ان دنوں سندھ میں قافلے سرعام لوٹ لئے جاتے تھے۔ قومی شاہراہوں تک پر رات کو سفر کرنا ممکن تھا۔ جب دس بارہ گاڑیاں اکٹھی ہو جاتیں تو ان کے آگے اور پیچھے سکیورٹی کی گاڑیاں حفاظت کے لئے مقرر کی جاتیں جو انہیں اس خطرناک سرزمین سے باہر نکالیں۔ لوگ اغوا کر لئے جاتے‘پھر تاوان کے بدلے رہا ہوتے۔ تاوان کی رقم کے ساتھ ڈاکو ایک عدد راڈو گھڑی اور ایک تھان بوسکی کا مانگتے۔ یہ گویا اس زمانے کی ریت تھی۔ اغوا ہونے والوں کی اکثریت عموماً کراچی سے ہوتی۔ جب ٹرین کوٹری حیدر آباد سے چلتی تو اس میں نوجوان سوار ہو جاتے جو بغیر ٹکٹ کے سفر کرتے اور راستے بھر ہلڑ بازی کرتے رہتے۔ ان کا یہ قبضہ اس وقت تک رہتا جب تک سندھ کی سرزمین ختم نہ ہو جاتی۔عجیب طوائف الملوکی تھی ان ڈاکوئوں کی آماجگاہیں کچے کی زمینیں تھیں۔ یہ وہ زمینیں ہیں جو دریا کے اردگرد ہیں اور جو سیلاب آنے کی صورت میں غرقاب بھی ہو سکتی ہیں۔ دریائے سندھ میں ان ڈاکوئوں کی کشتیاں دندنا تی پھرتی تھیں۔ بس یوں سمجھیے یہاں ڈاکوئوں کا راج تھا۔ ان کی دعوت پر یہاں ضیافتیں بھی ہوتیں اور رقص و سرود کی محفلیں بھی۔ یہ میں صدیوں پرانی کہانی نہیں سنا رہا ،صرف تیس برس پرانی بات ہے۔ ان ڈاکوئوں کے بارے میں ہمارے خفیہ اداروں کی رائے تھی کہ انہیں سندھ کے بااثر وڈیروں کی حمایت حاصل تھی جنہیںپتھاریدار کہا جاتا تھا۔ ہمارے حساس اداروں میں اہم پتھاریداروں کی فہرستیں بھی شائع کر دی تھیں جن میں بڑے نام آتے تھے۔ لگتا تھا جسے اندرون سندھ کہتے ہیں اس پر غیروں کا قبضہ ہے اور یہ ایک آزاد علاقہ ہے۔آخر حکومت نے فیصلہ کیا کہ اندرون سندھ سے ڈاکو راج ختم کرنے کے لئے فوجی آپریشن کیا جائے گا جو سندھ میں تو جلد ختم ہو گیا مگر پھر اس نے کراچی کا رخ اختیار کر لیا۔ بھتہ لینے والے‘ پرچیاں بانٹنے والے‘بوری بند لاشوں کے تحفے دینے والے اور انسانوں کا اغوا کرنے والے عام ہو چکے تھے چنانچہ اس آپریشن نے اس شہری مافیا کے خلاف کارروائی شروع کی تو شور اٹھا۔ دیکھنا بھائیو‘یہ کیا ہو گیا یہ تو اندرون سندھ کے لئے آتے تھے یہ ایم کیو ایم کی قلم رومیں کیوں گھس آئے ہیں۔ میں نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔آپریشن کے اتار چڑھائو کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔ اچھی طرح جانتا ہوں صورت کیا تھی۔ایک ڈاکو نے اپنے سرپرست پتھاریدار کے پاس چند کروڑ روپے بطور امانت رکھوائے۔ جب ضرورت پڑنے پر رقم کا مطالبہ کیا تو اس سرپرست نے بندوق اٹھا کر اسے وہیں ڈھیر کر دیا اور پولیس کو فون کر کے بلوا لیا کہ تمہارا مجرم یہاں پڑا ہے۔ یہ ہم پر حملہ آور ہوا تھا،ہم نے اسے ختم کر دیا۔بہت ساری کہانیاں ہیں مگر لکھی کم گئی ہیں۔ کراچی کا آپریشن بڑھتا گیا۔ پھر جنرل نصیر اللہ بابر کا سویلین آپریشن جس میں جانے کتنے کن کٹے پولیس مقابلوں میں مارے گئے اور آخر صورت حال یہاں تک پہنچی کہ یہ تاثر عام ہو گیا کہ سندھ پر الطاف حسین کا راج ہے۔یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ سب میں نے بہت قریب سے دیکھا ہوا ہے۔ اس لئے حیرانی نہیں ہوئی جو کچھ اب شکار پور میںہوا ہے۔ پہلے تو اس بات کا پول کھل گیا کہ بلٹ پروف گاڑیوں کے نام پر جو خریداری کی گئی ان کی حیثیت کیا تھی۔ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ اب جا کر وفاق بھی جاگا ہے۔ یہ میں نے اوپر جن حالات کا ذکر کی ہے‘ اسی زمانے سے سندھ میں رینجرز براجمان ہیں اور انہیں تھوڑی تھوڑی مدت کے بعد اختیارات دیے جاتے ہیں۔ تاثر یہی دیا جاتا ہے کہ صوبائی حکومت پولیس کی مدد سے سب کچھ سنبھال لیتی ہے۔ بس کبھی کبھی رینجرز کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم گاہے گاہے پولیس کے با رے میں بھی متنازع خبریں سنتے رہتے ہیں۔ان کی رپورٹیں‘ ان کی خبریں‘ سندھ حکومت کے ان کے بارے میں تحفظات ۔اب بھی صوبائی حکومت نے کہا ہے کہ انہیں نہیں خبر کہ وفاقی وزیر داخلہ کا سندھ کے بارے میں کیا پروگرام ہے۔ ویسے ہم حالات پر قابو پانے کی قدرت رکھتے ہیں یہ قدرت اب بھی کھل رہی ہے اور کیماڑی آپریشن کے وقت بھی کھلی تھی۔ ہم نے سندھ پولیس کو پنجاب پولیس سے کہیں زیادہ ’’نااہل‘‘ بنا رکھا ہے۔ ایسے میں کوئی نہ کوئی ایسا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ جو غیر آئینی بھی نہ ہو اور ضرورت پڑنے پر چپکے چپکے آئین کی حدیں بھی پار کر جائے۔ ان حالات کی آڑ میں آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ماضی میں گورنر راج بھی لگا‘فوجی آپریشن بھی ہوا‘ رینجرز کو بھی طلب کیا گیا اور پولیس مقابلے بھی کرائے گئے۔ سندھ حکومت پر ایسے معاملے میں اور ایسے ہی دوسرے معاملوں کو وفاق بمقابلہ سندھ بنا لیتی ہے۔ اس وقت بھی انہیں ڈر ہے۔ وہ پہلے ہی پانی کے مسئلے پر وفاق کو لعن طعن کر رہے ہیں اور امن و امان کا مسئلہ بھی درمیان آ گیا ہے۔یہ نرا امن و امان کا مسئلہ نہیں۔ سندھ حکومت کا ڈر اپنی جگہ مگر یہ بات سوچنے کی ہے کہ ہم کب تک ملک کو یوں چلاتے رہیں گے۔ گیس کا معاملہ ہو یا پانی کا‘ گندم کا مسئلہ ہو یا امن و امان، سندھ حکومت اسے وفاق کے خلاف ایک محاذ کا رنگ دے دیتی ہے ۔زمینی حقائق مگر کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ کیا اس سے بڑی بددیانتی ہو گی کہ بلٹ پروف گاڑیوں کی جگہ عام گاڑیاں خرید کر اپنے بھائیوں کی زندگیوںکو خطرات میں ڈالا جائے۔ خدا کے لئے سنبھل جائیے۔ یہ سیاست نہیں ،ملک کا وجود دائو پر لگانے کے مترادف ہے۔