سندس نامی خاتون کی نازیبا ویڈیو بنانے کا معاملہ سامنے آیا تو اس قبیح جرم کے مرتکب عثمان مرزا کی مذمت ہر سطح پر ہوئی‘حکومت‘سول سوسائٹی اور میڈیا نے صدائے احتجاج بلند کی‘عثمان مرزا گرفتار ہوا اور عوامی دبائو پر سرعت سے کیس کی سماعت ہوئی مگر گزشتہ روز متاثرہ لڑکی نے عثمان مرزا کو پہچاننے اور اب تک کی کارروائی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا‘سوشل میڈیا پر ہاہا کار مچ گئی کہ متاثرہ خاتون اور اس کے ورثا نے بااثر ملزم سے چند ٹکوں کے عوض مُک مکا کر کے میڈیا‘سول سوسائٹی اور اپنے ہمدردوں‘حامیوں کی ناک کٹوا دی‘بات سوفیصد درست ہے مگر جس معاشرے میں کراچی کے ایک نوجوان شاہزیب کا سزا یافتہ قاتل شاہ رخ جتوئی قانون اور ‘معاشرے‘کی آنکھوں میں دھول جھونک کر فائیو سٹار ہسپتال میں موج میلہ کرے‘کوئی پوچھنے والا نہ ہو‘شرجیل میمن کے کمرے پر چیف جسٹس آف پاکستان چھاپہ مارے‘شراب کی بوتلیں برآمد کرے‘مگر بعد میں یہ شہد کی بوتلیں ثابت ہوں‘ وہاں سندس بے چاری اور اس کے کمزورلواحقین بااثر ‘طاقتور اور دولت مند مجرم عثمان مرزا کے مقابلے میں کتنی دیر ٹھہر سکتے تھے۔ اچھا ہوا عمران خان نے نوٹس لیا‘ریاست مدعی ہے اور اب شائد مقدمہ دوبارہ چلے‘عثمان مرزا سزا یاب ہو اور دوسروں کے لئے نشان عبرت بنے مگر سندس اور اس کے لواحقین پر جارحانہ تنقید سے قبل سوشل میڈیا مجاہدین معاشرے کے مجموعی پستا کردار ‘ریاست اور نظام عدل کی کمزوریوں اور مظلوم خاندان کی مجبوریوں کا بھی ادراک کریں۔2013ء میں نوجوان شاہزیب ایک دولت مند اور طاقتور ہمسائے شاہ رخ جتوئی کے ہاتھوں قتل ہوا اور بعدازاں پسماندگان نے دھونس دھاندلی کی تاب نہ لا کر صلح کر لی توخوب شور مچا‘ جس پر میں نے ’’شاہزیب کے والدین کیا کرتے؟‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا۔ ’’مقتول سے ہمدردی اور قاتلوں سے نفرت کا یہ انداز بھی خوب ہے۔ مقتول کا خاندان اس بنا پر طعن وتشنیع ، الزام و دشنام کا نشانہ بن رہا ہے کہ باپ نے اپنے نور نظر ، ماں نے لخت جگر اور بہنوں نے دل کے سرور کاخون معاف کر دیا‘ اپنے اوپر آنے والے دباؤ، مستقبل کے اندیشوں اور خوف و تنہائی کو نظر انداز کرکے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے سمجھوتہ کیوں کیا؟‘‘ ’’کیا محض اس بنا پر کسی غمزہ باپ، کوکھ جلی ماں اور دہشت زدہ بہنوں کے زخموں پر نمک پاشی روا ہے کہ انہوں نے کسی خوف یا دباؤ کے تحت، ذات برادری اور محلے داروں کے کہنے سننے پر‘ اندیشہ ہائے دور و دراز سے گھبرا کر یا فرض کیجئے لالچ کے تحت اپنے بیٹے اور بھائی کا خون بہا وصول کیا اور قاتل کو معاف کر دیا؟ کیا قرآن مجید،احادیث رسول اور ملکی قانون میں خون بہا، معافی اور دیت کے الفاظ محض خانہ پری کے لئے درج ہیں اور انہیں برتنا ناقابل معافی جرم ہے ؟ حالانکہ دیت و قصاص کا قانون نافذ ہونے سے پہلے بھی اینگلو سیکسن لاء کے تحت قاتل و مقتول خاندان کے درمیان صلح اور عدالت سے باہر سمجھوتے کا رواج تھا۔گواہوں پولیس اور عدالتوں سے لین دین کے واقعات ہوتے تھے۔جھوٹے گواہ پیش کرنے اور اصل گواہ منحرف کرانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور چھوٹی بڑی عدالتوں میں روزانہ یہ کاروبار ہوتا ہے۔‘‘ ’’پاکستان میں کئی قسم کے قوانین نافذ ہیں۔ شرعی، اینگلو سیکسن اور پاٹا میں ایف سی آر، مگر سب سے موثر غیر تحریری قانون یہ ہے کہ قاتل، ڈکیت، ٹارگٹ کلر، بھتہ خور اور قبضہ گیر اگر طاقتور، بارسوخ، دولت مند اور اقتدار کے کھیل میں شریک ہو تو اس کے سات نہیں سات سو خون معاف ،قومی دولت لوٹنا تو ویسے ہی کوئی جرم نہیں بلکہ اعلیٰ مناصب کے لئے کوالیفکیشن ،البتہ اس الزام میں کوئی غریب قانون کے ہتھے چڑھ گیا تو اکیلا ملزم نہیں پورا خاندان گردن زدنی، دھان بچہ کو لہو پلوا دیا جائے۔‘‘ ’’کراچی میں اکیلا شاہ زیب قتل نہیں ہوا‘ روزانہ درجنوں قتل ہوتے ہیں‘ اندھی گولیوں کا نشانہ بننے والوں کی بات اور ہے مگر جن قاتلوں کا سب کو علم ہے‘ ان کے خلاف قانون کب حرکت میں آیا ہے اور قاتلوں کو عدالتوں کی طرف سے سزا ملنے کے بعد کس نے پھانسی پر لٹکایا ہے ؟ بے نظیر بھٹو کے قاتل زندہ ہیں اور پانچ سال تک حکمرانی کے مزے لوٹنے والے وارثوں میں سے کوئی شرمندہ تک نہیں۔ جی ایچ کیو حملہ کیس کے قاتل تختہ دار پر لٹکائے نہیں جا سکے اور ولی خان بابر صحافی کے دس گواہ موت کے گھاٹ اتر چکے۔ کسی کو پرواہ نہیں ۔اس کے باوجود میڈیا، سول سوسائٹی اور وکلاء برادری کا اصرار ہے کہ شاہ زیب کے وارث ڈٹے رہتے اور اس بات پر مطمئن کہ شاہ زیب پھانسی چڑھے نہ چڑھے جیل میں تو بیٹھا رہے۔یہ اور بات ہے کہ بااثر مجرموں کے لئے جیل بھی ماسی کا وہڑہ ہوتی ہے ۔مرغن کھانے، پرتعیش کمرہ اور شراب وشباب ، باہر رابطوں کی ہر سہولت میسر۔‘‘ ’’بجا کہ میڈیا، سول سوسائٹی ، اعلیٰ عدلیہ اور شاہ زیب کے جی دار پڑھے لکھے دوستوں کی وجہ سے یہ ٹیسٹ کیس بنا اور ہر طرح کے دباؤ کے باوجود قاتلوں کو سزا ہوئی مگر یہ سب اس تلخ و سنگین حقیقت کو فراموش کر گئے کہ پاکستان میں ایسا کوئی جزیرہ نہیں جس میں طاقت، دولت اور اثرو رسوخ کا سکہ نہ چلتا ہو اور جہاں یہ دھمکی کارگر ثابت نہ ہوتی ہو کہ ایک بیٹا چلا گیا ‘اب دوسری اولاد کی خیر مناؤ ‘جو اتفاق سے صنف نازک ہے اور مجرموں کا آسان نشانہ ۔کون جانتا ہے کہ دو بیٹیوں کے ماں باپ ‘اورنگزیب اور اس کی اہلیہ کو کون سی دھمکی نے ڈھیر کر دیا۔‘‘ ’’جب سزائے موت کے حوالے سے یورپی یونین، سول سوسائٹی اور مخصوصی ابلاغی مہم کا دباؤ ریاست برداشت نہیں کر سکتی ، گواہوں کو تحفظ دینے سے یہ قاصر ہے اور عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کو یہ اپنی اولین ذمہ داری نہیں سمجھتی۔ روزانہ لوگ قتل ہوتے، صرف گواہ ہی نہیں تفتیشی افسر اور جج مارے جاتے اور ان کے لواحقین کا کوئی پرسان حال نہیں تو شاہ زیب کے والدین سے یہ توقع کرنا کونسی عقلمندی ہے کہ وہ ڈٹے رہیں، ساری زندگی خوف اور تنہائی میں اندرون و بیرون گزار دیں اور یقین پھر بھی نہ ہو کہ وہ بااثر جاگیر داروں، وڈیروں کے انتقام سے بچے رہیں۔اس سے بہتر نہ تھا کہ وہ معافی اور خون بہا قبول کرکے باقی زندگی بے خوف پرسکون گزارنے کی آپشن پر غور کرتے کیونکہ ریاست تو انہیں مکمل تحفظ فراہم کرنے اور قاتلوں کو نشان عبرت بنانے سے رہی۔‘‘ ’’سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں جینے کے طریقے دو ہیں۔طاقت، دولت اور اختیار کے زور پر اندھیر مچائے رکھو‘ قتل، ڈکیتی اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں کو شعار کرو یا پھر ان قاتلوں، اغواء برائے تاوان کے مجرموں، وحشی درندوں اور عزتوں عصمتوں کے لٹیروں سے تصفیہ کرلو، باقی سب کہنے کی باتیں ہیں۔کیا حکومت میں ہمت ہے کہ جتوئی خاندان سے خون بہاکے لئے ادا کی گئی پچاس کروڑ روپے کی رقم کا حساب طلب کرے کہ کیسے کمائی اور کتنا ٹیکس دیا ؟ اور قوم کو بتائے کہ یہ معاہدہ کن لوگوں نے کرایا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے کون کون سے سیاست دان شریک ہیں۔ شرم شاہ زیب اور اس کے خاندان کو نہیں اس ریاست، معاشرے اور حکومت کو آنی چاہئے جو آج تک عوام کو تحفظ فراہم کر سکی نہ مجرموں کو نشان عبرت بنانے کی اہل ہے ۔ جہاں قاتل سزا پانے پر وکٹری کا نشان بناتے جبکہ مقتول کے لواحقین صفائیاں پیش کرتے ہیں۔ کمزور مدعی کے پاس صلح صفائی، معافی تلافی اور خون بہا وصول کرنے کے سوا چارہ ہی کیا ہے؟۔ ریاست خود تو ریمنڈڈیوس کی رہائی کے لئے دباؤ بھی ڈالتی ہے اور خون بہا بھی دیتی ہے عام آدمی بے چارہ کیا کرے۔؟‘‘ کیا عثمان مرزا کا معاملہ شاہ رخ جتوئی سے مختلف ہے؟سول سوسائٹی اور میڈیا کے احتجاج کے بعد شاہ رخ جتوئی پر دوبارہ مقدمہ چلا‘عمر قید سزا ہوئی مگر اب پتہ چلا کہ صاحبزادے ایک پرتعیش ہسپتال میں موجیں کر رہے ہیں؟ ع بنا ہے عیش تجمل حسین خان کے لئے ریاست زور لگا کر عثمان مرزا کو سزا تو شائد دلوا دے مگر سندس اور اس کے لواحقین کو تحفظ کون فراہم کرے گا؟جذبات سے ہٹ کر ہمیں سوچنا چاہیے۔