وسائل میں ہم مالا مال ہیں مگراپاہج اشرافیہ۔ کل اسلام آباد میں کانفرنس برپا کرنے والوں کی طرح۔ باتوں کے تاج محل استوار کرنے والے حکمرانوں کی طرح۔ بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق بے کسی ہائے تمناکہ نہ دنیا ہے نہ دیں چودہ برس ہوتے ہیں، اسلام آباد میں اطالوی سفارت کار رافیل ڈیلسیما نے محمد اسرار سے کہا کہ وہ اسے دیر کے علاقے تالاش میں لے جائے، جہاں اس کا گھر ہے۔ سفارت خانے میں وہ نچلے درجے کا ملازم تھا۔ رافیل نے اسے بتایا: تمہارے ہاں ایک خود رو درخت پایا جاتاہے، کہو۔ ان درختوں پر قلم کاری کے لیے اٹلی سے زیتون کی ہزاروں شاخیں میں لایا ہوں۔ سپین اور شام کی طرح اٹلی زیتون کا گھر ہے۔ 1300برس پہلے عربوں نے جب ہسپانیہ اترنے کا فیصلہ کیا تو بنیاد ی وجہ خانہ جنگی اور سفا ک حکمرانوں کے رویے تھے۔گورنر کے دربار میں سپین سے بھیجے گئے پیامبر نے یہ بھی کہا: حد نظر تک وہاں انار اور زیتون کے شجر لہلہاتے ہیں۔ زیتون اور انار کی قدر و قیمت سے عرب خوب واقف تھے۔ان کا تجربہ،رحمتہ اللعالمینؐ اور قرآنِ کریم کے ارشادات بھی رہنما۔ زیتون کے ذکر پر گورنر کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ باقی تاریخ ہے۔ اسرار کو ساتھ لیے رافیل تالاش پہنچا۔ بزرگوں سے اجازت لی، نوجوانوں کو اکسایا اور دس ہزار درختوں پر پیوند لگا دیے۔اب یہ تعداد چھ لاکھ ہو چکی۔ ایک درخت سے 40سے 120کلو زیتون اترتاہے۔ سو درختوں سے دس لاکھ روپے آمدن۔ پختون خوا، آزاد کشمیر اور پوٹھوہار میں جنگلی زیتون کے چھ کروڑ درخت ہیں۔ پیوند کاری سے چھ سو ارب روپے سالانہ آمدن ممکن ہے۔مجھے یہ بات دعا فاؤنڈیشن کے جنابِ فیاض عالم نے بتائی۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ڈاکٹر ہیں۔ لاچار مریضوں کے دستگیر۔ زیادہ دلچسپی مگر زراعت سے ہے۔ نعمت اللہ خاں مرحوم کی رفاقت میں بڑھتی گئی، جو اتوا رکا دن تھر میں بتایا کرتے۔ چھ دن کراچی کے الجھے ہوئے مسائل کی گتھیاں سلجھاتے۔ ساتویں دن فجر کی نماز کے بعد تھر روانہ ہو جاتے۔نیند کا کچھ حصہ گاڑی میں پورا کرتے۔ 120کنویں کھدوائے اور سینکڑوں دیہات آباد کر ڈالے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک قدم آگے بڑھایا اور کاشتکاری شروع کر دی۔ایسے درخت اگائے ہیں کہ یقین ہی نہیں آتا۔ پچھلے ہفتے وہ کلر کہار میں تھے کہ سیب اور بادام کے بوٹے لے جائیں۔ ان میں سے سیب کی ایک قسم ایسی ہے، جو پچاس ڈگری درجہ حرارت میں بھی پنپتی ہے۔ کیلیفورنیا کا بادام بھی۔ زیتون کے لیے ان کی توجہ اب آزاد کشمیر پہ ہے۔ دھیر کوٹ پہنچے، نوجوانوں کو تربیت دی اور 250درختوں پر پیوند لگا دیے۔ آزاد کشمیر کے پہاڑوں پر کہو کے لاکھوں درخت ہیں۔ فاروق گیلانی مرحوم کے درجات اللہ بلند کرے۔ تیس برس ہوتے ہیں، جب انہوں نے اس باب میں ناچیز کی رہنمائی کی تھی۔ میں اس موضوع پر لکھتا رہا لیکن کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔اسی زمانے میں بلکہ اس سے بھی پہلے تھر میں کوئلے کے ان ذخائر کا انکشاف ہوا تھا۔ان دونوں خزانوں کے بارے میں وقفے وقفے سے لکھنے کا سلسلہ جاری رہا لیکن حکومتوں اور زرعی تحقیقاتی اداروں نے سنی ان سنی کر دی۔ زرعی تحقیقاتی کونسل والے اب بھی یہ کہتے ہیں کہ پیوند کاری کی بجائے نئے پودے لگانا آسان ہے۔ ان کے دلائل عجیب ہیں کہ آندھی سے پیوند ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہ عذرِ لنگ ہے۔ سیلاب اور آندھی کے خوف سے کیا پنجاب اور سندھ کے میدانوں میں آم اور دھان کی فصلوں کو خیر باد کہہ دیا جائے؟ پیوند کاری ہی بہترین راستہ ہے۔ بلند و بالا پہاڑوں پر نئے پودے کون لگائے گا۔ راولپنڈی اور چکوال ایسے میدانی علاقوں میں البتہ یہ ممکن ہے۔ راولپنڈی کی بارانی یونیورسٹی کے تعاون سے کچھ کامیاب تجربات پہلے ہی کیے جا چکے۔ اب بڑھ پھول رہے ہیں۔ بیس برس ہوتے ہیں، میرے شامی دوست یوسف طائی نے ٹیکسلا میں ابتدا کی تھی۔ بعد میں بہت سے لوگوں نے ان سے سیکھا۔ تیس برس پہلے جب پہلی بارزیتون کے بارے میں لکھا تو اجلال حیدر زیدی مرحوم سمیت کئی زرعی ماہرین نے ہنس کر ٹال دیا۔ اسی ہنگام اسلام آباد کی ایک ممتاز شخصیت نے قہقہہ برساتے ہوئے کہا ’’خوبصورت کالموں سے اگر کوئی شخص وزیرِ اعظم بن سکتاہے تو عمران خان ضرور بن جائے گا۔‘‘ کہو کے ایک درخت پر قلم لگانے کے لیے دو سے دس شاخیں درکار ہوتی ہیں۔ ایک شاخ کی قیمت تیس روپے یعنی زیادہ سے زیادہ تین سو روپے کے اخراجات۔ زیتون کا درخت ایک سو سال تک پھل دیتا ہے۔ 1990ء میں عرض یہ کیا تھا کہ اگر آج سے کام شروع کر دیا جائے تو ایک عشرے میں تین ارب ڈالر زکا زرِمبادلہ مل رہا ہوگا۔ ایک کلو زیتون کی قیمت تین ہزار روپے ہوسکتی ہے اور ساری دنیا اس کی خریدار ہے۔ اور تو کیا، ڈاکٹر فیاض عالم نے تھر میں گندم اگائی ہے، کپاس اور دوسری سبزیاں بھی۔ انگریزوں نے تھر میں کھجور کے باغات لگانے کا خواب دیکھا مگر شرمندہ ء تعبیر نہ ہو سکا۔ ڈاکٹر فیاض عالم نے کھجور اور انار کے سینکڑوں پودے گاڑ دیے ہیں۔ ان میں سے بعض پہ پھل بھی آچکا۔ انار ابھی چھوٹے سائز کے ہیں۔ آخری نتیجے کے لیے ابھی چند ماہ درکار ہوں گے۔ دعا فاؤنڈیشن کی کامیابی کا راز پوچھا گیا تو جواب ملا: میں اس لیے ناکامی سے محفوظ رہا کہ زراعت کا ماہر نہیں تھا۔ ماہرین نے توٹکا سا جواب دے دیا تھا۔ تھر کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا تک نہ تھا کہ ڈریگان نامی پھل بھی یہاں بہار دکھا سکتا ہے۔ اب وہاں اگ رہا ہے اور خوب اگتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ این جی اوز خیرات جمع کرتی اور بانٹتی ہیں۔ اندرونِ ملک او ربیرونِ ملک سے۔ عام لوگوں کو تربیت نہیں دیتیں، نئے تصورات سے آشنا نہیں کرتیں۔پانی یہیں مرتا ہے، خرابی یہیں ہے۔ خوئے غلامی۔ چار عشرے تک اقبالؔ دہائی دیتا رہا مگر اس باب میں اس کی قوم چکنا گھڑا ثابت ہوئی۔سمجھے تو ڈاکٹر فیاض عالم جیسے کچھ لوگ ہی سمجھے ؎ جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا ’’اخوت‘‘ کا انداز البتہ مختلف ہے۔ تھر کے باسیوں کو وہ غیر سودی قرضے فراہم کرتی ہے اور فیاضی سے؛لہٰذا اسے ’’بھگوان کا بینک‘‘ کہا جاتا ہے۔ بڑی خدمات سرانجام دینے والی چھوٹی سے دعا فاؤنڈیشن الگ ہی اسلوب رکھتی ہے۔ کچھ روپے وہ اپنی جیب سے ڈالتے ہیں، کچھ دوست اور رشتے دار ان کی مدد کرتے ہیں۔ سکھا سمجھا کر سب کچھ مکینوں کے حوالے کرتے اور کسی اگلی منزل کو روانہ ہو جاتے ہیں۔ایک دھیلا بھی ان سے وصول نہیں کرتے۔ ان کے خلوصِ قلب میں اللہ تعالیٰ گہرائی پیدا کرے۔ ان کی لگن میں اور اضافہ کرے۔ ایسے ہی لوگ معاشروں کے مسیحا ہوتے ہیں۔ بائبل کی زبان میں زمین کا نمک۔ پاکستان کی زمین کے نیچے اور زمین کے اوپر بھی ان گنت خزانے ہیں۔ رکوڈک اور سوات میں مٹی تلے سونے کے پہاڑ ہیں۔ بلوچستان میں ایسا پتھر کہ دودھ کی سفیدی اس کے سامنے ماند۔ وسائل میں ہم مالا مال ہیں مگراپاہج اشرافیہ۔ کل اسلام آباد میں کانفرنس برپا کرنے والوں کی طرح۔ باتوں کے تاج محل استوار کرنے والے حکمرانوں کی طرح۔ بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق بے کسی ہائے تمناکہ نہ دنیا ہے نہ دیں