سندھی میڈیا کے ایک ادارے نے سندھ کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں ایک قدم اٹھایا اور اب وہ قدم ایک روایت بن گیا ہے۔ جب بھی سندھ میں موسم سرما آتا ہے اور ایک برس خاتمے کے قریب ہوتا ہے،تب پورا سندھ اپنے تاریخی اور ثقافتی رنگوں سے کھل اٹھتا ہے۔ ٹوپی اور اجرک کو سندھ کی ثقافتی علامت بنا کر بوڑھے، بچے اور نوجوان جس طرح لوک گیت گاتے ہوئے اور لوک رقص کرتے سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں کی سڑکوں پر نکل آتے ہیں، وہ منظر بہت دلکش ہوتا ہے۔ اس بار بھی ثقافت کی بہاروں نے جس طرح اپنا رنگین آنچل لہرایا اور سب نے مل کر اپنی دھرتی سے محبت کا وعدہ دہرایا وہ بہت پرکشش اور دل کو چھونے والا تھا۔ ایک وقت ایسا تھا ،جب سندھ کی ثقافت کو سندھی قوم پرستی کا روپ سمجھا جاتا تھا۔ وہ تنگ دلی کا مظاہرہ تھا۔ کیوں کہ ثقافت کو سیاسی روپ دینا ایک ایسا عمل ہے، جو کسی طور پر مثبت نہیں کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ تاریخ کی ارتقائی سفر میں جس طرح کسی بھی قوم یا قبیلے کی ثقافت وجود میں آتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ نشوونما پاتی ہے اور نکھرتی ہے؛ اس میں کہیں بھی سیاست کا کردار نہیں ہوتا۔ سیاست میں ایک قبضہ گیر قسم کا انداز ہوتا ہے۔ سیاست ہر چیز جو استعمال کرنا چاہتی ہے۔ پھر وہ دھرتی ہو یا دھرتی پر بہتے ہوئے دریا ہو یا آسمان پر چمکتے ہوئے تارے ہوں۔ سیاست درختوں، پھلوں اور پھولوں کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس لیے ہم جب بھی سیاست کو دیکھتے ہیں تب ہمیں ایک طرح کا خوف محسوس ہوتا ہے کہ کہیں سیاست ہمارے درمیاں وہ دیواریں نہ کھڑی کردے ،جو دیواریں ہمیں ایک دوسرے سے دور کرتی ہیں۔ سیاست کا بنیادی مسئلہ سرحد کا ہوتا ہے۔ وہ سرحد اگر زمین پر نہیں بنا پاتی تو لباس اور زبان کو سرحد کا درجہ بنا دیتی ہے۔ سیاست کے جرائم بہت زیادہ ہیں۔ اقتدار کے خاطر سیاست نے قوم کو اکٹھا کرنے کے بجائے جس طرح ٹکڑوں میں بانٹا ہے وہ عمل ناقابل معافی ہے۔ کیوں کہ اس وقت بھی ہم جس عذاب سے گزر رہے ہیں، اس کا سبب سیاسی تنگ دلی اور تنگ نظری ہے۔ ثقافت تو ہم کو جوڑتی ہے۔ مگر جب ثقافت کو توڑنے کا سبب بنایا جائے، تب ہم ایسا عمل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں ،جس طرح دودھ میں زہر ملایا جائے۔ ثقافت کی امرت میں زہر ملانے کا سلسلہ کب شروع ہوا؟ ہم اس سوال پر سوچتے ہیں، تو ہم کو اب عجیب محسوس ہوتا ہے۔ کیوں کہ محبت کو نفرت کے روپ میں کس طرح پیش کیا جا سکتا ہے۔ ثقافت تو محبت ہے۔ وہ محبت جو دلوں کو قریب لاتی ہے۔ وہ محبت جو دلوں کو ایک دھن میں دھڑکاتی ہے۔ ثقافت تو ہمیشہ معصوم اور خوبصورت ہوتی ہے۔ثقافت تو معصوم بچے کی طرح ہوتی ہے۔ ہم بچوں میں بھی نفرت اور تعصب کا زہر بھرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں ، اس لیے ہم ثقافت کو انسانوں کے درمیاں نفرت اور دشمنی کی دیوار بنا کر کھڑی کرتے ہیں۔ اس لیے ہماری ثقافت محدود ہو جاتی ہے۔ اگر ہم ثقافت میں نفرت کی آمیزش نہ کریں تو ہماری ثقافت لا محدود ہوجائے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ رہا ہے کہ ہم نے ثقافتی محبت کے نام پر ثقافتی نفرت کا پرچار کیا ہے۔ اس لیے ہم جب بھی سیاست اور ثقافت کو ایک ساتھ دیکھتے ہیں، تب ہمیں یہ خوف محسوس ہونے لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی مفادپرستی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ جب کہ ہم نے اپنی قدیم روایتوں اور کہاوتوں میں کبھی بھی ایسے عمل کی ہمت افزائی نہیں کی، جس سے ہمیں نفرت کا کوئی نقشہ ملے۔ ثقافت کا جنم تو ماضی میں ہوتا ہے۔ ہماری تاریخ ثقافت کی کوکھ ہے اور ہم جب تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہیں، تو ہمیں کہیں بھی نفرت نظر نہیں آتی۔ اگر تاریخ کو مثبت نظر سے دیکھا جائے تو ہمیں تاریخ کے سفر میں ہمیشہ ایک اپنائیت محسوس ہوگی۔ سندھ کی ثقافت کوئی کٹی ہوئی چیز نہیں ہے۔ جس طرح دریائے سندھ دور پہاڑوں سے سفر کرتا ہوا، سمندر سے سنگم کرتا ہے۔ اسی طرح ثقافت کا بھی ایک سفر ہوتا ہے۔سندھ کی ثقافت کے بارے میں اس سچائی سے کون انکار کرے گا کہ یہ خوبصورت چیز دریائے سندھ کے کناروں پر پیدا ہوئی۔ جب ہم دریائے سندھ سے محبت کرتے ہیں اور اس کے کناروں پر پیدا ہونے والی ثقافت سے جذباتی تعلق رکھتے ہیں،تو ہمیں اس بارے میں یہ بھی سوچنا چاہئیے کہ وہ دریا بھی کہیں سے سفر کرکے آیا ہے۔ اگر ہم ثقافت کے سفر کا بغور مطالعہ کریں گے تو ہمیں سندھ کی ثقافت اس ملک کے دیگر علاقوں سے جڑی ہوئی نظر آئے گی۔ سندھ میں اجرک کا رنگ سرخ ہے مگر ہم سرائیکی وسیب میں اسی اجرک کو نیلے رنگ میں دیکھتے ہیں۔ یہ محبت کی وسعت ہے۔ یہ ثقافت کی مہک ہے۔ یہ عوامی تاریخ کا ایک ایسا تعلق ہے جو سیاسی نعروں سے توڑا نہیں جا سکتا۔ پورے ملک کو معلوم ہے اور ہم تو سندھ میں اس سچائی کو آنکھوں سے دیکھتے آئے ہیں کہ شروع میں سندھ کی ثقافت کو سیاست کی رنگ میں رنگنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور تنگ نظر قوم پرستی والی جماعتوں نے سندھ کے ثقافتی دن کو اپنے قبضے میں لانے کی کوشش کی مگر یہ سندھ کے عوام ہیں جنہوں نے ثقافت کو سیاسی نفرت سے بچانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ انہوں نے وادی سندھ کی ثقافت کو محبت کی علامت میں پیش کیا۔ اس لیے اس وقت نہ صرف پورا ملک بلکہ اس ملک کے ادارے بھی سندھ کے ثقافتی دن پر اپنی طرف سے خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ اب وہ بھی سمجھ گئے ہیں کہ ثقافت ہمیں توڑتی نہیں بلکہ جوڑتی ہے۔ ہم کہیں بھی جائیں ہماری ثقافت ہماری پہچان ہے۔ وہ پہچان ایسی پہچان ہے جس میں پیار ہے۔ پیار سے انکار بھلا کون کرسکتا ہے؟ ہم اپنے ماضی میں جب بھی دیکھتے ہیں تب ہمیں اپنے فقیروں اور درویشوں کی معرفت محبت کا ایک عظیم سبق ملتا ہے۔ ہمارا ماضی تو محبت کا دستور ہے۔ مگر ہمارے حال کو بے حال بنانے میں ہمارے ان سیاستدانوں کا کردار ہے جنہوں نے ہمیشہ لوگوں کو زبان اور لباس کے فرق میں بانٹا ہے ۔ انہوں نے ہمارے لوگوں میں محبت کا جذبہ بیدار کرنے کے بجائے ان میں نفرت کی آمیزش کی ہے۔ اس لیے ہماری ثقافت میں ایک قسم کی اداسی آگئی تھی۔ جب بھی ثقافت کا سفر کہیں رکتا ہے تب ثقافت اداس اور غمگین ہوجاتی ہے۔ سندھ میں ثقافت کو محدود کرنے اور اس کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی جو کوشش ہوئی، وہ کوشش سندھ کے عوام نے ناکام بنادی۔ انہوں نے ثقافت کے دن کو محبت کا دن قرار دیا۔ محبت کا وہ دن جس میں رنگ ہیں۔ جس میں محبت کے بول ہیں۔ جس میں لوک رقص ہے۔ جس میں ہم سب کا عکس ہے۔ سندھ کے ثقافتی دن کی ابتدائی پہچان تو لباس اور لوک گیتوں کی صورت میں ہوئی، مگر بہت جلد اہلیان سندھ نے اس بات کو سمجھا کہ ثقافت صرف لباس اور زبان کا نام نہیں۔ ثقافت تو ہمارا شعور ہے۔ ثقافت اس شعور پر بنیاد رکھنے والا ہمارا وہ رویہ ہے؛ جو ہماری اصل پہچان بن جاتا ہے۔ ثقافت ایک سوچ اور ایک عمل ہے۔ اس میں جتنی وسعت اور محبت ہوگی وہ اتنی ہی بھرپور اور پرکشش بنے گی۔ سندھ کی ثقافت میں جس محبت کو اب ہم سب نے پہچانا ہے وہ ثقافت اور وہ محبت کی ہماری اصل پہچان ہے۔