آخر کیا وجہ ہے کہ ہم کشمیر کے حالیہ سانحے کا تقابل سقوط ڈھاکہ سے کر رہے ہیں۔ کوئی تو وجہ ہو گی کہ ہمارے ہاں یہ احساس ابھر رہا ہے کہ 71ء میں ہم نے آدھا پاکستان گنوا دیا تھا، خاکم بدہن کہیں اب کشمیر سے تو ہاتھ نہیں دھو بیٹھے ہیں۔ ایسا تو نہیں ہے کہ کشمیر کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ یہ تو، ایک یک طرفہ اعلان ہے۔ پھر دلوں میں یہ وسوسے کیوں جنم لے رہے ہیں۔ کیا ہمارے اندر کہیں اس خوف کے سائے امنگ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ بھارت کے ایک جنونی حکمران کا کیا دھرا نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک عالمی سازش ہے۔ بالکل اس طرح جس طرح بعض لوگوں کی رائے ہے کہ مشرقی پاکستان کی جنگ ہم نے مشرقی بنگال کے میدانوں میں نہیں ہاری تھی، بلکہ کل عالم کے ایوانوں میں یہ پہلے سے طے شدہ امر تھا، ہمارے ہاں اس پر صرف عمل کیا گیا۔ کاش حمود الرحمن کمشن کی رپورٹ وقت پر آ جاتی اور اس کے بارے میں یہ شکوک و شبہات پیدا نہ ہوتے کہ اس کے بعض صفحات غائب کر دیئے گئے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ اس کمشن کے ٹرم آف ریفرنس ذرا وسیع تر ہوتے۔ سمجھتے ہیں آپ ٹی او آر کا لفظ تو اب ہم اکثر سنتے رہتے ہیں اگر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا تو شاید بہت کچھ طشت از بام ہو چکا ہوتا۔ تب بتایا گیا تھا کہ امریکی بیڑہ خلیج بنگال میں تو نہیں آیا تھا۔ مگر امریکہ نے مغربی پاکستان کو بچا لیا تھا۔ گویا یہ خطہ بھی کسی کی طفیل اس وقت ہمارے پاس ہے۔ اتنا بڑا سانحہ ہو گیا اور ہم بھول گئے۔ کہنے والے کہتے ہیں ہم کشمیر کو بھی بھول جائیں گے۔ ذرا سوچیں، ہمیں گولان ہائیٹ یاد آ رہی ہیں۔ کہاں کی گولان پہاڑیاں، دشمن نے تو پورا ملک شام ہی خاک و خون میں غلطاں کر دیا ہے۔ کیسا شام، عراق، لیبیا، لبنان سب کچھ تباہ کر ڈالا۔ لگتا ہے عالم اسلام ٹس سے مس ہوا؟ ہمیں یہی بتایا جاتا تھا، کہاں کی امہ اور کیسی امہ۔ سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور یہ مفادات عالمی طاقتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ پورا عالم اسلام تہہ و بالا کر دیا گیا اور ہم سب کچھ دیکھتے رہے۔ ہم کشمیر کو تقسیم کا نا تکمیل شدہ ایجنڈہ کہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں بیسویں صدی میں جو جنگیں لڑی گئیں، وہ عالم اسلام کی بربادی کا ایجنڈہ تھا جو اب تک مکمل نہیں ہوا۔ پہلی جنگ نے مسلمانوں کی عظیم سلطنت کو تاراج کیا۔ خلافت عثمانیہ کو پرزے پرزے کیا۔ بلقان سے شروع ہونے والی تباہی پھیلتے پھیلتے یہاں تک پہنچی کہ عالم عرب کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ نجدوحجاز، عراق و شام، لبنان سب کے جوڑ جوڑ ٹوٹے۔ یہی نہیں کہ یہ سب نئے ملک بنے۔ مصر، تیونس، مراکش، لیبیا، الجزائر کس طرح سامراج نے سب کچھ تلپٹ کر دیا۔ ہم مست رہے کہ ایک نیا انقلاب آ رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں تو عالم اسلام ٹکڑوں میں بٹ کر سامراجیوں کا کاسہ لیس بنا دیا گیا۔ یہ جنگ اب تک جاری ہے۔ ہم عرب بہاراں کے نشے میں مست تھے، پتا چلا سب کچھ اجڑ گیا ہے، عالم اسلام میں اٹھنے والی آزادی کی تحریکیں اور دینی قوتیں سب کو ایسی ضرب پہنچائی گئی کہ الحفیظ و الامان۔ کیا یہ عالم عرب کی سب سے بڑی تحریک اخوان المسلمین کا یا اس سے متاثر ہونے والی تحریکوں کا صرف مصر، الجزائر، تیونس یا مراکش میں نہیں، شام، عراق، لبنان کہاں کہاں اس کے انجڑ پنجر بکھرے پڑے ہیں۔ ہم کہتے تھے جب اسرائیل اپنا دارالحکومت یروشلم منتقل کر دے گا تو بھونچال آ جائے گا، کسی چڑیا نے بھی پر مارا۔ غزہ کی پٹی کی کس ڈھٹائی سے مصر کی حکومت نے ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ اسرائیل ہی انہیں روکے ہوئے نہیں ہے، ایک مسلمان ملک بھی ان کا دشمن ہو رہا ہے۔ ماڈریٹ اسلام کے نام پر بعض ملکوں میں مسلمان تحریکوں کو متاثر کیا گیا، مگر نتیجہ کیا نکلا۔ میں کیا دلائل دے رہا ہوں۔ صاف نظر آتا ہے کہ عالم اسلام کو تہس نہس کیا جا رہا ہے۔ ہم کہتے تھے سب کچھ مٹ جائے گا، مگر پاکستان اسلام کا قلعہ رہے گا۔ اسے کوئی گزند نہیں پہنچا سکے گا۔ آج ہم کہہ رہے ہیں، ہماری معیشت کمزور ہے، ہمیں جنگ سے دور رہنا چاہیے۔ یہاں یہ باتیں بھی ہو رہی ہیں کہ کشمیر اب بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے، اب یہ دو ملکوں کے درمیان باہمی مسئلہ بھی نہیں رہا۔ مجھے یاد ہے کہ 2002ء میں امریکہ میں مختلف تھنک ٹینک میں ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ لائن آف کنٹرول کو مستقبل باڈر مان لینے کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے۔ جب پوچھا گیا، وہ کیسے تو جواب آتا کہ بھارت زیادہ سے زیادہ یہی مان سکتا ہے۔ کسی کو انصاف کے عالمی اصولوں کی فکر نہ تھی، اگر کوئی خیال تھا تو صرف یہ کہ بھارت کس بات پر راضی ہو سکتا ہے۔ لگتا ہے کہ بھارت نے عالمی رائے عامہ کو قائل کر لیا ہے کہ کشمیر کی تقسیم کر دی جائے۔ اس نے اپنے زیر تسلط کشمیر کو بھارت میں ضم بھی کر لیا ہے اور اس کے دو ٹکڑے بھی کر دیئے ہیں۔ اب ہم کیا زیادہ سے زیادہ یہ بات منوانے پر زور لگائیں گے کہ جو کشمیر ہمارے پاس ہے اسے ہمارا حصہ تسلیم کر لیا جائے۔ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ہم مقبوضہ کشمیر کو گنوا بیٹھے ہیں تو اس کا کیا یہی مطلب ہے کہ اس تقسیم کو مستقل تقسیم کہا جائے۔ رہا مقبوضہ کشمیر تو وہ اگر بھارت کا حصہ ہے، پھر بھارت کو حق پہنچتا ہے، وہ اس کے جتنے حصے چاہے کرے۔ کسی کو دخل دینے کا حق نہ ہو گا۔ جب امریکہ میں ہمیں سترہ سال پہلے یہ سمجھایا جا رہا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کا صرف ایک حل ہے کہ لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد تسلیم کر لیا جائے، تو اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کو بھول جائے۔ ہمارے اس وقت کے حکمرانوں نے اس سے بھی آگے بڑھ کر کوشش کی۔ پرویز مشرف اور کیا کرتا رہا۔ اس وقت کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے ان تمام باتوں کا تذکرہ کر رکھا ہے۔ بدقسمتی یہ ہوتی ہے کہ ہمارے اندر سے بھی ایک ایسی لابی وجود میں آ جاتی ہے جو ایسے کسی بھی عالمی ایجنڈے کی حامی بن جاتی ہے۔ کیا یہ معمولی بات ہے کہ ہمارے دارالحکومت اسلام آباد میں راتوں رات مہا بھارت کے پوسٹر آویزاں کر دیئے گئے اور ہمیں خبر تک نہ ہوئی۔ کیا ان کی جڑیں یہاں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ذرا غور کیا، کس نے یہ کیسے کیا۔ ہمارے ادارے کیا سوتے رہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان ہر جگہ موجود تھے۔ کسی بھی کارروائی کا ڈٹ کر جواب دیتے تھے۔ پھر کیا ہوا، بھارت میں ہم مصلحت کے تحت خاموش رہے ہوں گے، بنگلہ دیش کیسے ہمارا دشمن ملک بن گیا جب کہ چند سال پہلے بنگالی بھائیوں کے دلوں میں ہم راج کرتے تھے۔ آخر کیا ہوا؟ افغانستان میں لوگوں کو میں نے پاکستان کے گن گاتے دیکھا ہے۔ پھر کیا ہوا کہ وہاں دشمنی کے سوا اب ہمارے کھاتے میں کچھ نہیں ہے۔ اب بھی کسی کو توقع نہیں کہ ہم بھارت میں اپنی موجودگی کا احساس دلا سکتے ہیں۔ میرا مطلب خدانخواستہ یہ نہیں کہ وہاں دہشت گردی کرا سکتے ہیں۔ جی نہیں، میرا مطلب یہ ہے کہ وہاں کی رائے عامہ اور وہاں کے دانشوروں میں نفوذ کر سکتے ہیں۔ جب کبھی بھارت میں جنگ جویانہ عزائم پیدا ہوتے تھے تو ایک بہت بڑا طبقہ اس کی کھل کر مخالفت کرتا تھا۔ کیا اب ایسا ہو سکتا ہے۔ نہیں ہو سکتا تو سمجھ لیجیے، ہم یہ جنگ ایک اہم محاذ پر ہار چکے ہیں۔ معاف کیجئے، ہمیں اپنی مقتدر قوتوں پر ناز تھا کہ دشمن ان سے ڈرتا ہے، اب تو متحدہ عرب امارات تک بھی نہیں ڈرتا، میں یہ یونہی نہیں کہہ رہا، اب پس منظر کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ ہم نے اپنا بھرم کھو دیا ہے۔ ہم بہادر شاہ ظفر بنیں یا ٹیپو سلطان یا چلیے بابر، غزالی، غزنوی۔ یہ سب کرنے کی باتیں ہیں، ہمیں معلوم ہے ہم کہاں کھڑے ہیں اور اگر ہمیں معلوم ہے تو ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ہم اگر سمجھ جائیں اور سنبھل جائیں تو اب بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ انشاء اللہ۔ دنیا کا بھی اندازہ ہے کہ ہم آسانی سے بھاگنے والی قوم نہیں ہیں۔ ہزار اختلاف ہوں مگر مشکل کی گھڑی ہم ایک ہو جاتے ہیں۔