ہمارے ہاں اکثر یہ ہوتا ہے کہ کوئی خاص جملہ کسی نے بول دیا اور وہ اس قدر مشہور ہوا یا دانستہ طور پرکر دیا گیا کہ پھر ہر جگہ وہی سننے میں آتا ہے۔ ایسے کئی فقرے سیاسی بحثوں میں استعمال ہو رہے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ فلاں صاحب تو جنرل مشرف کی حکومت میں شامل رہے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ جنرل مشرف کی حکومت میں شامل رہنے والا طعنہ صرف تحریک انصاف کے لوگوں کے لئے مختص ہے۔ ایسا کوئی بھی سابق رکن اسمبلی یا لیڈر خواہ وہ جنرل مشرف کے کتنا ہی قریب کیوں نہ رہا ہو، اگر اس نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی تو پھر اسے قطعی طور پر یہ طعنہ نہیں دیا جائے گا۔ اس نے پیپلزپارٹی کا رخ کیا ، تب تو طعنہ یا الزام لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں غلطی سے اگر وہ تحریک انصاف میں چلا گیا ، تب اس کی دیانت، کردار، سیاست سب پر سوالات کی بوچھاڑ ہوجائے گی۔ اسی طرح پچھلے چند دنوں سے بہت سے لوگ فیس بک پر سٹیٹس لگاتے، میل ملاقاتوں میں یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ہمیں عمران خان کی حکمرانی کی سمجھ نہیں آ رہی۔ اگلے روز ایک دوست دفتر تشریف لائے، جو کام تھا، وہ ہوگیا تو چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے فرمانے لگے، مجھے عمران خان کی سمجھ نہیں آ رہی، وہ آخر کر کیا رہا ہے؟ مجھ سے رہا نہ گیا، انہیں کہا،’’ آپ کو آخر سمجھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ووٹ آپ نے ن لیگ کو دیا، عمران خان کے سخت مخالف ہیں۔ اب آخر عمران خان کی اتنی پریشانی، فکر کاہے کی لاحق ہوگئی؟ یہ تو جنہوں نے عمران کو ووٹ ڈالے، اس کی حمایت کی، ان کے سوچنے،سمجھنے، پریشان ہونے کا معاملہ ہے۔ آپ تو سکون سے بیٹھیں اور پانچ سال انتظار کریں کہ کچھ ڈیلیور کرتا ہے یا نہیں۔‘‘ اس پر خاصے بدمزا ہوئے، پہلو بدل کر بولے کہ دراصل ہمیں تو ملک کی فکر ہے، اس لئے پریشان ہوتے ہیں۔ عرض کی، ’’حضور والا، اگر آپ کو ذرا برابر بھی فکر ہوتی تو ان گھسی پٹی، روایتی سیاست کی علمبردار جماعتوں،خاندانی بادشاہت کی طرح سیاست کرنے والے لیڈروں کو ووٹ نہ ڈالتے۔عمران خان کو لوگوں نے تبدیلی کا ووٹ دیا کہ یہ شخص پچھلے بیس بائیس برسوں سے جدوجہد کر رہا ہے، سسٹم بدلنے، اصلاحات لانے کا نعرہ لگایا ہے، اسے ایک بار موقع تو دینا چاہیے۔آپ جیسے سٹیٹس کو کی حامی روایتی پارٹیوں کو ووٹ ڈالنے والوں سے محاسبہ نہیں ہوسکتا کہ یہ ان کا جمہوری ، سیاسی حق ہے کہ جسے مرضی ووٹ ڈالیں۔ تاہم یہ ضرور پوچھا جا سکتا ہے کہ جس پارٹی کو ووٹ نہیں دیا، جس لیڈر کو تم حکومت کے قابل نہیں سمجھتے تھے، اس کی شدید مخالفت کی، اب اس کے اتنے ہمدرد کیوں بن رہے ہو؟رہی سمجھ نہ آنے والی بات تو بھیا جی آپ عمران خان کی سیاست اور حکومت کو سمجھنے میں اتنا دماغ کیوں کھپا رہے ہیں؟ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں۔روایت ہے کہ مولانا ظفر علی خان ایک بار کسی لیکچر کے سلسلے میں ریڈیو پاکستان گئے، پروگرام کے بعد انہیں ڈی جی ریڈیو ذوالفقار بخاری نے اپنے دفتر میں چائے کے لئے مدعو کیا۔ مولانا نے گپ شپ کرتے ہوئے پوچھا، بخاری یہ بتائو کہ تان پورے اور طبنورے میں کیا فرق ہے؟ زیڈ اے بخاری بڑے حاضر مزاج ، فقرے باز انسان تھے، ان سے رہا نہ گیا، برجستہ بولے،’’ مولانا جس فرق کو جانے بغیر آپ نے زندگی کے پچھتر برس گزار دئیے، اب باقی ماندہ چند برسوں میں جان کر کیا کر لیں گے۔‘‘ ایک ٹی وی پروگرام میں شریک تھا، ساتھی تجزیہ نگار بھی وہی بات دہرانے لگے کہ دیکھیں فلاں صاحب تو پرویز مشرف کے ساتھ تھے ، عمران خان نے انہیں کابینہ میں شامل کیا وغیرہ وغیرہ۔اپنی باری پر عرض کیا کہ یہ اعتراض بے معنی ہے۔پاکستانی سیاست میں لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے جاتے رہے ہیں، پیپلزپارٹی جسے بھٹو جیسا طاقتور سیاستدان اور بھٹو کی پھانسی جیسا غیر معمولی فیکٹر ملا، اس میںکتنے ایک پرانے لوگ بچے ہیں؟مسلم لیگ ن کی قیادت اور اکثر بیشتر مرکزی رہنما وہ تھے جن کی سیاست کا آغاز جنرل ضیا کے دور میں ہوا۔ عمران خان کی تحریک انصاف میں بھی لوگ مختلف پارٹیوں سے آئے ہیں۔ اس کے پاس سیاستدان تیار کرنے کی فیکٹری تو نہیں تھی ،جہاں سے وہ ہر سال نئی پروڈکشن کی کھیپ نکالتا؟ہماری سیاست میں جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس کے پاس اپنی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ سے افرادی قوت آتی ہے اوروہ یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ ان کے بیشتر رہنما، ارکان اسمبلی ان کے اپنے تیار کردہ ہیں۔ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ آج کی کوئی سیاسی جماعت بقائمی ہوش وحواس (اس طرہ امتیاز کے باوجود) جماعت اسلامی بننا چاہتی ہے؟ہرگز نہیں۔ ہر جماعت چاہتی ہے کہ وہ اتنی پرکشش ، طاقتو رہو کہ اس کے پاس دیگر جماعتوں سے لوگ ٹکٹوں کے لئے آئیں۔ عمران کی مجبوری یہ رہی ہے کہ اس کے پاس دوسری پارٹیوں کے باقی ماندہ لوگ ہی آئے۔ جنہیں مسلم لیگ ن میں اچھی جگہ ملی ، وہ ابھی تک وہیں ہیں۔مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی یا دیگر جماعتوں میں فٹ نہ رہنے والے، مناسب مقام نہ ملنے کے شاقی لوگ ہی تحریک انصاف کی طرف آ ئے ۔ عمران خان کے پاس آپشن ہی نہیں تھی۔ یہ ہماری سیاست کا المیہ ہے کہ آپ نئے لوگ لے کر سیاست نہیں کر سکتے، یایہ کہہ لیں کہ جیتنے والی سیاست نہیں کر پاتے۔ اسی سیاسی ، انتخابی نظام کو بدلنا ہی حقیقی چیلنج ہے ۔ عمران خان کو چند سال مل گئے تو وہ اس نظام کو بدل سکتے ہیں، ان کے علاوہ تو اس سیاسی حمام میں کسی سے امید نہیں۔ پی ٹی آئی کے حامیوں کو بھی دو تین باتیں سمجھنا ہوں گی۔ ایک تو یہ کہ وہ Panic ہوں نہ دوسروں کو کریں۔ اپنی جماعت کا ڈٹ کر محاسبہ کریں، سوال اٹھائیں، جواب لیں، یہ ان کا حق ہے۔یہ مگر یاد رکھیں کہ جو ڈس انفارمیشن مہم ن لیگی سوشل میڈیا حلقے یا ایم ایم اے کے ہمدرد پھیلائیں گے، ان کا شکار نہ ہو جائیں۔ ہر چھوٹے بڑے ایشو پر اگر پارٹی اپنے کارکنوں ہی کو وضاحتیں دیتی رہ جائے تو پھر حکومت کر بیٹھی۔ اپنی حکومت، لیڈر پر کچھ اعتماد بھی کریں اور بعض ایشوز کو نظرانداز کرنا سیکھیں۔ سوشل میڈیا پر ہر روز ایک نیا ایشو نمودار ہوتا ہے، جس کی عمر صرف چوبیس گھنٹے ہوتی ہے۔ اگر یقین نہیں تو اپنی فیس بک وال سکرول کریں اور دو ہفتے پرانا کوئی ایشو ڈھونڈیں۔ کمنٹس پڑھیں، اس وقت یوں لگے گاجیسے قیامت برپا ہونے والی ہے اور آج وہ کسی کو یاد بھی نہیں۔ دوسرا یہ سمجھیں کہ مولوی حضرات کی طرح دجالی میڈیا کہنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا، صرف آپ کہ جہالت اور لاعلمی ظاہر ہوتی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میڈیا کے دو حصے ہیں، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا۔ جس پر اعتراض ہے، صرف اسی کا نام لیں۔ دوسرا یہ کہ الیکٹرانک میڈیا بھی کوئی ایک جسم یا باڈی کا نام نہیں۔ اس کے کئی حصے ، پرتیں اور تہیں ہیں۔ ن لیگ کی حکومت میں میڈیا کے ایک بڑے حصے نے حکومت پر تنقید کی اور تحریک انصاف کو سپورٹ کیا۔ دوسرے حصے نے ڈٹ کر ن لیگ کا ساتھ دیا اور عمران خان کے خلاف بدترین کردار کشی کی مہم چلائی، تیسرا حصہ سوئنگ رہا، کبھی ادھر ، کبھی دوسری طرف۔ اس لئے تنقید کرتے ہوئے ان جذئیات کو بھی ذہن میں رکھیں۔ تیسری بات یہ یاد رکھیں کہ اب میڈیا صرف سرکاری اشتہارات سے کنٹرول نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اشتہار نہ ملنے پر وہ خواہ مخواہ کا مخالف ہوجائے گا۔ میڈیا میں کئی بڑے طاقتور کارپوریٹ ہائوس آ چکے ہیں، جن کے لئے سرکاری اشتہار زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ ن لیگ کی حکومت میں کئی چینلز جنہیں ایک سکینڈ کا سرکاری اشتہار بھی نہیں مل رہا تھا، وہ بھی ڈٹ کر حکومت کی مخالفت کررہے تھے، انہیں علم تھا کہ اگر وہ حمایت کریں تو اشتہار ملیں گے، مگر انہوں نے اس کی پروا نہیں کی۔ آج وہ صرف اس بات پر عمران خان پر تنقید نہیں کریں گے کہ اس نے سرکاری اشتہارات حکومتی تشہیر پر خرچ نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ سوچنا بچکانہ پن ہے۔ کارپوریٹ میڈیا کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ چوتھی بات جسے سمجھنا بہت اہم ہے وہ یہ کہ میڈیا عوامی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ ایسی حرکتیں جنہیں عوام نا پسند کریں، ایک چینل جب انہیں کوریج دینا، تنقید کرنا شروع کرتا ہے تو ایسی لہر پیدا ہوتی ہے، جسے فالو کرنا سب کے لئے لازمی ہوجاتا ہے۔ اس کا علاج یہی ہے کہ ایسی حرکتیں کی ہی نہ جائیں۔ جب سرکاری پروٹوکول کے چکر میں کسی شہر کو بند کر دیا جائے تو ہر چینل تنقید کرے گا۔آج کل ویسے بھی چیزیں نئے سرے سے سیٹل ہو رہی ہیں۔ کئی چینل جنہوں نے الیکشن میں عمران خا ن کو سپورٹ کیا، مگر اب وہ بتدریج حکومتی حمایت کے بجائے اپوزیشن کا کردار نبھانے پر مجبور ہوں گے، یہ ان کی مجبوری اور پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے۔ کچھ عرصے میں سب سیٹل ہوجائے گا۔ تحریک انصاف کے کارکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں میڈیا کی سمجھ نہیں آ رہی۔ بھائی آپ کو یہ باتیں سمجھنا ہوں گی، نا سمجھی آپ کا قصور ہے، دوسروں کا نہیں۔