سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو تبدیل کرنا مشکل نہیں‘ نتائج و عواقب کا مگر وفاقی حکومت کو ادراک ہونا چاہیے۔ سیاسی عصبیت کے فلسفے کا میں قائل ہوں نہ گلوبل ویلج میں اس کی گنجائش ہے۔ جب مختلف عصبیتیں دم توڑ رہی ہیں اور تعصب‘ تنگ نظری‘ منافرت اور قبائلی طرز کی جتھے بندی کو انسانیت اور جمہوریت کے علاوہ ہر سماج کے لئے زہر قاتل سمجھا جا رہا ہے ‘تو سیاسی عصبیت کا پرچار ذہنی عیاشی کے سوا کچھ نہیں ‘ویسے بھی میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی مشکلات اور ان کے حامیوں کی بے بسی دیکھ کر سیاسی عصبیت کا بھید بخوبی کھل جاتاہے۔ البتہ سیاسی حرکیات کے کچھ تقاضے ہیں‘ جنہیں ملحوظ رکھے بغیر وفاقی حکومت کا کوئی اقدام مفید ثابت ہو سکتا ہے نہ فیصلہ کن۔ ماضی کا تجربہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے جب بھی سندھ میں وزیر اعلیٰ کو تبدیل کیا وہ خود بھی عدم استحکام کا شکار ہوئی ‘غوث علی شاہ اور لیاقت جتوئی کی حکومتیں باقی نہ رہیں اور خمیازہ محمد خان جونیجو اور نواز شریف کو بھی بھگتنا پڑا۔ موجودہ وفاقی حکومت کو محمد خان جونیجو اور نواز شریف کی طرح پارلیمنٹ میں بھرپور تائید و حمائت حاصل ہے نہ سندھ اسمبلی میں ارکان کی قابل ذکر تعداد کا اعتماد۔ گورنر راج کا نفاذ یوں مشکل ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد اس کی منظوری مقررہ مدت میں سینٹ و قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے لینا ضروری ہے اور یہ مدت پہلے کی طرح چھ ماہ نہیں صرف دو ماہ ہے۔ جبکہ سینٹ و قومی اسمبلی کی مشترکہ پارلیمانی قوت کا جھکائو اپوزیشن کی طرف ہے حکومت کی طرف نہیں۔فعال عدلیہ شائد اس کی اجازت بھی نہ دے۔ تحریک عدم اعتماد واحد آپشن ہے ‘جو پیپلز پارٹی کے فارورڈ بلاک کو وزارت اعلیٰ کا لالچ دے کر کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے لیکن قانونی طور پر یہ بھی متنازعہ معاملہ ہے ۔کسی سیاسی و پارلیمانی گروپ سے وابستہ رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی اور اپنے لیڈر کی مرضی کے خلاف فلورکراس کرنا‘ ووٹ دینا جرم ہے اور بعض قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کی اس شق کا اطلاق عدم اعتماد کی تحریک میں پارٹی قیادت کی مرضی کے خلاف ووٹ دینے والے ارکان اسمبلی پر ہو سکتا ہے۔ البتہ پارٹی کی اکثریت اگر فلور کراس کرے تو پھر وہ آزاد ہے فلور کراسنگ کی زد میں نہیں آتی۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت چند ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہے اور سندھ میں بوئی گئی فصل وفاقی حکومت کو پنجاب میں کاٹنی پڑ سکتی ہے‘ لہٰذا سندھ میں حکومت کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑرہا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد عدلیہ‘ وفاقی حکومت اور ایف آئی اے پر دبائو ڈالنے کے لئے پیپلز پارٹی کی قیادت اور زرداری خاندان کے پاس صوبائی حکومت کی صورت میں کارگر ہتھیار موجود ہے اور وہ تحقیقاتی اداروں‘ عدلیہ اور وفاقی حکومت کی کسی قانونی کارروائی کو غیر موثر کرنے کے لئے اس ہتھیار کو مناسب وقت پر استعمال کرے گی۔ بلاول بھٹو تحریک چلانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اگر اپنے بچائو کے لئے زرداری خاندان نے احتجاجی تحریک کا پتہ پھینکا تو عوام کو سڑکوں پر لانے کے لئے وہ سرکاری وسائل اور مشینری کے استعمال سے گریز نہیں کریگی۔1993ء میں میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کو کامیاب بنانے کے لئے پنجاب حکومت کے وسائل استعمال ہونے پر جنرل عبدالوحید کاکڑ نے مداخلت کی۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان جیسا صاف ستھرا سیاستدان سرکاری وسائل کے استعمال کو جائز سمجھتا رہا اور کئی دوسرے جمہوریت پسند بھی۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کا موقف درست ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں مالیاتی بدعنوانی کے سنگین الزامات سامنے آنے کے بعد مراد علی شاہ کو استعفیٰ دیدینا چاہئے لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں آج تک اپنی کرپشن سامنے آنے کے بعد استعفیٰ کا رواج ہے نہ اظہار ندامت کی کوئی روائت۔ 1996ء میں سابق صدر سردار فاروق احمد خان لغاری کا محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری سے اختلاف کرپشن کے سکینڈل سامنے آنے پر ہوا‘ سردار لغاری کا تعلق اپوزیشن سے تھا ‘نہ بھٹو یا زرداری خاندان کے کسی ازلی مخالف دھڑے سے۔ سینئر صحافی منیر احمد منیر نے 1998ء میں سردار فاروق احمد خان لغاری کا تفصیلی انٹرویو کیا تھا جو کتابی شکل میں چھپ چکا ہے۔ اس انٹرویو میں فاروق احمد لغاری نے دعویٰ کیا کہ ایک دفعہ بے نظیر بھٹو نے خواجہ طارق رحیم اور طاہر نیازی (اسلام آباد نیو سٹی پراجیکٹ فیم) کو میرے پاس بھیجا ‘یہ پوچھنے کے لئے کہ میں وزیر اعظم اور ان کے شوہر نامدار سے کیوں ناراض ہوں‘۔ میں نے کہا کہ ’’میں ان سے ہرگز ناراض نہیں۔ صرف پوچھنا چاہتا ہوں کہ ان کے حرص کا پیمانہ کتنا ہے۔ وہ کب لبریز ہو گا؟۔ میں نے طاہر نیازی سے پوچھا یہ جو تمہارا نیو سٹی پراجیکٹ ہے تم ان کے دوست ہو‘ صبح شام ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہو‘ روز شام کو آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ محفل جمتی ہے‘ تم سچ سچ بتائو کہ تم نے پراجیکٹ منظور کرانے کے لئے انہیں کیا دیا۔ اس نے کہا ’’میں نے تو کسی کو پیسہ نہیں دیا صرف نواز کھوکھر کو ماہانہ پچاس لاکھ روپے دیتا ہوں ‘‘اور بڑوں کو کیا دیتے ہو؟ میں نے پوچھا ‘وہ بولا میں آپ کے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتا۔ بڑوں کو میں نے کیش نہیں دیا لیکن دو سو پلاٹ دیئے ہیں ‘میں نے آصف علی زرداری اور بے نظیر کو صرف دو سو پلاٹ دیے ہیں ‘جن کی مالیت دو سو کروڑ روپے ہے اور یہ چار چار کنال کے پلاٹ ہیں۔ میں نے کہا ہمارے ہاں کی مثال ہے کہ ڈائن بھی چار گھر چھوڑ دیتی ہے۔ میں نے دونوں سے کہا کہ خدا کے لئے انہیں کہو کہ اپنی تباہی کریں نہ ملک کی۔ میں بے نظیر کو بھی لیکچر دیتا تھا کہ محترمہ !پیسہ دنیا میں سب کچھ نہیں۔ شاہ آف ایران‘ مارکوس آف فلپائن کو دیکھو قبر کی جگہ نہیں ملی گھر میں‘ آپ لوگ کیا لے کر آگے جائو گے۔ پیپلز پارٹی کی عوام کے لئے جدوجہد کو کیوں ضائع کر رہے ہو‘ ہم نے پیپلز پارٹی میں اس لئے شمولیت اختیار نہیں کی تھی کہ اقتدار میں آ کر لوٹ کھسوٹ میں لگ جائیں‘‘ سردار فاروق لغاری اور محترمہ بے نظیر بھٹو دونوں اپنے اللہ کے حضور پیش ہو چکے۔ ہم نے بھی ایک نہ ایک دن جوابدہی کے عمل سے گزرنا ہے۔ خدائے رحیم و کریم یہ مرحلہ آسان کرے۔ لیکن ہماری سیاسی قیادت نے شاہ ایران کے انجام سے کچھ سیکھا نہ مارکوس کے حشر کو یاد رکھا۔ ورنہ جے آئی ٹی رپورٹ کے ہوشربا حقائق سامنے نہ آتے۔الٹا نشاندہی کرنے والوں کو جمہوریت کا دشمن اور بے وفا ٹھہرایا۔ احساس زیاں کسی کو نہیں کہ چاروں صوبوں کی زنجیر پارٹی اندرون سندھ تک محدود ہو گئی۔ مسلم لیگ(ن) جی ٹی روڈ کی پارٹی بن کر رہ گئی۔ میاں نواز شریف سابقہ اتفاق فائونڈری کے بالکل عقب میں واقع کوٹ لکھپت جیل کے قیدی ہیں اور باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔ عبرت مگر کوئی حاصل نہیں کرتا اور ہل من مزید کا تقاضا ہے۔ پاکستان دنیا کا عجوبہ روزگار ملک ہے جہاں ایک گروہ کو یقین ہے کہ عدلیہ‘ فوج ‘ نیب‘ ایف آئی اے اور دیگر ریاستی ادارے غلط ہو سکتے ہیں۔ اسلم بیگ سے لے کر جنرل قمر باجوہ تک آرمی چیف اور سجاد علی شاہ سے لے کر جسٹس ثاقب نثار تک ہر چیف جسٹس پر الزام تراشی کی جا سکتی ہے مگر دو تین افراد اور خاندان ہر بشری کمزوری سے پاک اور پوتر ہیں۔ تفتیشی اداروں کے پیش کردہ شواہد‘ بنکوں کی رسیدیں‘ اندرون و بیرون ملک اگنے والی جائیدادیں اور شاہانہ طرز بودوباش کسی کی کرپشن کا ثبوت نہیں بلکہ مستند ہے ان کا فرمایا ہوا۔ فواد چودھری نے پریس کانفرنس میں درست کہا کہ اومنی گروپ اور زرداری گروپ نے کراچی سے لاڑکانہ تک جو سرمایہ لوٹا وہ سندھ کے عوام کی خون پسینے کی کمائی تھی مگرچودھری صاحب! اس کی پروا کس کو ہے۔ خود سندھ کے عوام سے پوچھیں تو شائد وہ بھی حرف شکایت زباں پر لا نہ پائیں ؎ اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے عمران خان نے فواد چودھری کو کراچی جانے سے روک کر اچھا نہیں کیا۔ یہ غیر سیاسی فیصلہ ہے۔ کراچی اور سندھ کے ان ارکان اسمبلی اور سیاستدانوں کو مایوسی ہوئی جو کرپشن اورکرپٹ مافیا کے خلاف حکومت اور ریاستی اداروں کی مہم میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کی خوشی دیدنی ہے‘ دورے کی منسوخی کا سبب عدالتی برہمی ہے یا کچھ اور ع رموز مملکتِ خویش خسرواں دانند