اسلام آباد کا موسم یکدم بدل گیا ہے۔ سردی آئی ہے لیکن بتدریج نہیں ، درجہ حرارت اوسطاً دس ڈگری نیچے آگیا ہے۔ نومبر کے وسط تک موسم خوشگوار رہا سوائے اس کے کہ بارش نہیں ہوئی تھی۔ پھر لوگ بارش کی طرف دیکھنے لگ گئے ، بارش تو آئی لیکن ملک کے شمالی علاقہ جات اور مری میں برف پڑگئی اور وہ بھی معمول سے زیادہ۔ یوں آگے سردی ہی ہے۔ بارشیں اور برفباری سردی کی شدت میں کمی بیشی لائے گی۔ حکومت نے دفتروں میں حاضری کم کرادی ہے، یعنی کچھ لوگ گھر بیٹھے کام کریں گے، کچھ دفتر جائیں گے۔ دفتروں میں عوام کا داخلہ بند کردیا گیا ہے۔ حکومت تعلیمی اداروں تک کو بند کرنے کا سوچ رہی ہے۔ اب جب کورونا کا مسئلہ باقاعدگی سے رونما ہونا شروع ہوگیا تو یقیناً حکومت کی کوشش ہوگی کہ لوگوں کے مسائل آن لائن حل کیے جائیں۔ مطلب سرکاری اہلکاروں اور عوام کا آمنا سامنا نہیں ہوگا۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے مارے لوگ دفتروں کے دھکوں اور کورٹ کچہری میں حاضریوں سے ہی محفوظ رہیں تو یہ واقعی بہت بڑا ریلیف ہوگا۔ سفری اذیتوں سے نجات الگ ملے گی ،وقت اور پیسے کی بچت الگ ہوگی۔ پچھلے وبائی حملے کی نسبت اس دفعہ حکومت با اعتماد نظر آتی ہے۔ مہنگائی مزید نہیں بڑھی، زرمبادلہ کی صورتحال ٹھیک ہے، معیشت آخری ستون پر سہی لیکن جہاں ہے مزید خرابی کی امید نہیں۔ ایک بڑی آبادی، وسیع اور زرخیز خطہ ، جنگلات اور چراگاہیں سب موجود ہے۔ صرف اپنے اندر اعتماد پیدا کرنا ہے اور زمینی حقائق کے پیش نظر منظم انداز میں آگے بڑھنا ہے۔ اتفاق ہوا ہے کہ اجتماعات اور جلسوں کو روکا جائے تاکہ وائرس کو تباہ کاری کا موقع نہ مل سکے۔ کاروباری سرگرمیاں معطل نہیں کرنا تو سختی کرنا پڑیگی۔سیاستدانوں کو سب سے زیادہ احساس ذمہ داری دکھانا ہوگی۔ سیاست کرنے کے اور بھی طریقے ہیں لیکن معیشت کو بچانا اس وقت ترجیح ہے۔ کورونا کے پہلے حملے کے دوران وبا سے بچنے کے لیے ماسک کے استعمال پر زوردیا گیا تھا، سماجی فاصلے کی نوعیت پر زیادہ دھیان نہیں دیا گیا تھا۔ بس لوگوں کو ایک دوسرے سے مناسب فاصلے پر رہنے کا کہا گیا تھا۔ اس دفع یہ مسئلہ سیاق وسباق کی روشنی میں واضح ہو رہا ہے۔ کچھ لوگوں نے سماجی فاصلے کو پرائیویسی کے تنا ظر میں لیا ہے تو ٹھیک لیا ہے۔ رابطہ کار ی کی حد ہونی چاہیے۔ نہیں لگتا کہ اس دفعہ لوگ گھر پر بیٹھیں گے لیکن یہ بھی نہیں کہ جلسے جلوس نکالے جائیں ، امن وامان کے سلسلے میں پولیس کی ڈیوٹیاں لگ جائیں، دشمن موقع سے فائدہ اٹھائے اور افراتفری پیدا کرنے کے لیے قتل اور دھماکوں کا راستہ اختیار کرلے۔ سماجی فاصلہ کا مطلب عوام اور سرکاری اہلکاروں کو مناسب فاصلے پر رکھنا بھی ہے۔ نمائندگی کے فورم موجود ہیں ، میڈیا تک رسائی بھی مسئلہ نہیں۔ پولیس اور عدالت تک آن لائن ہوسکتی ہیں۔ امید ہے عہد برطانیہ سے ہماری معاشرتی نفسیات میں در آنے والے احتجاجی طور طریقوں کا بھی اس دفعہ مسئلہ حل ہوجائیگا۔ سیاسی گفتگو کے ادبی پیرائے میں ڈھلنے کا سلسلہ بس شروع ہوا چاہتا ہے۔ احتجاج اور نہتے لوگوں پر طاقت کا استعمال کم ہوگا تو مکالمے کا معیار بہتر ہوگا۔ یوں معاشرے کی مجموعی فراست بہتری کا راستہ نکال لے گی۔ کورونا کے تناظر میں ماہرین کا کہنا ہے کہ نفسیاتی طور پر متوازن لوگ اس وبا سے بہتر طور پر نمٹ سکتے ہیں۔ اجتماعی معاشرتی ذمہ داری ہے اور انصاف کا تقاضہ بھی کہ کوئی کسی کو ناجائز طو پر پریشان نہ کرے۔ اس حوالے سے قانونی تقاضے سخت کیے جارہے ہیں۔ یعنی ضد، ہٹ دھرمی کو خیر باد کہنا پڑیگا۔ ہوسکتا ہے لوگوں کو حوالات اور جیلوں میں ٹھونسنے کا رواج ماضی کا قصہ بن جائے ، فتنہ پردازی کے مرتکب شخص کی آزادی اظہار کو کچھ عرصہ کے لیے مفلوج کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کورونا ہمہ وقت موجود ہے ، سردی میں لوگوں کی قوت مدافعت کمزور ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اسکے حملے کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔ یوں کورونا دور میں احساس ذمہ داری کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ غذائی تحفظ کی صورتحال بہتر بنائی جائے۔ کسی غریب کو سیاسی اجتماع میں گھسیٹنے سے کہیں بہتر اسے لنگر کرانا ہے، خیر خیریت پوچھنی ہے، کوئی حاجت ہو تو وہ پوری کرنا ہے۔معاشرہ مثالوں اور عملی اقدامات سے سیکھتا ہے، شعلہ بیانی کبھی بھی ہمارے معاشرے میں پسندیدہ عمل نہیں رہا۔ سردیوں اور کورونا کی بات چلی ہے تو اسلام آباد انتظامیہ کی طرف سے عوام کو دی گئی خوشخبری کا ذکر بے جا نہیں ہوگا۔ پارکوں کی صفائی کا وعدہ ہوا ہے جاڑے کے ختم ہونے سے پہلے بحال ہوجائیں گے۔ ڈپٹی کمشنر کی کہی اس بات کو مہینہ بھر ہوچکا ہے ، دیکھے وعدہ وفا کب ہوتا ہے۔ اگر نیت کچھ اچھا کرنے کی ہو تو کیا نہیں ہوسکتا!