ٹی وی چینل پر نجومی حضرات و خواتین کا پروگرام دلچسپ تھا لیکن کوئی نادر انکشاف سامنے نہیں آیا۔ چار نفر کا سیشن تھا اور اتفاق اس بات پر تھا کہ حالات اچھے نظر نہیں آ رہے۔ حالات خراب ہوتے جائیں گے۔ لیکن اس انکشاف میں نجومیات کا کیا کمال ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ یہ تو جملہ عوام کو نظر آ رہا کہ حالات بہت ہی خراب قسم کی خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور جملہ عوام علم نجوم کے بغیر ہی یہ بات جانتی ہے۔ ایک عامیانہ سی فلم کا سین یاد آیا۔ ایک صاحب نے کہا وہ سامنے کیا شے رکھی ہوئی ہے۔ دوسرے نے کہا دور سے تو نارنگی لگتی ہے‘ قریب جا کر دیکھیں تو پتہ چلے کیا ہے۔ قریب گئے تو کہا یہ تو نارنگی ہی لگتی ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا ہم نے عینک تو لگائی نہیں عینک لگا کے دیکھیں تو ٹھیک سے معلوم ہو گا کہ کیا ہے۔ دونوں نے جیب سے قریب کی نظر کی عینکیں نکالیں اور پھر دیکھا اور کمال حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا‘ ارے یہ تو سچ مچ نارنگی ہے۔ ہمارے نجومیوں کی نظر نجوم بھی کچھ ایسی ہی لگتی ہے۔ اور لگتا تو یہ بھی ہے کہ حالات خراب ہونے کی اطلاع سب کو ہے‘ سوائے ان کے جو حالات خراب کر رہے ہیں اور اپنی دانست میں یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ حالات کو ٹھیک کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ حالات کو ٹھیک ہی کر رہے ہوں لیکن اس میں ’’اوور ڈوز‘‘ ہو گئے ہوں۔ ایک صاحب سردی میں بلی کو نہلا رہے تھے۔ کوئی پاس سے گزرا اور ٹوکا‘ ارے کیا کرتے ہو‘ اتنی سردی ہے مر جائے گی۔ غسال صاحب بولے جائو میاں، تمہیں کیا پتہ بلیاں پالنا میرا مشغلہ ہے‘ مجھے پتہ ہے کیا کرنا ہے کیا نہیں۔ ناصح صاحب چلے گئے اور تھوڑی ہی دیر بعد واپس پلٹے تو دیکھا مری ہوئی بلی کے پاس غسال صاحب رو رہے تھے۔ وہ بولے تمہیں اسی لیے تو روکا تھا‘ کہنے لگے‘ بئی یہ نہانے سے نہیں نچوڑنے سے مری ہے۔ ہو سکتا ہے ہمارے غسالان ذی وقار جتنا غسل ہمیں اور وطن عزیز کو دے چکے اسی پر اکتفا کریں اور نچوڑنے سے باز رہیں۔ امید پر دنیا قائم ہے اس لیے یہ امید کرنے میں حرج نہیں‘ ویسے امید کم ہی ہے۔ ٭٭٭٭٭ حالات کے حوالے سے ایک سنجیدہ دانشور نے لکھا ہے کہ لگتا ہے ہم دائرے میں سفر کر رہے ہیں۔ جہاں سے آغاز کرتے ہیں گھوم گھام کر وہیں پہنچ جاتے ہیں۔ بنی اسرائیل وادی تیہ میں اپنی نافرمانی اور سرکشی کی سزا کے طور پرروایت ہے کہ 30سال بھٹکتے رہے۔ ایک دن ان کا یہ بازگشتی سفر ختم ہوا انہیں سمت مل گئی۔ ان کے 30سال ہمارے ستر سال۔ دانشمند دانشور نے اپنی جگہ ٹھیک لکھا کہ دائروں کا سفر لگتا ہے لیکن کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ جو لگتا ہے وہ نہیں ہوتا ہے اور ہوتا وہ ہے جو لگ نہیں رہا تھا اور اب غور سے دیکھیں تو یہی لگے گا کہ اس بار سفر طے ہونے کو ہے، سمت ملنے کو ہے۔ شورش زندہ ہوتے تو اپنا یہ مصرعہ موخر بہ ماضی تو نہیں‘ لیکن موثر بہ استقبال واپس لے لیتے کہ ع ہیں اہل نظر کشور پنجاب سے بے زار کشورِپنجاب نے جو انگڑائی لی ہے، انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ اسے بے یقینی والے صدمے سے دیکھ رہی ہے اور یہاں بھی اسے دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں لیکن مان کر نہیں دے رہے۔ پنجاب کی سوچ بھی بدلی ہے اور سوچ کے اظہار کے تیور بھی۔ جو ’’بحث‘‘ چھوٹے صوبوں کے ’’منہ پھٹ‘‘ بھی نہیں کرتے تھے۔ احتیاط برتا کرتے تھے، پنجاب میں وہ علانیہ ہو رہی ہے۔ شاعر نے تو کسی اور رنگ میں کہا تھا کہ آپ سے تم‘تم سے تو ہو گئے۔ لیکن یہاں ماجرا کسی اور تبدیلی کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ قدیمی ارشد ھالیہ کے سفوف اس کشش کھو چکے، نئی مسیحائے طب کی آمد آمد اور جلوہ نگاری ہے۔ حضرت ‘ دائرے کا سفر ختم ہونے کو ہے۔ سمت نظر آنے لگی، البتہ راہ میں کانٹے بہت ہیں، ستر سال بوئے جانے والے سخت جان کانٹے پر ’’آبلہ پائی‘‘ ناگزیر ادائیگی ہے۔ پنجاب میں یہ بدلائو دو وجہ سے آیا۔ ایک تو ابلاغیات کے انقلاب نے بوسیدہ چورنوں اور پھکیوں کی اصل دکھا دی۔ پچھلے ایک عشرے کے حالات کا پس منظر بھی اسی انقلاب سے سمجھ میں آیا اور دوسری وجہ وہ خاموش ارتقائی تبدیلی ہے، جس سے پنجاب 1980ء کی دھائی کے بعد سے گزرا یہ ازخود تبدیلی تھی۔ معاشرہ بتدریج جاگیرداری کے چنگل سے نکلتا گیا۔ بڑھتی ہوئی آبادی نے دیہاتیوں کی بڑی تعداد کو شہروں کی راہ دکھائی۔ کارخانے لگے، سڑکیں بنیں، تعلیم میں قدرے اضافہ ہوا اور دیکھنے کا انداز بدل گیا۔ آج وسطی پنجاب میں جاگیرداری نام کی حد تک بھی باقی نہیں رہی اور جنوبی پنجاب میں بھی پہلے جتنی زور آور نہیں رہی۔ اشرافیہ ابھی تک حالات کو اس عینک سے دیکھ رہی ہے۔ جو 1857ء کے مابعد بنی تھی۔ چودھری نثار کے بیان پڑھ لیجیے‘ شاہ محمود قریشی کے خیالات سن لیجیے۔ 1857ء کے مابعد کی باز گشت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ٭٭٭٭٭ کراچی کا وہ مظلوم گدھا چل بسا جسے چند دن پہلے تحریک انصاف کے کارکنوں نے انصاف فراہم کیا تھا۔ عائشہ چندری گرٹرسٹ نے اس گدھے کا علاج کیا‘ زخم بھرے اچھی غذا دی‘ کئی کارکن اس کی مالش اور مساج بھی کرتے رہے لیکن اندرونی زخم اتنے گہرے تھے کہ وہ تاب نہ لا سکا اور سوموار کی شام چل بسا‘ یعنی اس تاریخی دن سے دو دن پہلے جب پورے ملک کو انصاف دینے والوں کی حکومت آنے والی ہے۔ جس روز اس گدھے کی ہڈیاں توڑی گئیں۔ اس کے دوسرے روز کراچی ہی میں ایک اور گدھے کو اس سے بھی زیادہ ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ چھرے سے اس کے سر پر اتنے وار کئے گئے کہ ایک فٹ حصے سے گوشت بالکل اڑ گیا اور اندر کی ہڈیاں اور دماغ کا حصہ نظر آنے لگا۔ جانوروںکے حقوق کی تنظیم نے اس کا علاج بھی کیا لیکن اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں آئی۔ بچ گیا کہ گیا۔ جو لوگ بے زبان معصوم جانوروں پر ایسا ظلم کرتے ہیں‘ وہ انسانوں کو کیا معاف کریں گے۔ ہمارے ہاں اس حقیقت کو الٹی سمت سے دیکھا جاتا ہے یعنی یہ کہا جاتا ہے کہ جو انسانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ وہ جانوروں پر کیا رحم کریں گے حالانکہ انسانی فطرت جاننے کا پیمانہ جانوروں سے کیا جانے والا سلوک ہے۔ایک فرانسیسی دانشور اور ادیب میلان کندیرا کا کہنا ہے کہ انسانیت کی اصلی اخلاقی جانچ وہ سلوک ہے جو انسان جانوروں سے کرتے ہیں‘ جانور جو ان کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ گلیوں بازاروں اور گھروں میں مارے مارے پھرنے والے جانور محض ایک نوالے کے لیے ترستی ہوئی نگاہوں کے ساتھ ہمیں تکتے ہیں‘ ایک گھرکی پر ڈر کے مارے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ جو ان پر رحم نہیں کھاتا‘ وہ اپنے انسان نہ ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ حضرت انسان نے اپنی آبادیوں میں قسمت کے جبر کی وجہ سے رہنے پر مجبور جانوروں سے جو کیا‘ سو کیا‘ وہ تو جنگل میں گھس کر بھی جانوروں کے قتل عام سے باز نہیں آتا۔ ہمارے پاکستان میں ایک شکاری نقوی صاحب ہوا کرتے تھے۔ شکار کی بہت سی کتابیں انہوں نے لکھیں۔ وہ محض اپنی حس اذیت رسانی کی تسکین کے لیے بڑی بڑی بندوقیں لے کر جنگلوں میں گھس جاتے اور بے وجہ ‘ بے دریغ جانوروں کو مارتے۔ ہر قتل کا ذکر وہ یوں کرتے‘ اس طرح میں نے اس جانور کو مشت خاک بنا دیا۔ اب یہ حضرت اس دنیا میں نہیں‘ انہیں پتہ چل گیا ہو گا کہ وہ خود کہاں کی خاک بنے۔ ٭٭٭٭٭