آگرہ ، لاہور اور پشاورسے کراچی کو جانے والی ریلوے ٹریفک کا مقام اتصا ل سمہ سٹہ ریلوے جنکشن اس وقت زبوںحالی کا شکار ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان پے درپے جنگوں سے آگرہ کا روٹ براستہ بٹھنڈہ) ایسا کٹا کہ آج تک بحال نہیں ہوسکا۔ملتان، یا دوسرے لفظوں میں ضلعین ،سے آنیوالی مسافر ٹرینیں ، یہاں سے چیختی چنگھاڑتی ، خانپور جا کر دم لیتی ہیں۔ بہاول نگر سیکشن بند ہوگیا ہے۔ احمدپور روڈ پر واقع خانقاہ شریف سے سمہ سٹہ کو ملانے والی لا ئن تجاوزات کی زد میں ہے۔ ملازمین کے لیے بنا ئے جانے والے کوارٹر ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں۔ سمہ سٹہ تاج برطانیہ کی اس ترقیاتی حکمت عملی کا حصہ تھا جس کے تحت بیراج بنے، نہریں نکلیں ، جنگلا ت کاٹ کر رقبہ زمینداروں کا الاٹ کیا گیا ، منڈیاں بنیں اور اناج کی ہندوستان کے اندر اور بندرگاہوں تک ترسیل کا کی ذمہ داری ریلوے پر رکھی۔ یہ منڈیاں شہر بنے اور دیہاتوں کو شہر سے ملانے والی سڑکیں بنیں تو اور قصبے نمایاں ہوکر سامنے آئے۔ ریاست بہاولپور ریل نیٹ ورک کا فائدہ اٹھانے کے لیے ستلج ویلی پراجیکٹ کا حصہ بنی ، ستلج پر بنے ہیڈ ورکس سے نہریں نکلیں تو روہی کی زمینیں سیراب ہوئیں۔ پہلی دہائی میں ہی اتنی پیداوار ہوئی کی بینک آف انگلینڈ سے لیا گیا قرضہ وقت مقررہ سے نصف صدی پہلی ہی چکا دیا گیا۔ خوشخالی کے دن شروع ہی ہوئے تھے کہ تقسیم ہند کا وقت آپہنچا۔ وہ ریاست جس کی بقا کا انحصار ستلج پر تھا، اس پر نہرو کی نظریں گڑی تھیں۔ پیغام بھیجا گیا، جو چاہتے ہیں دیں گے ہمارے ساتھ مل جائو لیکن جوجواب ملا وہ تاریخ کے اوراق میں درج ہے کہ ہمارا سامنے کا دروازہ پاکستان میں کھلتا ہے اور کوئی بھی شریف شخص اپنی آمدو رفت پچھواڑے سے کرنا پسند نہیں کرتا۔ فیصلہ اٹل تھا ہوگیا لیکن نہرو کی وہ دھمکی بھی پوری ہوئی کہ ہم ریاست بہاولپور کو صحرا میں تبدیل کر دیں گے۔ یعنی سندھ طاس کا معاہدہ۔ فیروز پور ہیڈ ورکس سے نہریں بہنا بند ہوگئیں اور وہاں سے پانی کا رخ ہریانہ اور راجھستان کی طرف موڑ دیا گیا۔ بھارت نے حکومت پاکستان کو رقم دی کہ ڈیم اوربیراج بنائے او ر وہاں سے نکالی گئی نہروں سے مقبوضہ دریاوں کے مکینوں کو پانی کی ترسیل کرے۔ متواتر دو جنگوں کے بعد بٹھنڈہ سے ریل کا راستہ بھی کٹ گیا۔ تین دریاوں کی واردات اتنی بڑی تھی کہ بھارت نے آج تک پاکستان سے مل بیٹھنے اور مذاکرات کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی۔ ستلج کا کوئی وارث نہیں رہا تو بھارت میں اسکے پانیوں کا رخ جمنا کی طرف کرنے کی بات چل رہی ہے۔ بہاولپور کے نہری نظام میں میلسی سائفن کے ذریعے پانی ڈالا گیا ، دوسرا راستہ تونسہ بیراج سے نکالی گئی رائٹ بنک کینال تھی جس کے ذریعے پانی دریائے جہلم میں ڈال کر ہیڈ پنجند تک پہنچانا تھا۔ بہاولپور ریاست کی بلندیوں سے گری اوراس کی حیثیت پنجاب کے محض ایک ڈویژ ن کی رہ گئی۔ چھ کروڑ سالانہ کا بجٹ کم ہوکر لاکھوں تک سکڑ گیا۔ نہروں کی دیکھ بھال بند ہوگئی، جنگلا ت کا کوئی والی وارث نہ رہا۔ بھارتی پنجاب نے مزید ہیڈ ورکس اور بیراج بنالیے کہ ستلج قصور تک پہنچتے گندے پانی کے نالی کی شکل اختیار کرگیا۔ کہاں بابا فرید کی شاعری کامرکزی خیال ستلج اور اسکی جھیلوں اور انکی طرف کھنچے آنیوالوں ہنسوں کا ذکر اور کہاں بہاولپور کی روح کے ترجمان شاعر جہانگیر مخلص کی یہ فریاد کہ ستلج کے ساتھ اس کی تہذیب کو بھی بیچ دیا گیا، اسکے کنارے آباد بستیوں کو بھوک ، غربت اور کھارے پانی کے حوالے کردیا گیا۔ اب اس دریا میں بیڑے نہیں چلتے اور ا ن میں باراتیں سفر نہیں کرتیں بلکہ ریت کے بگولے اٹھتے ہیں۔ عدل کا رواج پڑے تو فریاد کی بھی ہمت ہو۔ حالات پلٹا کھارہے ہیں ، چین ریلوے کی ترقی کے لیے قرضہ دینے پر راضی ہے، پشاور تا کراچی لائینیں دوہری ہونگی، صدیوں پرانے پل ، انڈر پاس بنیں گے اور سگنل سسٹم لگے گا، ریل کی رفتار ایک سو ساٹھ میل تک بڑھ جائیگی لیکن سمہ سٹہ اسٹیشن کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ آگرہ اور بہاولپور کے درمیان ریل رابطہ بحال ہوگا تب ہی سی پیک کے فوائد سمہ سٹہ کو پہنچیں گے۔ فی الحال پردیسیوں کی سفری مصیبتیں کچھ کم ہوجائیں گی کہ ٹرین بہاولپور تو رکے گی ہی۔ زمینی حالات مخدوش ہیں تو روہی کے باسیوں کا واحد آسرا سماوی، یعنی موسمی ، حالات ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے مشرقی دریاوں میں پانی کی آمد بحا ل ہوئی ہے۔ مون سون کی بارشوں کا دورانیہ ساون سے ہوتا ہوا بادھوں تک پھیلا ہے تو پانی بھارت میں بنے ڈیموں اور بیراجوں کو پھلانگتا بہاولپور تک پہنچنے لگا ہے۔ روہی کے دوسرے دریا ، گھاگرا، نے بھی اپنا سفر طویل کرنا شروع کردیا ہے ، اسکا پانی کبھی کبھی ہریانہ سے نکل کر قلعہ دراوڑ کی حدود تک پہنچ آتا ہے۔ اگر یہ موسمی بدلائو کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے تو تاریخ اپنا الٹا سفر شروع کر نے کو ہے۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ستلج جب زوروں پر ہوتا تھا تو کبھی کبھار سمہ سٹہ کا طواف بھی کرلیتا تھا، ریلوے یارڈ سے نیچے دوبارہ اپنی گزرگاہ میں شامل ہوجا تا تھا۔ زیر زمین پانی بیس پچیس فٹ تک مل جاتا تھا۔ دریا کا ڈیلٹا آباد تھا تو بہاولپور اور سمہ سٹہ جیسے دیگر قصبوں کو دودھ ، دہی، گوشت ، تازہ مچھلی اور دالوں کی سپلائی وافر مقدار میں رہتی تھی۔ بیٹ کی خوشخالی مثالی تھی۔ مائیں عید پر روزگار کی تلاش میں جانے والے اپنے لعلوں کے انتظار میں نہیں رہتی تھیں اور اداسی ، بقول شخصے، سرشام دیواروں پر بال کھول کر نہیں سو جا یا کرتی تھی۔ بہاولپور کے باسیوں کو دوہرے سانون کی ضرورت ہے باقاعدگی سے برسے تو ستلج اپنے ساتوں دروں (چینلوں ) کے ساتھ بہے ، گھاگھرا بہتا دراوڑ قلعے تک پہنچ آئے ، ہاکڑہ ، سرسوتی بن کر روہی کے گلے کا ہار بنے ریت کے ٹیلوں کو بحیرہ عرب اٹھالے جائے۔ ڈیکھیں ہک ڈینہہ ہاکڑہ واہسی من تے کونجاں لاہسن جیویں ہئی وت اونویں ہوسی ، اوہے ویلے آسن (ر۔م)