جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں ، اسلامی نظریاتی کونسل ایک اہم علمی معاملے پر غوروخوض فرما رہی ہے۔ امید ہے جب تک یہ کالم شائع ہو گا اسلامی نظریاتی کونسل کے بزرگان اور اکابرین قوم کی رہنمائی کا فریضہ ادا کر چکے ہوں گے۔ کیا آپ جاننا چاہیں گے وہ اہم علمی اور فکری مسئلہ کیا ہے جس کی ملک کے طول و عرض سے تشریف لانے والے یہ اہل فکر و دانش مل جل کر گتھیاں سلجھا رہے ہیں؟یہ مسئلہ ہے : بچوں کے پیٹ میں کیڑے۔ روایت ہے :’’ تقریب میں وزارت صحت کے نمائندوں اور جید علمائے کرام کی شرکت ہوئی‘‘۔روایت اس لیے معتبر ہے کہ راوی خود بھی اس تقریب کا حصہ تھے جو اس اہم فکری مسئلے کو سلجھانے کے لیے دارالحکومت میں برپا کی گئی تھی۔ اہل علم کی اس محفل میں ایسی تحقیق سامنے آئی جو رہتی دنیا تک شعبہ طب میں حیرت کدہ بنی رہے گی۔ شرکاء طویل غوروخوض کے بعد بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ بچوں کے پیٹ میں کیڑے اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ وہ مٹی میں کھیلتے ہیں۔ محققین کرام نے تو علم وفضل کے دریا بہا دیے ہیں اب یہ حکومت وقت کا کام ہے وہ دنیائے طب کی اس دریافت کو دنیا تک پہنچا کر عالم انسانیت کو فیض یاب کرتی ہے یا اس باب میں بھی روایتی غفلت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ بچوں کے پیٹ میں کیڑوں کا اسلامی نظریاتی کونسل سے کیا تعلق؟ نظریاتی کونسل کے اراکین میں ایک بھی بچہ شامل نہیں ہے۔ ہاں بزرگوں کے پیٹ میں کیڑوں پر کوئی سیمینار ہوا ہوتا تو قابل فہم ہوتا۔نظریاتی کونسل کا نہ کیڑوں سے کوئی تعلق ہے نہ بچوں سے۔ وزارت صحت کو ایسی کوئی مشق کرنا تھی تو وزارت تعلیم اس کا بہترین مخاطب ہو سکتی تھی۔نظریاتی کونسل کے زیر اہتمام بچوں کے سکول یا ادارے کام کر رہے ہوتے تو ایسی کسی سرگرمی کا کوئی جواز تلاش کیا جا سکتا تھا۔ اگرچہ وہ بھی آئین کے تحت کونسل کو حاصل مینڈیٹ سے تجاوز ہوتا۔اپنے موجودہ ڈھانچے میں یہ فکری مشق ایک ایسا نامعتبر رویہ ہے ، علم اور دلیل کی دنیا میں جس کا کوئی اعتبار نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل قائم کس لیے ہوئی تھی اور اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ آئین کے آرٹیکل 230 نے اس سوال کا بڑا واضح جواب دے رکھا ہے۔ کونسل کی پہلی ذمہ داری پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کو سفارشات پیش کرنا ہے تا کہ وہ ایسے اقدامات کریں کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت میں دیے گئے اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔کونسل کی دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ صدر ، گورنر ، صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی اور سینیٹ میں سے کوئی اس کے پاس قانون سازی کے حوالے سے کوئی سوال بھیجے تو وہ اس پر غور کر کے رائے دے کہ مجوزہ قانون اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے یا ان سے متصادم ہے۔کونسل کا تیسرا کام یہ ہے کہ وہ موجودہ قوانین کا جائزہ لے اور انہیں اسلام کے مطابق ڈھالنے کی تجاویز پیش کرے۔میں ایک طالب علم کے طور پر جاننا چاہتا ہوں کہ بچوں کے پیٹ میں کیڑوں کی وجوہات پر غور فرمانا اسلامی نظریاتی کونسل کے دائرہ کار میں کیسے آ گیا؟ کیا بچوں کے پیٹ میں کیڑوں کا تعلق لوگوں کے فہم دین سے ہے ؟ کیا لوگ کیڑوں کی دوا لینا غیر شرعی سمجھتے ہیں ؟ اگر ایسا کچھ ہوتا تو کونسل یہ جواز پیش کر سکتی تھی کہ اس نے لوگوں کو دین کا حقیقی شعور دینے کے لیے یہ علمی محفل برپا کی ہے تا کہ کیڑوں کی دوائیں بچوں کو دینا شروع کر دیں۔سامنے کی بات ہے کہ ایسا کچھ نہیں۔بچوں کے پیٹ کے کیڑے ایک خالصتا طبی معاملہ ہے اور لوگ اس معاملے میں کسی نفسیاتی گرہ کا شکار نہیںکہ کونسل کے بزرگان کو زحمت کرنا پڑے ۔ملک بھر سے مذہبی شخصیات کو مدعو کرنے کے لیے نظریاتی کونسل کے چیئر مین کی جانب سے جو دعوت نامہ بھجوا یاگیا اس کے آخر میں لکھا تھا : آپ کے سفر اور قیام و طعام کی تمام سہولیات متعلقہ ادارے فراہم کریں گے۔یہ فقرہ بتا رہا ہے کہ یہ بچوں کے پیٹ کے کیڑوں کا مسئلہ نہیں تھا۔ یہ بڑوں کے پیٹ کے کیڑوں کا معاملہ تھا۔ کونسل کی جانب سے جاری کردہ پروگرام کا ایک ایجنڈہ تھا:’’ علمائے کرام کی تجاویز‘‘۔ ایک خالص طبی معاملے میں ڈاکٹرز کی تجاویز تو قابل فہم بات ہے ۔ محسوس ہوتا ہے علمائے کرام کی تجویز برائے وزن بیت ہی ایجنڈے میں شامل کی گئی تا کہ سفر اور قیام و طعام کا جواز تلاش کیا جائے اور پیٹ کے کیڑوں کو مطمئن کیا جائے۔مدارس کے بچوں کے حوالے سے بات کرنا مقصود تھی تو وفاق المدارس اور تنظیمات المدارس جیسے ادارے موجود ہیں۔ان سے بات کی جا سکتی ہے۔ نظریاتی کونسل نہ کوئی مدرسہ چلا رہی ہے اور نہ ہی یہ اس کا آئینی مینڈیٹ ہے کہ وہ ایسی سرگرمیوں میں حصہ لے۔ ہمارے ہاں کوئی بھی حکومت نفاذ اسلام سے مخلص نہیں رہی۔ مذہبی طبقے کو اکاموڈیٹ کرنے کے لیے رویت ہلال اور نظریاتی کونسل جیسے ادارے بنا دیے گئے ہیں تا کہ یہ حضرات بیٹھے چاند چڑھاتے رہیں اور کیڑے مارتے رہیں۔ حالت یہ ہے کہ کرونا وبا کے دنوں میں نماز جمعہ مساجد کی بجائے گھروں میں پڑھنے کا فتوی لینے کی ضرورت پڑی تو صدر پاکستان جناب عارف علوی نے اسلامی نظریاتی کونسل کی بجائے جامعہ الازہر مصر سے فتوی مانگا۔ یعنی ریاست کے سربراہ کے نزدیک پاکستان کے آئینی ادارے کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی اور وہ ریاستی سطح پر ایک انتظامی فیصلے کے لیے بھی جامعہ الازہر کے فتوے کے محتاج تھے۔نظریاتی کونسل اب کبھی پیٹ کے کیڑے مار رہی ہوتی ہے اور کبھی جمہوری جدوجہد کے اعتراف میں لوگوں کو اسناد عطا کر ہی ہوتی ہے۔ کیا عجب کل کو اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے ایک دعوت نامہ پی سی بی کو بھی چلا جائے کہ آئیے مل بیٹھ کر کرکٹ کمنٹری کے اصول وضع کرتے ہیں اور نیچے لکھا ہوا ہو کہ پریشان بالکل نہیں ہونا ، آپ کے سفر ، قیام اور طعام کے اخراجات ’’ متعلقہ ادارے‘‘ دیں گے،آپ بس پیٹ کے کیڑے مارنے تشریف لے آئیں۔ اپنے آئینی مینڈیٹ کے اندر رہ کر کونسل کے کرنے کے اور بہت سے کام تھے۔ صدیوں پرانے قوانین ہم پر مسلط ہیں ، ان کا جائزہ لیا ہوتا۔ مقدمے کا فیصلہ ہونے سے پہلے لوگ سالوں جیل میں گزار دیتے ہیں اس پر غور کیا ہوتا۔صحت کو آج تک لوگوں کا بنیادی انسانی حق تسلیم نہیں کیا گیا، اس پر رائے دی ہوتی۔ ادویات مہنگی ہو رہی ہیں اور ہسپتالوں میں مفت ادویات ملنا بند ہو چکی ہیں۔ کاش کونسل نے وزارت صحت کے بابو لوگوں سے اتنا ہی کہہ دیا ہوتا کہ ایسے فضول اور بے مقصد پروگرام میں پیسے برباد کرکے ’’ اپنے امکانات ‘‘ تلاش کرنے کی بجائے اس رقم کو ڈھنگ کے استعمال میں لائو۔ لیکن نہیں ، کسی کو پرواہ نہیں۔ سب کو پیٹ کے کیڑوں نے تنگ کر رکھا ہے۔سب کر رہے ہیں آہ و فغاں ، سب مزے میں ہیں۔