دکھ ‘ کرب اور اضطراب میں مبتلا عوام کی نگاہیںٹی وی سکرینوں پر جمی ہیں ۔ جانے کب نیوزچینلز پر بریکنگ چلنے لگے کہ دن دیہاڑے قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بذریعہ کھیت فرار ہونے والا درندہ صفت عابدملہی بالآخر گرفتار کرلیاگیا ہے۔نیوز چینلز کے محنتی اورجفاکش رپورٹر روزانہ فالو اپ فائل کررہے ہیں مگر ہر روز ہیڈلائن میں یہی خبر چلتی ہے کہ اتنے دن گزرگئے درندہ صفت عابدملہی گرفتار نہ کیا جاسکا۔لاہور کے اس دلخراش واقعے کے بعد ملک کے دیگر علاقوں میں انسانی شکل میں گھومتے بھیڑیوں کے جنسی واقعات ‘ پولیس کی بے حسی اور نااہلی کی خبریں تواتر سے رپورٹ ہونا شروع ہوگئی ہیں۔بہاولپور میں زیادتی کی شکار لڑکی کو انصاف نہ ملا تو جان سے گزر گئی‘ـ زہر کھایا اوران آخری الفاظ کے ساتھ دم توڑ گئی’ـابا آپ کل سر اٹھا کر جیو گے‘ مجبور و لاچاربیٹی کے آخری الفاظ نے دہلاکر رکھ دیا۔ اپنی جان کے عوض غریب باپ کو سر اٹھا کر جینے کا کہہ گئی مگر ساری قوم کا سر شرم سے جھکا گئی۔ان بے شمار واقعات کے محرکات اور ٹھوس سدباب کیلئے ہر جانب خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ 2015میں 600کلومیٹر طویل گوجرہ۔ ملتان۔ سکھر موٹروے سیکشن کی تعمیرکا آغا ز ہوا۔ 15ارب روپے کی لاگت سے گوجرہ تاشورکوٹ موٹروے کی تعمیر مکمل ہوئی تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اقتدار کی مسند پر فائز ہوچکی تھی۔تکمیل کے باوجود کئی ماہ تک موٹرو ے افتتاح سے محروم رہی۔حکومتی شخصیات حیران کن طور پر مسلم لیگ ن کے دور میں شروع ہونے والے’ قومی منصوبے‘ کا افتتاح کرنے سے گریزاں تھیں ۔ میڈیااور اپوزیشن کی جانب سے سوالات اٹھائے جانے لگے تو بالآخر 2فروری 2019کو گوجرہ شورکوٹ موٹر وے کے ا فتتاح کا اعلان کردیا گیا ۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی جانب سے لائیو کوریج کیلئے ڈی ایس این جی وین بھجوانے کا اصرار شروع ہوگیا جس کی بنیادی وجہ وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید کی جانب موٹر وے کا افتتاح تھا۔نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے حکام اپنے وفاقی وزیرکی ہرصورت لائیوکوریج کروانا چاہتے تھے۔ مراد سعید وزیر مملکت سے وفاقی وزیر مواصلات بننے تک مسلم لیگ ن کی قیادت پر موٹرویز کے ٹھیکوں میں مبینہ گھپلوں اور کک بیکس پر سخت تنقید اور بلند وبانگ دعوے کرچکے تھے۔ یہ مرحلہ سب کی توجہ کا مرکز تھا کہ وہ موٹروے جس کی تعمیر اور تکمیل مسلم لیگ کے دورحکومت میں ہوئی تھی‘مراد سعید جب اس کا افتتاح کریں گے تو ان کے خیالات اورجذبات کیا ہوں گے؟کوریج کیلئے خصوصی ٹیمیں فیصل آباد ‘لاہور اور اسلام آباد سے تقریب کی جگہ پرپہنچیں مگر وفاقی وزیر مراد سعید نے اچانک افتتاح کرنے سے انکارکردیا۔حکومتی ہدایت پر گوجرہ ملتان موٹروے سیکشن کا افتتاح رکن قومی اسمبلی ریاض فتیانہ‘ چودھری سعید احمد اور ملتان سے منتخب رکن قومی اسمبلی عامر ڈوگرنے کیا۔تالیاں بجیں‘سرکاری افسران نے تعریفوں کے پل باندھے اور گوجرہ ملتان موٹروے سیکشن ٹریفک کیلئے کھول دیا گیا۔کچھ ماہ بعدملتان سکھر موٹروے سیکشن بھی کھول دی گئی۔ این ایچ اے نے ٹال پلازوں کے ٹھیکے پرائیویٹ کمپنیوں کو دیدئیے جو روزانہ کروڑوں روپے عوام سے وصول کررہے ہیں۔ ڈیڑھ سال سے زائدعرصہ گزرنے کے باوجود اس سیکشن پر موٹروے پولیس کی پیٹرولنگ دکھائی نہیں دی۔پٹرول پمپس تعمیر ہوئے اور نہ ہی سروس ایریاز۔فیصل آباد کراس کرنے کے بعدموٹرے وے پرملتان تک ہُوکا عالم ہے۔18مار چ کو لاہور سیالکوٹ موٹروے بھی بالاخر کھول دی گئی۔91کلومیٹر طویل لاہور سیالکوٹ موٹر وے قومی خزانے سے 43ارب روپے خرچ ہونے کے بعد مکمل ہوئی مگر گوجرہ ملتان سکھر موٹروے کی طرح یہاں بھی منصوبہ بندی کے فقدان اور سیاسی رقابت کے باعث عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا گیا۔ تعمیری سوچ کی بیداری‘نفرت اور انتقامی سیاست کی روش بدلنے کیلئے کوشاں میجر عامرصاحب کے مہمان خانے میںوائس چانسلرجامعتہ الرشید مفتی عبدالرحیم صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر شاہد مسعودـ‘سلیم صافی‘ـ عادل شاہ زیب اور حافظ طاہر خلیل صاحب بھی اس نشست میں موجود تھے۔ملک میں حالیہ فرقہ واریت کی خوفناک لہر پر سبھی پریشان تھے۔مفتی عبدالرحیم صاحب سمیت سبھی اس بات پر متفق تھے کہ سی پیک اور پاکستان کے امن واستحکام کی دشمن طاقتیں تمام حربوں اورہتھکنڈوں میں ناکامی کے بعداب فرقہ واریت کا خوفناک کھیل شروع کرچکی ہیں۔حکومت ‘اپوزیشن‘ـمیڈیا‘ علماء کرام سمیت تمام شعبے ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو فرقہ واریت کے پھیلاؤ کوروکنے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔انسانی شکل میں گھومتے درندوں اورفرقہ واریت کی آگ بھڑکانے والوںکی سوچ آخر کیسے پنپتی ہے؟کیا ہمار ا سماج اس سوچنے کو بدلنے کیلئے اپنا کردار اداکررہا ہے؟ درندگی کا مظاہرہ کرنے والوں کے دلوں میں آخر خدااورقانون کا خوف کیوں ختم ہوگیا ہے؟ یہ وہ سوالات تھے جو کئی دنوںسے ذہن سے چپکے ہوئے تھے ‘ـ اس ڈسکشن میں کئی سوالات کے جواب ملے‘انتہائی مفید ملاقات رہی۔ گزشتہ دنوںچیئرمین مسلم ہینڈز سید لخت حسنین اور پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب سے بھی ایک تقریب کے دوران ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔سید لخت حسنین اور پیرمحمد امین الحسنات کی فلاسفی اور انقلابی خدمات پر بہت کچھ لکھنے کی ضرورت ہے ‘جس پر پھر کبھی سیر حاصل بات ہوگی۔مذکورہ تقریب ان یتیم اور بے آسرابچوں کے اعزاز میںسجائی گئی تھی جو مسلم ہینڈز کے سکولز اور کالجز سے تعلیم اور شاندار تربیت کے بعد ملک کی مختلف یونیورسٹیوں سے کیمیکل‘ الیکٹریکل انجینئرنگ‘ ایم بی بی ایس‘ایم ایس سی فزکس‘ ایم اے انگلش‘ایم بی اے اور ایو ی ایشن سمیت مختلف شعبوں میں ڈگری حاصل کرنے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ جدیدتعلیم سے آراستہ یہ نوجوان اعتماد ‘ـذہانت اور قابلیت میں کسی بھی نجی مہنگے تعلیمی اداروںسے فارغ التحصیل طلباء سے قطعی کم نہ تھے۔ایسے نوجوان ہی حقیقی سماجی تبدیلی کی راہ ہموار کرسکتے ہیں: نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی ،بہت زرخیز ہے ساقی