سندھ کے تاریخی شہر شکارپور کے قریب دریائے سندھ کے کنارے جو جنگل بچا ہے،اس وقت وہ علاقہ ڈاکوؤں کی آخری پناہ گاہ ہے۔ ہم اس دور کی بات نہیں کر رہے، جب سندھ کا نام آتے ہی ڈاکوؤں کا ڈر دل و دماغ میں دوڑ جایا کرتا تھا۔ اس دور میں سندھ کے ہر جنگل میں ڈاکو تھے اور وہ ڈاکو آسمان سے پیراشوٹ کے ذریعے نہیں اترے تھے۔ان ڈاکوؤں کی فصل سیاسی مقاصد کے لیے بوئی گئی تھی۔ ڈاکو پیدا کرکے سندھ میں زندگی کی فطری رفتار روکی گئی۔ ویسے تو سندھ میں ایسا کوئی دور نہیں رہا، جب کوئی نہ کوئی نامور ڈاکو نہ ہو۔ انگریز دور میں سالو بردی سے لیکر عبدالرحمان دھاڑیل تک اور پرو چانڈیو سے لیکر محب شیدی تک سندھ میں نامی گرامی ڈاکو پیدا ہوئے ہیں اور ان کی پیدوار کے بھی اسباب تھے۔ سندھ کے معاشرے پر تحقیق کرنے والے مغربی دانشوروں کا بھی یہی خیال ہے کہ ڈاکو پیدا کرنے والی کوکھ وہ جاگیرداری سماج ہے جہاں سرکش لوگ ظلم خاموشی سے ظلم برداشت کرنے کے بجائے جنگل میں اتر جاتے تھے اور اپنے گاؤں کے ظالم وڈیرے کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرتے تھے۔ جس طرح پرانے پاکستانی فلموں میں دکھایا جاتا ہے کہ محمد علی یا سدھیر جاگیردار کے ظلم کے ردعمل میں ڈاکو بن جاتے تھے اور پہاڑی غاروں میں پناہ لیتے تھے۔ سندھ میں ڈاکو اس طرح بھی پیدا ہوئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہر ڈاکو کے پیچھے کسی نہ کسی ظالم وڈیرے سے انتقام کا جذبہ ہوا کرتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ وڈیروں کی مدد کے بغیر ڈاکو دو دن بھی نہیں رہ سکتے۔ اب تو معاملات بڑی حد تک تبدیل ہوگئے ہیں ورنہ وڈیروں کا یہ مشغلہ بھی تھا اور کمائی کا ذریعہ بھی کہ وہ اپنے کھیتوں میں ڈاکوؤں کو پناہ دیا کرتے تھے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک کے بعد ڈاکو کلچر کو فروغ حاصل ہوا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب شام کا سورج ڈھلتے سندھ کے چھوٹے شہروں اور بڑے گاؤں کے راستوں پر غیر اعلانیہ کرفیو کا سماں نظر آتا تھا۔ جب رات کے وقت کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ وہ گاڑی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک سفر کرے۔ پولیس چوکیوں پر گاڑیوں کی لائن لگ جاتی اور پھر پولیس کی نگرانی میں گاڑیاں ان راستوں سے گذرتی تھیں جہاں شام کے بعد ڈاکوؤں کا راج ہوا کرتا تھا۔ جس طرح کراچی جیسے شہر میں کسی شخص کا سٹریٹ کرائم کا شکار نہ ہونا حیرت کی بات سمجھی جاتی ہے، اسی طرح اس دور میں سندھ اکثر خاندان ڈاکوؤں سے متاثر ہوئے۔ اغوا برائے تاوان تو ایک ایسا بزنس بن گیا تھا جس میں صرف مجرم ہی نہیں بلکہ پولیس اور سیاسی جماعتوں کے لوگ بھی ملوث تھے۔ اس سماج کو سمجھنے کی سخت ضرورت بھی ہے جہاں ’’پرو چانڈیو‘‘ نامی ڈاکو اس قدر مقبول ہوا تھا کہ اس کے جنازے پر ہزاروں اجرک ڈالے گئے تھے اور اس پر سندھی زباں میں ایک فلم بھی بنی تھی۔ وہ دور بہت اذیتناک تھا اور ایک آزمائش کی طرح وہ دور گذر گیا مگر سندھ میں آج بھی ڈاکو موجود ہیں۔ گذشتہ ہفتہ تو میڈیا پر ڈاکو چھائے ہوئے تھے۔ وہ ڈاکو جن کے خلاف آپریشن کرنے کے لیے شکارپور کے قریبی جنگل میں پولیس کی بکتر بند فورس کے ساتھ داخل ہوئی اور ناقص مٹیریل سے بنی ہوئی اس بکتربند گاڑی میں ڈاکوؤں کی فائرنگ سے سوراخ ہوگئے اور اس مقابلے میں دو پولیس اہلکار اور ان کے ساتھ ایک فوٹو گرافر بھی شہید ہوا۔ اس کے بعد ان ڈاکوؤں نے قبضے میں لی ہوئی بکتر بند کے گرد نہ صرف جشن منایا بلکہ انہوں نے وڈیو بھی بنائی اور اس وڈیو میں پولیس کو انتباہ دیا کہ اگر وہ پھر سے ریڈ کرنے کے لیے آئے تو ان کا حشر بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس کے بعد سندھ کے سوشل میڈیا پر نہ صرف پولیس اور ڈاکوؤں کے تعلقات کا تذکرہ ہوتا رہا بلکہ ڈاکو سوشل میڈیا پر اپنے ہیوی ہتھیاروں کی نمائش بھی کرتے رہے۔ لوگ حیرت سے یہ سوال پوچھتے رہے کہ آخر ان کے پاس اتنا خطرناک اسلحہ کہاں سے آیا؟ ایسا اسلحہ تو سندھ پولیس کے پاس بھی نہیں۔ سندھ میں ڈاکوؤں کے پاس راکیٹ لانچر ہونا تو اب عام سی بات ہوگئی ہے۔ سندھ کے ڈاکو اب موبائل فون کا استعمال کرتے ہوئے اپنے جرائم کا جال آسانی کے ساتھ بچھاتے ہیں اور اس جدید ٹیکنالاجی میں وہ پولیس سے کہیں آگے ہیں۔ اگر آپ سندھ کے سرحدی شہر کندھ کوٹ جائیں تو وہاں آپ کو اہم شاہراہوں پر پولیس کے طرف سے آویزاں کیے ہوئے وہ بورڈ نظر آئیں گے جن پر لکھا ہوا ہے کہ موبائل فون کے معرفت ڈاکوؤں کے جال میں آنے سے اپنے آپ کو بچائیں۔ وہ دیہاتی ڈاکو جو پوری زندگی کبھی سکول نہیں گئے مگر وہ اس دور میں موبائل فون کے اتنے ایکسپرٹ ہوگئے ہیں کہ آوا ز کو تبدیل کرنے والی اپلیکیشنز ڈاؤن لوڈ کرکے وہ اپنی آواز کو زنانہ آواز میں تبدیل کرتے ہیں اور موبائل والی محبت کے جال میں لوگوں کو اس طرح ٹریپ کرتے ہیں کہ وہ عشق میں اندھے ہوکر ان کے دیے ہوئے پتے پر جنگل میں داخل ہوجاتے ہیں اور پھر ڈاکو انہیں بغیر کسی محنت اور خطرے کے یرغمال بنا کر ان کے گھر والوں سے منہ مانگا تاوان طلب کرتے ہیں اور تاوان نہ دینے کی صورت میں وہ ایسی ایسی وڈیوز بنا کر یرغمالی کے خاندان کو بھیجتے ہیں کہ ان کے گھر والے سب کچھ بیچ کر بھی ڈاکوؤں کا مطالبہ پورا کرنے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں۔ جس طرح موبائل فون اوپر سوشل میڈیا نے ہمارے معاشرے کے کلچر کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اسی طرح موبائل فون کے ذریعے اب ڈاکو لوگوں کو آسانی سے لوٹتے ہیں۔ موبائل فون کے ذریعے انہیں پولیس کے چھاپے کی اطلاع مل جاتی ہے اور وہ اس علاقے سے نکل جاتے ہیں۔ موبائل فون کے ذریعے وہ اپنے رشتہ داروں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ موبائل فون کے ذریعے وہ پولیس والوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ موبائل فون کے آنے سے جرائم کی دنیا پر پڑنے والے اثرات ایک الگ تحقیقی موضوع ہے۔ اس وقت موبائل فون سوشل میڈیا کا ایک ہتھیار بن چکا ہے اور اس ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے جس طرح شکارپور کے جنگل میں موجود ڈاکوؤں نے دو پولیس اہلکاروں اور ایک فوٹو گرافر کو شہید کیا اور اس واقعے کو اپنے شہرت کے لیے استعمال کیا تو سندھ میں جرم کی ایک لہر اٹھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ڈاکو راج کے ستائے ہوئے اہلیان سندھ کے دل یہ سوچ بیٹھ گئے کہ کیا’’تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے؟‘‘ سندھ اس تلخ تاریخ کو کسی صورت دہراتا ہوا نہیں دیکھ سکتا جس کا تصور بھی بھیانک ہے۔وہ تاریخ جو سندھ کی فطری تاریخ نہیں تھی۔ تاریخ کا وہ دور سندھ پر سازش کے ذریعے مسلط کیا گیا تھا۔ اہلیان سندھ آج بھی اس خوف کا شکار ہیں کہ اگر پھر ایسی کوئی سازش ہوئی تو کیا ہوگا؟اس لیے شکارپور کے جنگل سے اٹھے ہوئے تین لاشوں کے ساتھ جرم کی تو نہیں البتہ خوف کی وہ لہر ضرور اٹھی جو اس وقت اپنی شدت کھو چکی ہے اگر اس لہر کے پیچھے ایک اور لہر آئی تو پھر کیا ہوگا؟ یہ خوف اب بھی سندھ کے دل کے ساتھ دھڑک رہا ہے۔ روس کے عظیم ناول نگار دوستو وسکی نے لکھا ہے ’’خوف تو ایک سایہ ہوتا ہے‘‘ وہ سایہ اس وقت بھی سندھ پر لہرا رہا ہے اور اس خوف کے سائے میں پیپلز پارٹی کی حکومت بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وفاقی حکومت نے سندھ میں ڈاکوؤں کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتحال کا نوٹس لیا تو وزیر اعلی سندھ پولیس کی قیادت کے ہمراہ خود شکارپور گئے۔ پولیس کے چند افسران کے تبادلے بھی ہوئے مگر اب تک پولیس کے شہداء کے قاتل گرفتار نہیں ہوئے۔قاتل ڈاکوؤں کی گرفتاری تو بہت اہم ہے مگر اس سے زیادہ اہم ہے اس نظام کا خاتمہ جس نظام کے بطن سے ڈاکو پیدا ہوتے ہیں۔