712ء میں سندھ میں قید ایک بیٹی کی پکار پر عرب سپہ سالار حجاج بن یوسف نے اپنے جواں سال بھتیجے محمد بن قاسم کو ایک بڑے لشکر کے ساتھ سندھ بھیجا جس نے راجہ داہر کی حکومت کونہ صرف للکارا بلکہ اسے شکست دے کر راجہ داہر کی قید سے اس بیٹی کو رہائی دلا کر تاریخ کے سینے پر اپنی دھاک رقم کردی۔ سندھ کے قوم پرست محمد بن قاسم کی سندھ آمد ، اس کے ایجنڈے اور فتوحات کے حوالے سے ہمارے نصابی بیانئے سے شدید اختلاف رکھتے ہیں لیکن یہ طے ہے کہ کچھ اور ریاستی عوامل کے علاوہ سندھ میں ابن قاسم کی آمد کا ایک سبب فریادی بیٹی کو انصاف دلانا بھی تھا۔سندھ کو اعزاز حاصل ہے کہ اس کی بیٹیوں نے تحریک آزادی ہو یا غلامی اور جبر کے خلاف جدوجہد، ہرکڑے دور میں حق پرستی کی آواز بلند کر کے مردوں کے سماج میں نام کمایااور امر ہو گئیں۔مائی بختاور ہو،تھرپارکر کی ہی مائی ماروی ہو،مائی کلاچی کے شہر کراچی کی فاطمہ جناح ہویابی بی شہید بے نظیربھٹو،سندھ کی ان بہادر بیٹیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے اپنے اپنے وقت کے یزیدوں کے خلاف بہادری کی شان دار مثالیں پیش کیں۔ اب وقت بدل گیا ہے ، سائیں کا سندھ بدل گیا ہے، سندھ کے وڈیرے اپنا اقتدار بچانے کے لئے جاگ رہے ہیں مگر سندھ سو گیا ہے۔ اب سندھ کی بیٹیاں پالکیوں کی زینت بننے کی بجائے جنازوں اور ارتھیوں کابوجھ بن رہی ہیں، شاہ سرکار کے دیس میںاب مارویوںاورموملوں کے ہاتھ پیلے کرنے کی بجائے ان کے ہاتھ خون سے رنگے جارہے ہیں ۔اب کسی کو مائی بختاور، مائی ماروی، مائی کلاچی ، فاطمہ جناح یا بے نظیربھٹو بننے سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔سندھ میں اب کوئی بھی چیخ کسی حجاج بن یوسف کی سماعت تک رسائی سے پہلے ہی دم توڑدیتی ہے،اب کوئی سترہ سالہ ابن قاسم کسی دوشیزہ کی پکار پر سمندر پار سے یہاںنہیں لپکتا۔ سندھ کی چیخیں اب خاموشی کاکفن اوڑھ کر دریائے سندھ میں پڑی ریت کے نیچے دفن ہو کررہ گئی ہیں۔ ستمبر اکثرسندھ کی بیٹیوں کے لئے ستمگر ثابت ہوا۔کبھی کاروکاری کے نام پر اور کبھی کسی حیلے بہانے غریبوں کی بیٹیوں کو زندگی کے آزار سے نجات دلادی جاتی ہے۔ عزت وغیرت کے سارے قانون خاک نشینوں کے لئے ہیں، کسی بڑے گھر کی بیٹی کبھی کاروکاری کی قاتل رسم کا نشانہ نہیں بنتی۔ستمبر 2017ء سے ستمبر 2019ء تک مختلف حیلوں بہانوں سے بے موت ماری جانے والی سندھ کی بیٹیوں کی تعداد گنوانے بیٹھوں تو کالم بھر جائے گا، الم کی داستانیں ختم نہیں ہوں گی۔ ستمبر 2017ء میں سائیں مراد علی شاہ کے حلقہ انتخاب میں ایک مٹیالے گھر کی کھلتی رنگت والی دسویںکی طالبہ تانیہ خاصخیلی نے وڈیرے کے بیٹے کو شادی سے انکار کیا تو گولیوں سے بھون دی گئی۔ تانیہ خاصخیلی قتل کیس پر سندھ میں ایک بھونچال سا آگیا، لگتا تھا کہ معصوم تانیہ کی چیخوں پر پاکستان کا نظام عدل بااثرملزم کو نشان عبرت بنا دے گا۔ دو سال بیت گئے تانیہ خاصخیلی منوں مٹی تلے دب کر آسودہ خاک ہو گئی لیکن نہ ملزم کے انجام کا پتہ چل سکا اور نہ اونگھتے ہوئے معاشرے پر نظام عدل جگانے میں کامیاب ہو سکا۔ ابھی ہم تانیہ خاصخیلی کی الم ناک موت پر دل گرفتہ تھے کہ 2018ء کے پہلے ہی مہینے میہڑ کی ام رباب کودن دہاڑے باپ کے سائے سے محروم کردیا گیا۔خون میں لت پت لاش اٹھائے سندھ کی بیٹی ام رباب اپنے باپ کے قاتلوں کی گرفتاری کے لئے دردربھٹکتی رہی لیکن سندھ اونگھتا رہا۔یہ ستمبر بھی سندھ کی ایک بیٹی کے لئے موت کا سندیسہ لے کر آیاجب میرپورماتھیلو کی نمرتاکماری( چندانی)انتہائی پراسرار ماحول میں اپنی ہی مادر علمی میں مردہ پائی گئی۔آج اٹھاون روز گزر گئے ، بی بی آصفہ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی معصوم طالبہ(ڈاکٹر) نمرتا کماری کی پراسرارموت سے پردہ نہ اٹھ سکا۔ اس نے موت جیسی کڑوی کسیلی گولی خود نگلی یا اسے انجان ہاتھوں نے موت کے گھاٹ اتارا۔ اس راز سے پردہ نہ اٹھایا جا سکا۔بس اب تک اتنا معلوم ہے کہ وہ 16ستمبرکواپنے کمرے میں مردہ پائی گئی تھی جو مبینہ طور پر اندر سے مقفل تھا۔ اس کے بعد سندھ میں کہانیاں ہی کہانیاں چل رہی ہیں، موشگافیاں ،چہ میگوئیاں۔ سندھ کی ایک بیٹی جان سے گئی اہل سندھ کو ، میڈیا کو ایک ایسی کہانی ہاتھ آگئی جس کا کوئی سرا کسی کے ہاتھ نہیں آرہا۔ آں جہانی نمرتا کی دوستوں سے ملو، ہم جماعت طلبہ طالبات سے ملو، اساتذہ سے ملو یا جامعہ کی وائس چانسلر انیلا عطاالرحمان سے ہر ایک اپنی اپنی رام کہانی سناتا ہے۔ اگر اس بار سندھ نے کروٹ نہ لی ہوتی اور اگر اس بار رائے عامہ بیدار نہ ہوئی ہوتی تو معصوم شہزادی ڈاکٹر نمرتا کماری کا یہ کیس بھی اندھے کنوئیں میں ڈال دیا جاتا ۔ مجھے اپنے کالم کے اختتامی جملوں میں ڈاکٹرنمرتا کماری کیس کی جوڈیشل انکوائری کے سربراہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اقبال حسین میتلوکو خراج تحسین پیش کرنا ہے کہ جنہوں نے پوسٹ مارٹم کی حتمی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اس کیس کا رخ موڑنے کی ایک اور کوشش ناکام بنا دی۔ میڈیکولیگل افسر ڈاکٹر امرتانے سانحہ کے 50 روز بعد حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری کی تو معاملہ پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ ہوگیا، محترم جج بھانپ گئے کہ کیس پلٹنے کی کوشش ہو رہی ہے، انہوں نے برہمی کا اظہار کیا اور میڈیکولیگل افسر ڈاکٹر امرتاکو جھاڑ پلا دی۔ کچھ قوتیں نمرتا کی موت کا معاملہ سرد خانے کی نذر کرنا چاہتی ہیں، پس پردہ کردار بے نقاب ہوں تو ساری کہانی سامنے آجائے گی۔ نمرتا کی مشکوک میڈیکل رپورٹ سامنے آنے پر سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ ’’جسٹس فار نمرتا‘‘مقبول عام ہو گیاہے، شاہ لطیف سائیں کاسندھ ایک بارپھر جاگنے لگا ہے،لوگ اب ایک اور تانیہ خاصخیلی جیساسانحہ برداشت کرنے کو تیار نہیں، اب کوئی تانیہ ، کوئی ام رباب یا امرتا کماری انصاف سے محروم نہیں رہے گی۔