اس کے لب پر سوال آیا ہے یعنی شیشے میں بال آیا ہے زندگی پھر سے سانس لینے لگی وہ ہوا کی مثال آیا ہے الماس شبی نے توجہ دلائی کہ شاعری میں محاورہ شعر کے حسن کو دو چند کر دیتا ہے۔ لب پر سوال آنا اور شیشے میں بال آنا کو عوام پر منطبق کریں تو کام دو آتشہ ہو جاتا ہے لوگ بلک رہے ہیں۔ ویسے تو بے بس آنکھیں بھی سوالی بن جاتی ہے بلکہ خامشی بھی بعض مرتبہ یہی کام کرتی ہے اسی طرح مصرعے جو ضرب المثل بن جاتے ہیں محاورے ہی کا کام کرتے ہیں بعض ضرب المثل اس دور میں آ کر زیادہ کھلے ہیں۔ مثلاً کب سے ہم استعمال کرتے آئے ہیں کہ کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ اب کے سوشل میڈیا پر فوراً پتہ چل جاتا ہے کہ لوگ یعنی خلقت آپ کی شان میں کیا کیا ارشاد فرما رہی ہے۔ محاورتاً کہوں تو: پاس رکھو تم اپنے وعدوں کو کان بجنے لگے ہیں میرے بھی لوگ بہت سیانے ہیں کہ حکمرانوں کے منہ سے نکلنے والی بات کو ایک لمحے میں ردعمل سے نواز دیتے ہیں۔ بالکل نیوٹن کے کلیے کے مطابق کہ جیسے گیند دیوار سے ٹکرا کر واپس آتی ہے ۔ ادھر اعلان ہوا کہ پیٹرول کی قیمتیں نہیں بڑھیں گی۔ ادھر پوسٹیں لگ گئیں کہ سبحان اللہ پہلے بیان دلوایا کہ پٹرول کی مصنوعات گراں ہو جائیں گی اور پھر ان کو برقرار رکھنے کا اعلان،گویا کہ سیلاب کو روک لیا گیا۔ سب مل کر داد دیں۔ویسے داد تو بنتی ہے کہ اگر وہ سچ مچ بڑھا دیتے تو ہم کیا کر سکتے تھے۔ آپ اسے حکمرانوں کا احسان ہی سمجھیں۔ اس طرح کی طنز کر کے خان صاحب کو غصہ نہ چڑھائیں وگرنہ ان سے کچھ بھی بعید نہیں ویسے جب محاوروں کی بات کریں گے تو ایک محاورہ خان صاحب نے بھی اردو ادب کو دیا ہے گھبرانا نہیں۔ جیسے قاضی آ رہا ہے۔ زرداری سب پہ بھاری اور شیر ایک واری فیر۔اب پتہ نہیں یہ محاورے ہیں ضرب المثل یا کچھ اور ویسے لوگ بھی بڑے ستم ظریف ہیں کہتے ہیں۔یہ وطن تمہارا ہے ۔ ہم ہیں خاہمخواہ اس میں: دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے درمیان میں بریکنگ نیوز بھی ضروری ہے کہ پاکستان کرکٹ صیم نے پہلی فتح کا مزہ چکھ لیا ہے۔یہ کوئی خیر سگالی فتح نہیں ویسے ٹیسٹ میں بھی ہماری پرفارمنس کوئی بری نہیں تھی۔ یہ الگ بات کہ بارش ہماری مدد کو آئی اور ہماری ٹیم سرخرو ہو گئی۔ تب مجھے مشتاق یاد آئے کہ جو ایک میچ میں بارش کی دعائیں کر رہے تھے کہ اچانک سرفراز نواز نے وکٹیں گرانا شروع کر دیں اور چند رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کر کے پاکستان کی ہار کو فتح میں بدل دیا تھا۔ بہرحال سب سے زیادہ خوشی حیدر علی کی ففٹی ہے کہ وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے پہلے ٹوئنٹی ٹوئنٹی میں ففٹی کی، اس کے ساتھ ہی دوسری بڑی خبر یہ کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں دو سالہ کارکردگی رپورٹ پیش کی گئی جو توقعات کے عین مطابق تسلی بخش تھی۔ ان انتظامات کی جھلک اسی صفحہ پر اوپر دی گئی پانچ کالمی سرخی میں نظر آئی کہ پنجاب میں تبادلوں کا جھکڑ، سیکرٹری کمشنر عہدہ کے 18پولیس کے 28افسروں کے تبادلے۔ مزید تفصیل کی ضرورت نہیں کون کہتا ہے کہ پنجاب میں کچھ نہیں ہو رہا۔۔ کچھ نہ کچھ ہوتا رہنا چاہیے وگرنہ ٹھہرے پانی پر کائی جم جاتی ہے تفنن طبع کے تحت ماسٹر الطاف کی یاد گدگدا گئی۔ اپنے قارئین کو ان کے دو پیارے سے شعر پڑھا دیتے ہیں دو شعر اور دو رنگ: کجھ نہ کجھ تے چبلا سکھ لے پڑھنا نئیں تے طبلہ سکھ لے کنیں بھانبھڑلکے نے ماچس دی اک ڈبی وچ ایک وضاحت ضروری ہے کہ یہ لفظ چبلا قافیے کی مجبوری تھی اس کا مطلب ہے فضول۔ یہ وہی لفظ ہے کہ کسی نے بارات لانے والے سے کہا اوئے ! تم نے تو بارات تیس صد بندوں کا کہا تھا پھر یہ چھ صد بندے کیوں لے آئے ہو۔ بارات لانے والے نے کہا کہ بندے تو ان میں تین صد ہی ہیں باقی تین صد وہیـــ ہیں۔بات یوں ہے کہ لوگوں کو تو سوال کرنے میں اور سوال بھی ان کے لاجواب ہیں کہ ان سوالوں کا حکومت کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں۔ حکومت کتنی ڈھٹائی سے کہے جا رہی ہے کہ آٹے چینی کی قیمتیں نہیں بڑھنے دیں گے کسی بھی معاملے وہ گاگے گی سے آگے نہیںبڑھ رہے ہیں۔ حکومت کچھ کر کے دکھائے لوگ اسے کچھ کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔پی آئی اے والے معاملے ہی کو دیکھ لیں تو سب کچھ عیاں ہو جاتا ہے، روز بروز حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں قدرت بھی ہم پر مہربان ہیں کوئی بے برکتی سی ہے جس نے ہمیں گھیر لیا ہے۔ وہ جو ساغر نے کہا تھا: جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اس دور کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے