورسٹی کو جنت کا نمونہ بنا رکھا ہے، جس کا تذکرہ بعد میں، پہلے اسی یونیورسٹی میں منعقدہ ’مناثرہ‘ کا حال سن لیجیے کہ محترمہ نعیم فاطمہ علوی نے اس سیاسی کشاکش کے شہر میں مشاعرہ کی طرز پر ’مناثرہ‘ کی محافل کا بندوبست کر رکھا ہے، جن میں قلم کاروں سے شعر کی بجائے نثر پارے سنے جاتے ہیں۔ گزشتہ روز فاسٹ نیشنل یونیورسٹی میں منعقدہ خوبصورت نشست میں راقم کو بطور مہمان شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ بونس میں ڈھیر سارے دوستوں سے ملاقات ہو گئی اور عمدہ نثر لکھنے والوں کے لیے اچھی خبر یہ کہ بہت جلد محافلِ ’مناثرہ‘ کا لاہور چیپٹر شروع کیا جا رہا ہے۔ (جاری ہے)