اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب ٹی ایس تیرومورتی نے سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے لیکن انکی حکومت پاکستان کے ساتھ دو طرفہ مسائل کے حل کے لیے بات کرنے کو تیار ہے۔ ٹی ایس مورتی کا کہنا تھا کہ بھارت دنیا کو بتانا ضروری سمجھتا ہے کہ جموں و کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ ہے لہذا بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 میں کسی بھی قسم کی تبدیلی یا ترمیم آئین کی دیگر شقوں کی طرح جمہوریہ ہند کی پارلیمنٹ کا واحد اختیار ہے۔ بھارتی مندوب کی اس دلیل کو چیلنج کیا جا سکتا ہے ، ریکارڈ شاہد ہے کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں میں یہ کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے جب تک کہ کئی دہائیوں پرانے تنازعہ کا حل نہ نکلے ، یہاں تک کہ موجودہ سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس بھی کہہ چکے کہ بھارت کا 8 اگست 2019 ء کا اقدام غیر قانونی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہے۔ سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالنے کے موقع پربھارتی سفیر نے پاکستان سے کہا کہ وہ 1972 ء کے شملہ معاہدے کے تحت اپنے وعدوں پر عمل کرے۔ سفیر تیرومورتی نے کہا کہ مذاکرات دہشت گردی ، دشمنی اور تشدد سے پاک فضا میں کیے جانے چاہئیں اور اس لیے پاکستان پر ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی سازگار فضا پیدا کرے ، جس میں قابل اعتماد اور قابلِ عمل بات چیت ہو سکے۔ اقوام متحدہ کے بنیادی اداروں میں سلامتی کونسل اس لیے اہم ہے کہ کسی ملک پر پابندی لگانے‘ پابندی ہٹانے‘ فوجی کارروائی کرنے یا اسے عالمی سطح پر الگ تھلگ کرنے سے لیکر صلح صفائی تک کے معاملات سلامتی کونسل ہی طے کرتی ہے۔ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین امریکہ‘ انگلینڈ‘ روس‘ فرانس اور چین ہیں۔ ان پانچوں ریاستوں کو کسی قرارداد یا تجویز کو ویٹو کرنے کا حق حاصل ہے۔ کشمیر کا تنازع ابتدا میں اس لیے حل نہ ہو سکا کہ سوویت یونین بھارت کے کہنے پر ہر قرار داد ویٹو کردیتا۔ سلامتی کونسل کے 10 اراکین غیر مستقل ہوتے ہیں جنہیں ہر دو سال بعد منتخب کیا جاتا ہے۔ سکیورٹی کونسل کے سبکدوش ہونے والے صدر نکولس ڈی ریوے ہیں۔ ان کی مدت مکمل ہونے کے بعد بھارت کے مستقل سفیر برائے اقوام متحدہ کو اگست 2021ء کے مہینے کے لیے صدر منتخب کیا گیا ہے۔ بھارت اس وقت سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی رو سے انگریزی حروف کی الفا بیٹکل ترتیب کے حساب سے ہر ماہ سلامتی کونسل کی صدارت دوسرے رکن ملک کو تفویض کر دی جاتی ہے۔روایت یہ رہی ہے کہ صدر منتخب ہونے والا مندوب اپنے منصب کو حتی الامکان متنازع بنانے سے بچاتا ہے۔ سفارتی آداب اور رکھ رکھائو کا خیال رکھتے ہوئے ان ممالک کے متعلق محتاط لب و لہجہ اپنایا جاتا ہے جو صدر کے ملک کے مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ یہ آداب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہ اجلاس سے کسی قدر مختلف اور زیادہ احتیاط کا تقاضا کرتے ہیں۔ جنرل اسمبلی میں سربراہ شریک ہوتے ہیں اور سال میں ایک بار جمع ہو کر عالمی مسائل کے حل اور اپنے ملک کی بین الاقوامی حیثیت کے مطابق خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ وینزویلا‘ کیوبا‘ ایران جیسے ممالک کے سربراہ امریکی صدر کو شیطان تک کہہ دیتے ہیں لیکن سلامتی کونسل کا مینڈیٹ ایک بالکل مختلف طرز عمل کوقبول کرتا ہے۔ سلامتی کونسل کے صدر کے پاس کئی طرح کے اختیارات ہوتے ہیں۔ یہ صدر کی صوابدید ہوتی ہے کہ وہ اپنے دور صدارت میں سلامتی کونسل میں زیر بحث آنے والے معاملات کا ایجنڈا اپنی مرضی سے ترتیب دے‘ عموماً اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ایجنڈے پر لانے کے لیے سفارشات بھیجتے ہیں تاہم صدر کا کردار حتمی ہوتا ہے۔ سلامتی کونسل کے صدر کا یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی معاملے پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلائے یا اجلاس کو ختم کرنے کا اعلان کرے۔ سلامتی کونسل کے صدر کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اجلاس کے دوران کئے جانے والے سوالات کو پالیسی کے مطابق نہ ہونے پر مسترد کردے۔ پاکستان اوربھارت کے درمیان کشمیر کے تنازعے نے تشویشناک صورت اختیار کی تو جنوری 1948 ء میں پہلی مرتبہ سلامتی کونسل میں اس مسئلے کی شنوائی ہوئی۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر ابتدائی قراردادیں پاکستان اور بھارت سے پرامن رہنے اور سلامتی کونسل سے تعاون کی اپیل پر مبنی ہیں۔سلامتی کونسل نے ایک قرارداد کے ذریعے کمیشن بھی قائم کیا، جسے اقوام متحدہ کمیشن برائے انڈیا،پاکستان(UNCIP) کا نام دیا گیا۔ مذکورہ کمیشن نے دونوں حکومتوں سے بات چیت اور کشمیر کی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد تیرہ اگست 1948ء کو اپنی پہلی تفصیلی قرارداد منظور کی، جسے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلا حصہ جنگ بندی سے متعلق تھا۔ دوسرے حصے میں جنگ بندی کے معاہدے اور فوجوں کی واپسی کے طریقہ کارپر غور کیا گیا۔ تیسرا حصہ استصواب رائے سے متعلق تھا۔کمیشن قرارداد کے پہلے حصے یعنی جنگ بندی پر عمل درآمد کرانے میں کامیاب رہا۔پاکستان اور بھارت یکم جنوری 1949 ء سے کشمیر میں جنگ بندی پر راضی ہوگئے۔اس ضمن میں کمیشن کی جانب سے پانچ جنوری 1949 ء کو دوسری تفصیلی قرارداد منظور کی گئی، جس میں آزادانہ استصواب رائے کے انعقاد پر بحث کی گئی ہے ۔بھارتی مندوب سلامتی کونسل کے اس تاریخی کردار سے پہلو تہی کر کے اپنے مینڈیٹ سے روگردانی کے مرتکب ہوئے ہیں ۔پاکستان اور اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس کو اس بات پر نظر رکھنا ہو گی کہ سلامتی کونسل کے صدر کے طور پر بھارتی مندوب کے طرز عمل سے پاکستان کو امتیازی سلوک کی شکایت پیدا نہ ہو۔