اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پلوامہ حملے کی مذمتی قرار داد میں پاکستان کا نام شامل کرنے سے انکار کر کے بھارت کی مذموم کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بھارت سلامتی کونسل کے پندرہ اراکین کو مسلسل اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ سلامتی کونسل ناصرف اس واقعہ کی مذمت کرے بلکہ اس میں پاکستان کا نام شامل کر کے واقعہ کو دہشت گردانہ کارروائی قرار دے۔ سلامتی کونسل نے پاکستان کا نام شامل کرنے سے صرف انکار نہیں کیا بلکہ واقعہ کو دہشت گردی کے بجائے خودکش حملہ قرار دیا۔ سلامتی کونسل نے اپنے بیان میں کہا کہ کونسل کے اراکین دہشت گردی کی تمام اقسام کی مذمت کرتے ہیں اور اس کے خاتمہ کے لئے پرعزم ہیں۔ بھارت ہمیشہ سے عالمی اداروں اور بین الاقوامی ضابطوں کو اپنی غرض کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ کرکٹ ایک کھیل سہی مگر دونوں ملکوں کے کروڑوں افراد کی خواہش ہے کہ پاکستان اور بھارت اچھے سپورٹس مین بن کر ایک دوسرے سے میچ کھیلیں۔ بھارت کے پاس مارکیٹنگ کی بڑی منڈی ہے۔ اس منڈی نے اسے بے تحاشا وسائل فراہم کئے ہیں۔ پھارت نے سیاسی اور سفارتی کوششوں کا رخ ایک مدت سے اس طرف موڑ رکھا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو اس مقبول کھیل میں تنہا کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لئے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی تنظیم پر اپنا اثرورسوخ بڑھایا گیا۔ دنیا بھر میں لابنگ کی گئی کہ پاکستان کھیلوں کے مقابلوں کے لئے محفوظ ملک نہیں۔ ان تمام کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو اپنے ہوم گرائونڈز پر بین الاقوامی میچ کھیلے ایک عشرہ ہونے کو ہے۔ ٹینس کے مقابلے میں بھارت کئی بار اپنے کھلاڑیوں کو پاکستان بھیجنے سے انکار کر چکا ہے۔ بھارت نہ صرف اپنے کھلاڑیوں کو پاکستان جانے سے روکتا ہے بلکہ پاکستانی کھلاڑیوں کو بھارت کے لئے ویزہ جاری کرنے سے انکار کرتا ہے۔ تازہ مثال شوٹنگ کے ایک بین الاقوامی مقابلے میں شرکت کے لئے پاکستانی کھلاڑیوں کو ویزہ نہ دینا ہے۔ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے بھارت میں کوالیفائنگ مقابلوں کے انعقاد پر پابندی لگا دی ہے۔ اس سے بھارت کو شرمندگی کا سامنا ہے کہ اس نے کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلوں کو پاکستان دشمنی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ پاکستان اور بھارت کے مابین بنیادی تنازع کشمیر کا ہے۔ بھارت نے جب کشمیریوں کی مرضی کے خلاف اس علاقے پر قبضہ کیا تو ریاست کے باشندوں نے مزاحمت کی۔ پاکستان نے پہلے دن سے کشمیریوں کی سیاسی و سفارتی امداد کا وعدہ نبھایا اور انتہائی نامساعد حالات میں بھی یہ فرض نبھانے کی کوشش کی۔ کشمیری حریت پسندوں نے جب خاصا بڑا علاقہ بھارتی تسلط سے آزاد کرا لیا تو بھارتی قیادت نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ کو یقین دلایا کہ پاکستان جنگ بندی پر آمادہ ہو اور حریت پسند کشمیری سیز فائر کر دیں تو وہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے پر تیار ہیں۔ بھارت نے اکہتر سال پہلے یہ وعدہ اسی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کیا تھا جہاں اب وہ پلوامہ حملے کو دہشت گردانہ کارروائی قرار دلا کر اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا چاہتا تھا۔ بین الاقوامی اداروں کے کچھ اصول اور ضابطے ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کوئی مثالی ادارہ نہیں۔ ایسا ہوتا تو کشمیر اور فلسطین کے تنازعات کب کے پرامن اصولوں کے مطابق طے پا چکے ہوتے مگر کھلی حقیقت کو جھٹلانا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ بھارت طویل عرصے سے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ کشمیری باشندوں کو حق خود ارادیت دینے کا جو وعدہ بھارت نے اقوام متحدہ میں بیٹھ کر عالمی برادری سے کیا تھا کشمیری عوام اسے وہ وعدہ یاد دلاتے ہیں۔ کشمیری قیادت نے کئی برس قبل پاکستان کے مشورے پر بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لئے نمائندہ جماعتوں پر مشتمل حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ بھارت نے حریت رہنمائوں کو مسلسل قیدو نظر بند رکھ کر پیغام دیا کہ وہ پرامن انداز میں تنازع کا حل نہیں چاہتا۔ اس بات کے شواہد اقوام متحدہ سمیت متعدد بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کے پاس ہیں کہ بھارت کشمیر میں بھاری اسلحہ استعمال کر کے نہتے شہریوں کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ بھارت کے ظلم اور بربریت سے کوئی کشمیری محفوظ نہیں۔ چند ماہ پہلے اقوام متحدہ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر چشم کشا رپورٹ جاری کی۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں ڈھائی سالہ حبا کی وہ تصویر پوری دنیا نے دیکھا جس میں وہ پیلٹ گن سے متاثر آنکھ کے ساتھ نظر آ رہی تھی۔ ہر روز بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کے قتل کے واقعات نئے نہیں۔ برسہا برس سے کشمیری یہ قربانیاں دیتے آ رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان پہلے خطاب میں بھارت کو مذاکرات کے ذریعے اختلافات ختم کرنے کی پیشکش کی۔ اس پیشکش کے جواب میں بھارت نے جو رویہ اختیار کیا وہ مایوس کن ہے۔ کشمیری عوام پاک بھارت مذاکرات میں تعطل کو اپنے مسائل کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ شائد ایسی ہی مایوسی کا شکار ہو کر عادل ڈار نے خودکش حملے کا سوچا ہو۔ بہرحال عالمی برادری نے بھارت پر واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش نہ کرے۔ اس کے باوجود بھارت اگر بات کو بڑھانا چاہتا ہے تو ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور واضح کر چکے ہیں کہ بھارت نے جارحیت کی تو سرپرائز دیں گے۔