شگر کی سرسبز اور حسین وادی نہیں دیکھی تو آپ گویا بلتستان گئے ہی نہیں۔ شگر کی حسین وادی سکردو سے آدھ گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔وادی نہایت زرخیزہے لیکن اس کے راستے میں خالص ریت کا ’ ’ سرفہ رنگہ ‘ ‘ صحرا بھی پڑتا ہے جہاں گھاس کی پتی بھی دکھائی نہیں دیتی اور جہاں مشہورڈیزرٹ کار ریلی منعقد ہوتی ہے۔یہ لق و دق دشت ہے جو حد نظر تک پھیلا ہوا ہے ۔بنجر پہاڑوں اور بکھری چٹانوں کے درمیان سے سڑک گزرتی ہے تو دور دور تک آبادی کے آثار نظر نہیں آتے۔پھر ایک موڑ کاٹ کر چاندی کی طرح آبشار گرتی اور پہاڑی نالہ بہتا دکھائی دیتا ہے۔وادیٔ شگر میں داخل ہوتے ہی پہاڑی قصبوں کا رنگ واضح نظر آنے لگا ۔بل کھاتا تنگ بازار اور راستہ۔ دونوں طرف مکانات،قصبے میں داخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ لکڑی کی تعمیر کردہ قدیم مسجد اور خانقاہ دکھائی دیتی ہے ۔ ذرا سا آگے بڑھیں تو تند و تیز نالے کے ساتھ ذرا اونچائی پر دائیں ہاتھ شگر کے راجہ کا قلعہ آجاتا ہے۔ یہ قلعہ پھونگ کھرکہلاتا ہے ۔ پھونگ(چٹان)، کھر( قلعہ)۔ایک چٹان پر اسے بنایاگیا تھا ۔ سال ہا سال کے احوال دیکھتے دیکھتے قلعہ خستہ حال ہوچکا تھا۔چنانچہ2005ء میں اسے اس کی پرانی بنیادوں پر دوبارہ اسی طرح تعمیر کیا گیا۔اب اس قلعے میں ہوٹل ریزارٹ اور میوزیم واقع ہے۔ سیاح کچھ دیر کے لیے یہاں پہنچ کر خود کو اسی زمانے میں محسوس کرتا ہے۔ اگرچہ اس زمانے میں ہونا نہ ہونے جیسا ہی ہوتا ہوگا پھر بھی قدیم خوشبو ہر زمانے میں لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی رہی ہے۔میں خود اس شوق کا اسیر ہوں لیکن اس قلعہ ہوٹل کے چھوٹے اور گھٹے ہوئے کمرے دیکھ کر یہ ضرور سوچا کہ خدا جانے لوگ اس میں کس طرح رہتے ہوں گے۔قلعے کے مختلف کمروں میں اس زمانے کے برتن ، اوزار،جہازی صندوق،اور ہتھیار بھی رکھے گئے ہیں۔گویا دربار حاضر اور بادشاہ غائب ۔اورتاریخ میں بادشاہ غائب ہونے کے لیے ہی حاضر ہوا کرتے ہیں۔ نیم روشن اور تنگ کمروںکی تلافی محل کی بارہ دری ،اور سبزہ زار کردیتے ہیں۔بارہ دری کے قریب بچھے تخت کے عقب میں گنگناتا پہاڑی چشمہ اپنی دھن میں کچھ بولتا تھا،پیڑ سرسراتے تھے اور ہوائیں سرگوشیاں کرتی تھیں۔بارہ دری کے قریب سبزہ زار میں چنار کا ایک قدیم اور بہت بڑا درخت ہے ۔آتشِ چنار مشہور ہے ۔روایت ہے کہ پانچ سو سال بعد چنار میں خود بخود آگ لگ جاتی ہے ۔اس قدیم چنار کے درخت کا تنا بھی زمین کی سطح کے ساتھ کھوکھلا ہے ۔یہ اتنا بڑا شگاف ہے کہ میں بآسانی درخت کے اندر چلا گیا۔ درخت کے گھیر میں مجھ جیسے تین چار آدمی پورے قد کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں ۔ اگلے سبزہ زار میں پہنچے تو چیری کا پیڑ پھلوں سے سرخ ہورہا تھا،کچے سیبوں سے درخت بھرے ہوئے تھے اور خوبانیاںپک کر فرش پر ٹپک رہی تھیں۔انگور کی گھنی بیلوں تلے تخت، کرسیاں اورمیز بچھے تھے ۔ساتھ ہی قلعے کی دیوار تھی اور دیوار کے پارسڑک کے ساتھ پرشور جھاگ اڑاتاٹھنڈا، شفاف شگر نالہ۔ خدایا تیری جنت پھر کتنی حسین ہوگی۔ قلعے کی سیر کے بعد ایک خوب صورت جگہ پر ایک ہوٹل ڈھونڈ کر گھر سے لایا ہوا مزے دار کھانا کھایا گیا اور اس کے بعد ’ ’ ہشوپی‘ ‘ کا رخ کیا گیاجو وادیٔ شگر ہی کا ایک مقام ہے۔ تقریبا ـــآدھے گھنٹے بعد ہم ہشوپی پہنچ گئے۔یہاں ایک بہت بڑا سرکاری ایگری فارم اور نرسری ہے جس میں پھل دار اور پھول دار پودے لگے ہوئے ہیں۔پہاڑوں اورچشموں کے بیچ اس فارم کی خوب صورتی بالکل الگ رنگ کی ہے اور رنگا رنگ پھولوں نے اسے مزید پُر بہار کردیا تھا۔للی (lilly)کے زرد اور سفید پھول اس منظر کی جان تھے ۔ شگر کی خوبانیاں خاص طور پر مشہور ہیں۔ہم نے جی بھر کے موٹی ، رسیلی خوبانیاں کھائیں۔سیب کے باغ کی سیر کی۔پھولوں میں گھومے اور قہوے سے تھکن اتاری۔ہم شگر سے واپسی کا سفر کرتے تھے اور ایک مہک سی رگ جاں میں سفر کرتی تھی ۔ سنہری دھوپ ہری گھاس اور تری خوشبو کہ جیسے تو ہے مر ے پاس اور تری خوشبو اگلے دن ایک نئی جگہ کت پناہ جھیل اور گلیمپ دیکھنے کا پروگرام طے کر رکھا تھا۔یہ جگہیں سکردو کے قریب ہیں اس لیے دوپہر کھانے کے بعد کت پناہ کی طرف روانہ ہوئے۔ جب سے میزبانوں سے نانگ سوق نامیاتی گاؤں((organic villageکا ذکر سنا تھا دلی خواہش تھی کہ وہ راستہ اور ممکن ہو تو وہ گاؤں دیکھا جاسکے۔لیکن راستہ اتنا مشکل تھا کہ اس کے بارے میں سن کر ہی کئی ساتھیوں کی ہمت جواب دے گئی۔دراصل یہ گاؤں ہے تو دریا کنارے لیکن سکردو سے قریب ہونے کے باوجود یہاں گاڑی نہیں جاتی. بلکہ گاڑی کی جہاں آخری حد ہے اس کے بعد پیدل ڈھائی کلومیٹر کا نہایت دشوار سفر ہے جو پتھریلے اور خطرناک پہاڑی راستوں سے بھی گزرتا ہے اور دریا کنارے ریت پر بھی اس کا کافی حصہ ہے۔گاڑی سے اتر کر منزل تک پہنچنے میں دو ڈھائی سخت گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ایک دن ہم عصر سے پہلے گھر سے نکلے۔یہ تو ہمیں اندازہ تھا کہ دشواری اور وقت کی کمی کی وجہ سے ہم نانگ سوق تک نہیںپہنچ سکیں گے لیکن اس راستے پر جہاں تک جاسکیں وہ بھی بہت تھا اور ہماری اصل منزل یہی راستہ تھا۔ نانگ سوق تک رسائی بہت مشکل ہونے اور ضروری چیزیں مشکل سے پہنچنے کے باعث گاؤں والوں کی توجہ اسے ایک نامیاتی گاؤںبنانے کی طرف دلائی گئی اور یہ تجربہ نہایت کامیاب رہا۔ یہ بلتستان کا پہلا آرگینک ولیج ہے۔ سکردو کے تاریخی قلعے ’ ’ کھر فوچو ‘ ‘ (قلعوں کا بادشاہ)سے کچھ پہلے گاڑی کی آخری حد تھی۔یہ قلعہ بلندی پر اور دشوار چڑھائی پر ہے۔اس کے نیچے سے گزرتے ہوئے ہم نے راجہ کی رانی کا محل بھی دیکھا جو قلعے سے کم بلندی پر تھا اور جس کے بارے میں ایک داستان بھی چلی آتی ہے۔یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ گلگت سکاؤٹس اوربلتی مجاہدین نے 14اگست 1948ء کو کھر فوچو قلعہ فتح کیا۔پاکستان بننے کے ٹھیک ایک سال بعد۔ نانگ سوق کا راستہ بہت خطرناک اور بے پناہ خوب صورت ہے۔کافی نیچے پہاڑی دیوار سے دریائے سندھ ٹکراتا ہے ۔سامنے سکردو کی وادی اور شہر پھیلا ہوا ہے اور ہر موڑ پر نیا منظر نظر آتا ہے۔یہ راستہ ایسا ہے کہ ایک قدم غلط پڑا تو سیدھے نیچے کھائی میں گئے۔کھائیوں کو عبور کرنے کے لیے جابجا لکڑی کے پل ہیں جن پر ایک وقت میں دو آدمیوں سے زیادہ کا بوجھ نہیں ڈالا جاسکتا۔ایک گھنٹہ اس بلند پہاڑی راستے پر چلنے کے بعد راستہ نیچے اترنے لگا۔اور کچھ دیر بعد ہم دریا کے کنارے ریت پر تھے۔یہ جگہ کمال خوب صورت ہے اور دریا بھی اپنا پر شور بہاؤ بھول کر یہاں پرسکونہے۔سفید ریت،ساحل،دریا،کھلی وادی،ہرے درخت ،سکون اور سکوت۔اس منظر کے لیے الفاظ کم پڑتے ہیں۔ توکیا حسن کے لیے ہمیشہ الفاظ کم نہیں پڑجاتے؟