نماز جمعہ سے فارغ ہو کر مسجد سے نکلے تو پہلی اطلاع خالد بھائی کی طرف سے تھی کہ الیکشن کمیشن نے عمران خاں کو نااہل قرار دیدیا ہے‘ فوراً بعد حاجی صاحب کی طرف سے اشارے موصول ہوئے‘ جی حاجی صاحب‘ کیا ہوا؟ بھائی آپ کو نہیں پتہ کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خاں کو الیکشن لڑنے کے لئے تاحیات نااہل قرار دے دیا ہے۔اچھا‘ تو پھر کیا ہوا؟ یار‘ آپ کے خیال میں ابھی کچھ بھی نہیں ہوا؟ سارے ملک میں ایک دم سناٹا ہے‘ کوئی بڑا طوفان آنے سے پہلے والی خاموشی‘ عمران خاں کے کھلاڑی طوفان اٹھا دیں گے۔ آگ اور خون کا کھیل‘ اسکے بعد مارشل لائ‘ سب کی چھٹی‘ ٹھہرئیے حاجی صاحب ذرا رکئے‘ لمبے لمبے سانس لیں خود کو ہلکان کریں نہ دوسروں کو پریشان‘ ایسا کچھ نہیں ہونے والا جس سے آپ سہمے جاتے ہیں اور دوسروں کو ڈرا بھی رہے ہیں‘ پھر یہ کیا ہے؟ جو الیکشن کمیشن نے کیا؟ یہ ’’سموک بم ہے‘‘ جسے ہم اردو میں دھوئیں کا گولہ کہتے ہیں‘ آپ کو معلوم ہے دھوئیں کے گولے کب چلائے جاتے ہیں؟ آپ ہی بتائیے‘ حاجی صاحب نے کہا‘ جب دو دشمن آمنے سامنے معرکہ آرا ہوں تو غنیم کی فوج صفوں کو روندتی چلی آئے‘ مورچوں میں محفوظ بندوقچی بھی گولیوں کی زد میں آ جائیں‘ اس وقت بھاگ نکلنے بڑھتی ہوئی فوج سے بچنے کیلئے ’’دھوئیں کے بم‘‘ چلائے جاتے ہیں تاکہ دھوئیں کی چادر کی آڑ میں پسپا ہونے اور بھاگ نکلنے کا تھوڑا وقفہ مل جائے۔الیکشن کمیشن کا فیصلہ سموک بم ہے۔ جس سے عمران خان کا کچھ نہیں بگڑے گا‘ ہاں کچھ لوگ اس کی آڑ میں بچ بچا کر بھاگ نکلنے کی کوشش ضرور کریں گے‘ دھوئیں کے بادل ہوا اڑا لے جائیگی۔سامنے آپ کو خالی مورچے اور بھاگ جانیوالوں کی باقیات نظر آئیں گی۔ گزشتہ ہفتے لکھے گئے کالم کا عنوان تھا 50 days lefrیعنی پچاس دن رہ گئے‘آج بروز ہفتہ جب یہ کالم لکھا جا رہا ہے‘ اس دوران سامنے ٹی وی پر خبریں چل رہی ہیں‘ آج جنرل باجوہ نے پھر سے کہا ہے کہ تقریباً پانچ ہفتے کے بعد وہ افواج پاکستان کے منصب سے ریٹائر ہو جائیں گے اور یہ بھی کہ سیاست سے دور رہے گی‘ ممکن ہے مستقبل میں واقعی فوج سیاست سے دور ہو جائے‘ فی الوقت جس تن بیتی وہ جانے‘ پرویز مشرف نے بھی وردی اتارنے کا باقاعدہ معاہدہ کیا تھا‘ اس معاہدے کے نتیجے میں صدر بن جانے کے باوجود بعد میں صاف مُکر گئے‘اس کہہ مکرنی پر کوئی پریشانی بھی نہ تھی‘آخر کو رسوائی رہ گئی ان کے بعد آنے والے بھی پیچھے نہ رہے‘ سوائے جنرل راحیل شریف کے ‘ کم گو جنرل کیانی اور جنرل باجوہ بھی مدت‘ ملازمت میں توسیع سے سرفراز ہوئے‘ ماضی کے تجربات کی روشنی میں قوم کو مزید توسیع نہ لینے کے اعلان پر یقین نہیں تھا تاوقتیکہ جنرل باجوہ کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران ’’واشنگٹن‘‘ سے براہ راست ان کی زبانی یہ خبر سننے کو ملی۔جنرل باجوہ کے اعلان کے بعد اس سے بھی اہم بات کل بروز جمعہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہی اگرچہ لوگوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی لیکن ان کی باتیں واشنگٹن میں کئے اعلان سے زیادہ اہم اس لئے بھی کہی جا سکتی ہے کہ اس میں عمران خاں کے اس مطالبے کی ’’بن مانے‘‘ پذیرائی بھی ہے کہ فوج کے سپہ سالار کی تقرری پسند نا پسند پر نہیں‘ میرٹ پر ہونی چاہیے‘ شاید خاقان کا کہنا ہے کہ سب سے سینئر جرنیل کی اس عہدے پر تقرری کی جائے گی‘ یقینا عمران خاں بھی یہی چاہتے ہیں اور مستقبل میں کسی بدمزدگی اور قبل از وقت اکھاڑ پچھاڑ سے بچنے کے لئے یہی بہترین طریقہ ہے‘ ورنہ سیاسی اور قومی سلامتی کے اداروں کے مابین اجنبیت اور غلط فہمی مزید پیچیدگی اور عدم استحکام کا سبب بنی رہے گی‘اس سموک بم کی حقیقت اگر باجوہ کے اعلان اور شاہد خاقان کے بیان سے کسی پر پوری طرح واضح نہیں ہوئی تو اگلے چند دنوں میں ماہ نومبر آنے تک سب پر کھل جائے گی۔ عمران خاں کو بار بار گھیرا گیا اس پر متعدد حملے ہوئے لیکن کوئی وار کارگر نہیں ہوا‘ بار بار کی ناکامی عمران خاں کی مستقل مزاجی اور عوام کی غیر مشروط حمایت نے حکومت کی صفوں میں مایوسی کے بعد انتشار کے آثار نمایاں ہیں‘ جنرل باجوہ کا اعلان کہ فوج سیاست سے دور رہے‘ چند ہفتوں میں تیسری مرتبہ اس کی تکرار کی گئی ہے‘ سیاست سے دور رہنا جانے والوں کا فیصلہ نہیں بلکہ آنے والوں کی خواہش ہے۔ جمعہ کے دن الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد قوم نے عمران خاں کے حق میں جس ردعمل کا اظہار کیا، جس تیزی سے لوگ احتجاج کے لئے باہر نکلے اس میں غصے اور رنج کے ساتھ ’’انتقام اور جارحیت کا رنگ نمایاں تھا‘ تحریک انصاف کے کارکنوں کا یہ ردعمل رات کی رات صبح ہونے تک بڑی تباہی کی وجہ بن سکتا تھا‘ عمران خاں نے اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے بروقت فیصلہ کیا اور جلد ہی ذرائع ابلاغ پر آ کر مختصر خطاب کے بعد لوگوں کو احتجاج ختم کر کے گھروں کو لوٹ جانے کا کہہ کر متوقع ہنگامے اور انتشار سے قوم کو بچا لیا۔چند گھنٹوں کے اس احتجاج کا بدحواس سیاسی حکومت کو کچھ اندازہ ہو نہ ہو‘ امن و امان کی ذمہ دار شہری انتظامیہ اور قومی سلامتی کے اداروں کے کان کھڑے کر دیتے ہیں‘ ان کو یہ سمجھنے میں آسانی ہو گی کہ عمران خاں کا ’’لانگ مارچ ‘‘واقعی ’’لانگ‘‘ ہو گا‘ یہ صرف اسلام آباد کو ہی بند نہیں کر دے گا بلکہ پورے ملک میں رسل و رسائل کے تمام ذرائع ایک دم رک جائیں گے‘ سڑکیں‘ ریل‘ چھوٹی بڑی شاہراہیں بند ہو جائیں گی‘ صرف اسلام آباد نہیں سب بڑے چھوٹے شہروں قصبوں میں ’’شٹر ڈائون‘‘ اور ’’پہیہ جام‘‘ ہو جائے گی‘ مرکزی حکومت کے پاس اس سے نمٹنے کا کوئی طریقہ نہیں‘راولپنڈی کے ایک چوک میں چند سو یا ہزار مظاہرین پر بکتر بند گاڑیوں سے آنسو گیس کے شیل پھینکے جاتے رہے لیکن جب ہر سڑک اور راستہ بند کر دیا جائے گا تو کونسی بکتر بند گاڑی آسمانوں سے اڑ کر آئے گی‘ کراچی سے خیبر‘ کوئٹہ سے آزاد کشمیر تک لوگ قافلہ در قافلہ روانہ ہونگے‘ اسلام آباد کو حکومت خود ہی بھاری گاڑیوں ٹرکوں اور کنٹینر لگا کر بند کر دے گی‘ اندر سے کارکن‘ خواتین و حضرات‘ نوجوان اُبل پڑیں گے ان کا کیا علاج ؟ اسلام آباد سے باہر آپ کو حکومت‘ اختیار‘ مددگار نہ کوئی سیاسی ورکر نہ انتظامیہ کا اختیار ہے۔ مرکزی حکومت اور نواز شریف کے اسلحہ خانہ میں الیکشن کمیشن کی بیرک میں رکھا ’’سموک بم‘‘ بچ گیا تھا‘ وہ بھی چل گیا‘ سموک بم سے اٹھنے والے دھوئیں میں پسپائی ہو سکتی ہے فتح یابی نہیں‘ عمران خاں کا اعتماد اور کچھ اداروں کے بارے میں بدلا ہوا لب و لہجہ‘ آنے والے حالات کا پتہ دیتا ہے شاید احتجاج(لانگ مارچ) کے اعلان کی نوبت نہیں آئے گی‘عمران خاں کو الیکشن چاہیے اور شہباز حکومت کو ناجائز دولت کا تحفظ اپنے تئیں انہوں نے احتساب قوانین میں ترامیم کر کے خود کو محفوظ بنا لیا ہے‘ عمران خاں بھی جانتے ہیں کہ یہ ترامیم سپریم کورٹ میں ٹھہر نہیں پائیں گی۔وہاں مصلحت یا نظریہ ضرورت کام آیا تو ان ترامیم کو آنے والی اسمبلی ختم کر دے گی‘ تب احتساب کے ادارے بھی اس قدر غیر موثر نہیں ہونگے مگر جرائم پیشہ بھاگ کے محفوظ پناہ گاہوں میں چھپ گئے‘ کچھ آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں‘ نواز شریف خاندان کا پورے کا پورا باہر ہے‘ شہباز شریف کا آدھا باقی جو ہیں وہ عبوری حکومت کے دوران بھاگ جائیں‘ جان بچی سو لاکھوں پائے۔ مستقبل کی کوئی امید ان کے پاس نہیں ہے‘ سرپرستوں کے سرپرست دستبردار ہو گئے‘ سرپرست خود خوار و زبوں ہیں تو وہ اس یتیم حکومت کی سرپرستی کیا کریں گے‘ دیکھنا یہ ہے کہ عارف علوی کا صدارتی فارمولا کام آتا ہے یا لانگ مارچ کو بہانہ بنا کر سپریم کورٹ نئے انتخابات کے لئے فارمولا طے کرتی ہے جیسا کہ اس نے پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز کو سامنے بلا کر طے کروایا تھا۔