درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی تھا جو اس دل میں، دکھانے کی ضرورت کیا تھی اتنے حساس ہیں سانسوں سے پگھل جاتے ہیں بجلیاں ہم پہ گرانے کی ضرورت کیا تھی سنتھیا رچی نے تو سب کچھ ستیاناس کر دیا ہے۔ ایک ہنگامے پہ موقوف گھر کی رونق، روز کوئی نہ کوئی نیا ایشو اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ لوگوں کی توجہ مہنگائی وغیرہ سے ہٹی رہے اور لوگ وبا کو کچھ وقت کے لئے بھول جائیں۔ مگر اب کے تو بھولی بسری باتیں یاد دلائی جانے لگی ہیں خاص طور پر پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں‘ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے۔ بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا‘ ویسے یہ سب کچھ بے سبب بھی نہیں۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ بلکہ پردہ داری بھی کہاں رہی ہے یہ تو عصمت دری کا کیس ہے اور اس معاملے میں ملوث کردار بھی کچھ زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ ایک آدھ تو کلپ بھی یوٹیوب پر موجود ہے۔بہرحال وضاحتیں جاری ہیں مگر کیا کیا جائے: بات اپنی وضاحتوں سے بڑھی ہم نے سوچا تھا بات ٹل جائے رحمن ملک نے سنتھیا رچی کو 50کروڑ ہرجانے کا نوٹس بھیج دیا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ الزام میں کوئی ایمائیت بھی نہیں ہے۔ سیدھا سیدھا کہہ دیا گیا کہ رحمن ملک نے مشروب پلا کر زیادتی کی اور سنتھیا رچی کو ڈراپ کرنے والے ڈرائیور کو دو ہزار پائونڈ دیے۔ اس نے مزید کہا ہے کہ پی پی اسے پی ٹی آئی سے دور رکھنا چاہتی تھی۔ اگر الزام ثابت نہ کر سکی تو وہ سزا کے لئے تیار ہے۔ اس بلا کے ارادوں سے خوف آتا ہے’’کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد‘‘ اگثر لوگ یہ سوال ضرور کر رہے ہیں کہ یہ فساد کی جڑ 9سال کے بعد کیسے ہری ہو گئی ہے۔ اچانک 9سال بعد ہی یہ معاملہ کیسے لائم لائٹ میں آ گیا ہے۔ ویسے تو کہتے ہیں بارہ برس کے بعد روڑی کی بھی سنی جاتی ہے یہ تو جلدی سنی گئی ہے اور پھر خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے۔ اینکرز اور مبصرین کو ایک دلفریب موضوع مل گیا۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ یہ تو ابھی ٹریلر ہے۔ ابھی تو دوسری بڑی پارٹی کی بارش آنی ہے کہ وہ بھی تو باریاں لیتے آئے ہیں۔ اینکرز تو اتنے رسوخ سے سنتھیا رچی اور متعلقہ کرداروں پر سیر حاصل روشنی ڈال رہے تھے۔ لگتا ہے کہ ان مبصرین کے پاس سنتھیا رچی کے حوالے سے جو معلومات ہیں وہ سنتھیا رچی کے پاس بھی نہیں ہیں۔ ہر کوئی عجز سے کام لے رہا تھا کہ پردہ داری ضروری ہے۔رحمن ملک فرماتے ہیں کہ وہ بے نظیر شہید کے لئے ایسے ہزاروں الزام کا سامنا کر سکتے ہیں واہ واہ قتیل شفائی یاد آئے‘اپنے غموں کو روتے ہیں لے کر کسی کا نام‘ ویسے ابھی اچھی طرح مچ مچی نہیں ہے۔ کردار کو کسی کے پاس نہیں کہ اس کے حواری اس کا دفاع کر سکیں۔ بس اتنی دیرہی ہے جب تک کہ گٹر پر ڈھکنا پڑا ہے۔ اگر یہ حالیہ شوشہ ہے تو پھر بھی اس نے ایک ہنگامہ سا تھا تو برباد کر دیا ہے۔ سنتھیا رچی خوش نظر آ رہی ہے: ہر طرف ایک شور برپا اور لوگوں کا ہجوم ہم نے گویا شہر سارا اپنی جانب کر لیا ویسے یہ کوئی نئی بات نہیں پہلے بھی ایسے شوشے چھوڑے جاتے رہے ہیں۔ مگر میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اس کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں ہے۔ کچھ نہ کچھ ہوتا ہے تو کہانی بنتی ہے۔ رحمن ملک کے یا دوسرے کرداروں کے رہ و رسم تو محترمہ کے ساتھ رہے ہیں وہ تو پھر بھی امریکی ہے یہاں تو حریم شاہ ہی مان نہیں کہ اس کی اپروچ کہاں تک ہے کہ ساری سکیورٹی کو روندتی ہوئی وزیر اعظم کی کرسی پر جا براجمان ہوئی اور اس کے بعد جب ویڈیو وائرل ہوئی تو لوگوں کے کہنے پر اس کا محاسبہ کرنے کی بات ہوئی تو حریم شاہ نے صاف کہہ دیا کہ وہ ان سب کے پول کھول کر رکھ دے گی۔ بس پھر کیا تھا سب نے اپنے پول بچانے کے لیے بات گول کر دی۔ آپ نے پارلیمنٹ سے بازار حسن تک کتاب تو دیکھی ہو گی۔اس کی کمائی پر پبلشرز اور رائٹر دونوں امیر ہو گئے ابھی تک ایک معما ہے کہ یہ کتاب کس نے لکھائی تھی۔ یہ ایان علی تو کل کا واقعہ ہے۔ ایان کو استعمال کرنے والے تو ایانے ہی رہے اسے پکڑنے والا پراسرار انداز میں مار دیا گیا۔ قصور کے شرمناک فلموں میں ملوث لوگوں کو بھی بھلا دیا گیا یا نظر انداز کر دیا گیا۔وہی جو کہا جاتا ہے کہ کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا ۔تو غلط نہیں ہے ان کے لچھن ہی ایسے ہیں۔ یہ سیاسی اقلیم رانیاں اور ترانا ہائے ملک و ملت۔ کس کس کا تذکرہ کریں۔ بات سے بات نکلتی آتی ہے ویسے میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ کسی بھی خاتون کو خواہ وہ کتنی ہی گئی گزری ہو اتنی جرأت نہیں ہوتی کہ سیدھا سیدھا زیادتی کا الزام لگا دے۔ کسے نہیں معلوم کہ ایوان صدر ہی کیا گورنر ہائوس پنجاب کی کیا صورت حال رہی ہے۔ سلمان تاثیر کی گورنری کے زمانے کی تصاویر یوٹیوب پر اب بھی پڑی ہیں اور پھر ان کاٹن گروپ کیا کچھ نہیں کرتا رہا۔ پرویز مشرف بھی ان میں شامل تھے۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔قبلہ رسوائی تو پھر ایسے کاموں میں ہوتی ہے اور یہ بھی کوئی ایسی پریشانی والی بات نہیں‘دل خود یہ چاہتا تھا کہ رسوائیاں بھی ہوں۔ ایک بات درمیان میں رہ گئی کہ ماضی میں بھی ایسے واقعات ہوتے آئے ہیں کہ کبھی کوئی خاتون آئی کہ اس کے پیٹ میں بچہ تلاوت کرتا ہے اور سب مولانا حضرات نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ پھر عقدہ کھلا کہ اس نے تو اندر ٹیپ ریکارڈر رکھوایا ہوا ہے۔کبھی کوئی پیر سپاہی آ گیا اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ساری دنیا اس کے پیچھے پاگل ہو گئی۔ پیر سپاہی جہاں جاتا خلقت بوتلیں اٹھائے آ جاتی۔ پھر جو ڈراپ سین ہوا وہ بھی آپ کے سامنے ہے اور پھر سیاست میں کیسے کیسے نام آئے سیتا وائیٹ سے لے کر طاہرہ سید تک۔ ایک طاہرہ بھی آئی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ چلتا رہتا ہے مگر فتنہ ایسے ہی نہیں پھیلتا۔بیج کو زمین زرخیز ملتی ہے تو وہ کونپل بن جاتا ہے اور پھر تنآور درخت۔ افسوس تو یہ ہوتا ہے کہ سنتھیا رچی نے یہ وقت کیسا ڈھونڈا کہ ساری دنیا وبا کی لپیٹ میں ہے اور موت شہروں میں رینگتی پھرتی ہے۔ سب وبا سے بچنے کی تدابیر کر رہے ہیں اور اچانک ایک اور وبا آن حاضر ہوئی۔ معلوم نہیں کہ آخر نو سال کے بعد محترمہ کس شے کی ریکوری چاہتی ہیں۔اگر وہ کچھ لوگوں کو رسوا کرنا چاہتی ہیں تو یہ اس کی بھول ہے۔ ان کا یہ مسئلہ ہی نہیں بلکہ بیٹھے بٹھائے وہ دوبارہ لوگوں کے نوٹس میں آ گئے ہیں کہ ان کے لیڈر ابھی مرے کھپے نہیں۔ آخر میں ایک شعر: ان خطوں کو کہیں دریا میں بہایا ہوتا اس طرح خود کو جلانے کی ضرورت کیا تھی