پاکستان اور بھارت کے مابین سندھ کے پانیوں پر پاک بھارت مستقل کمیشن کا 117 واں اعلیٰ سطحی اجلاس رواں ماہ ایک تا تین مارچ تک اسلام آباد میں ہوا ۔ اِس کا اہتمام پاکستان کے کمشنر برائے انڈس واٹر کے دفتر نے عالمی بینک کی ثالثی میں ہونے والے 1960 کے سندھ طاس معاہدے کی ذمہ داریوں کے تحت کیا تھا۔ اگست 2019 میں بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد یہ دوسرا اِجلاس تھا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت مستقل انڈس کمیشن کا آخری اجلاس 23 سے 24 مارچ 2021 کو نئی دہلی میں ہوا تھا۔ 1960 میں پاکستان اور بھارت نے آبی وسائل کی تقسیم کے دیرینہ مسئلے کو حل کیا اور سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے جس کی ثالثی عالمی بینک نے کی تھی۔ اس معاہدے کے مطابق تین مشرقی دریا ستلج، بیاس اور راوی بھارت کے سپرد کیے گئے تھے جبکہ اِن دریاؤں کے پانی کے غیر محدود استعمال کی بھی اجازت دی گئی تھی۔ پاکستان نے مغربی دریاؤں بشمول چناب، جہلم اور سندھ کے پانی کے غیر محدود استعمال پر کنٹرول حاصل کر لیا، اَگرچہ بھارت کو رن آف دی ریور پراجیکٹس کے ذریعے پن بجلی پیدا کرنے کے لیے پانی کو جزوی طور پر استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ تاہم، پاکستان ان منصوبوں پر اعتراض کر سکتا ہے اگر اسے خدشہ ہو کہ اَیسے منصوبے بھارت کو پن بجلی پیدا کرنے کے مقاصد کے علاوہ پانی استعمال کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں اور اِس طرح پاکستان کو تفویض شدہ دریاؤں میں پانی کی قلت کا سبب بن سکتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت، بھارت اور پاکستان، سندھ طاس میں دریاؤں کے انتظام اور اشتراک میں تعاون کرنے کے پابند ہیں اور ہر سال 31 مارچ سے پہلے سالانہ اجلاس منعقد کرنے کے پابند ہیں۔ سندھ طاس کے آبی معاہدہ(IWT) نے اختلافات اور تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک خود ساختہ طریقہ کار وضع کیا ہے۔ یہ آرٹیکل IX کے تحت تنازعات کو حل کرنے کے لیے تین طرح کے طریق ہائے کار پر مشتمل ہے۔ سب سے پہلے، یہ معاہدہ ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کرتا ہے جس میں دونوں ملکوں کی طرف سے سندھ کے پانی کے لیے ایک ، ایک کمشنر مقرر کیا جاتا ہے۔ معاہدے کی "تشریح یا عمل درآمد" سے متعلق کوئی بھی معاملہ دَر پیش ہو تو اِس کمیشن کو پیش کیا جاتا ہے جو کہ معاہدے کی تشریح اور نفاذ سے متعلق تمام معاملات پر دونوں ممالک کے درمیان رابطے کے ایک باقاعدہ چینل کے طور پر کام کرتا ہے۔ دوم، یہ معاہدہ تنازعہ کے حل کے لیے ایک غیر جانبدار ماہر کی خدمات فراہم کرتا ہے۔ اگر دونوں ممالک کے کمشنر تنازعہ کے کسی تصفیے تک نہیں پہنچ پاتے ہیں، تو معاملہ کسی بھی فریق کی درخواست پر غیر جانبدار ماہر کے پاس پیش کیا جائے گا بشرطیکہ یہ غیر جانبدار ماہر کے دائرہ اختیار میں آتا ہو۔ معاہدے میں اَیسے معاملات درج کیے گئے ہیں جو غیر جانبدار ماہر کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ تیسرا، متنازعہ معاملہ کسی بھی فریق کی درخواست پر سات رکنی ثالثی عدالت کو بھیجا جائے گا بشرطیکہ معاملہ غیر جانبدار ماہر کے دائرہ اختیار میں نہ آتا ہو۔ انڈس واٹر کے کمشنروں کی سالانہ میٹنگ معلومات کے تبادلے کے لیے ایک اہم سرگرمی ہے جس نے دونوں پڑوسیوں کے درمیان شدید مخالفانہ تعلقات کے درمیان سندھ آبی معاہدہ کو کافی حد تک کامیاب بنایا ہے۔ حالیہ اِجلاس کے لیے 10 رکنی بھارتی وفد کی سربراہی بھارتی کمشنر پی کے سیکسینا جبکہ پاکستانی وفد کی قیادت سید محمد مہر علی شاہ نے کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حالیہ اِجلاس کے دوران پاکستان نے 10 بھارتی ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس (HEP) جن میں 19 میگاواٹ کا ڈربک شیوک، 24 میگاواٹ کا نیمو چلنگ، کیرو، تماشا، کالاروس II، بالٹیکولن سمال، کارگل ہنڈرمین، پھگلا، کولان رامواری اور منڈی پر اعتراض اٹھائے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان پہلے ہی بھارت کے ناجائز زِیرِ قبضہ کشمیر میں دریائے چناب پر 1000 میگاواٹ کے پکال دول اور 48 میگاواٹ کے لوئر کلنائی ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کے ڈیزائن پر اپنے اعتراضات کا اظہار کر چکا ہے۔ چھوٹے ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس پر، بھارت کی طرف سے فراہم شدہ ڈیٹا منصوبے کے ڈیزائن اور تکنیکی چارٹ میں فرق کی وجہ سے پاکستان کے لیے ناقابل قبول تھا۔ پاکستان نے خاص طور پر 624 میگاواٹ کے کیرو اور 48 میگاواٹ کے لوئر کلنائی منصوبوں پر پانچ بڑے اعتراضات کیے ہیں اور اِن منصوبوں کو 1960 کے سندھ آبی معاہدے کی خلاف ورزی سمجھتا ہے کیونکہ یہ اعتراضات بنیادی طور پر سپل وے، تالاب اور چھوٹی سطح کے آؤٹ لیٹ سے متعلق ہیں۔ بھارت کی طرف سے دریائے چناب پر 644 میگاواٹ کے کھیترو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا ڈیزائن پاکستان میں دریائے چناب کے بہاؤ کو متاثر کر سکتا ہے۔ جس کا براہِ رَاست اَثر ہیڈ مرالہ سے ملحقہ زرعی علاقوں پر پڑے گا۔ پاکستان نے موجودہ سیزن کے دوران سیلاب کے بہاؤ اور دریائے ستلج میں پانی کے بہاؤ کے آزادانہ بہاؤ کی بحالی کے بارے میں بھی پیشگی معلومات مانگی ہیں۔ تاہم، میڈیا رپورٹس کے مطابق، بھارتی وفد نے مطلوبہ معلومات کی فراہمی سے اِنکار کرتے ہوئے دلیل دی ہے کہ یہ معلومات صرف سیلاب کے دوران فراہم کی جا سکتی ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان 1989 میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت بھارت تمام دریاؤں میں سیلاب کی صورتحال کے بارے میں پہلے سے معلومات فراہم کرنے کا پابند ہے تاکہ پاکستان صورتحال کے مطابق اپنے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کر سکے۔ . تاہم، بھارت گزشتہ چند سالوں سے سیلاب کی صورتحال کے بارے میں مطلوبہ اعداد وشمار پاکستان کو فراہم نہیں کر رہا ہے جو اس کی روایتی ہٹ دھرمی کا ثبوت ہے۔پانی کے مسائل پر پاک بھارت مذاکرات کا جائزہ بتاتا ہے کہ چاہے وولر بیراج کا مسئلہ ہو یا دیگر منصوبے ہوں، بھارت ہمیشہ تاخیری حربے استعمال کرتا ہے۔ تاریخی طور پر پانی اتحاد، قربت اور تعاون کا ذریعہ رہا ہے اور تقسیم کے بجائے بانٹا جاتا ہے۔ لیکن، پاکستان اور بھارت کے معاملے میں، سندھ طاس کے چھ دریاؤں کے پانی کو اِس طریقے سے تقسیم کیا گیا کہ پاکستان میں مشرقی دریاؤں خصوصاً ستلج کے کنارے تہذیبوں کے وجود خطرے میں پڑچکا ہے۔ اِس لیے سندھ طاس معاہدے پر حقیقی روح کے ساتھ عمل درآمد کی ضرورت ہے جبکہ دریائے ستلج کو بھی مذاکرات میں شامل کرنا وقت کی اَہم ضرورت ہے کیونکہ ستلج کی تہذیب کا بچاؤ تب ہی ممکن ہے جب تمام سال دریائے ستلج میں مخصوص حجم میں پانی کا بہاؤ یقینی بنایا جائے۔