سندھ اور وفاق کی سیاسی چپقلش‘ عوام کا کیا قصور؟ کراچی سے روزنامہ 92نیوز کی رپورٹ کے مطابق وفاقی و صوبائی حکومت کے درمیان چپقلش کی وجہ سے سندھ کے ترقیاتی منصوبے ٹھپ ہو گئے ہیں اور سندھ حکومت کا مالیاتی نظم و نسق بند ہونے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ وفاق نے سندھ کے 90ارب روپے سے زائد کے فنڈ روک لیے ہیں اور سندھ حکومت کا کہنا یہ ہے کہ اگر فنڈ کی منتقلی میں کمی کا سلسلہ جاری رہا تو سندھ کا مالیاتی نظم و نسق بری طرح متاثر ہو گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں حکومتوں کی لڑائی میں عوام کیا کریں ان کے مسائل کون حل کرے گا۔ سندھ کے لوگوں کا کیا قصور ہے۔ حکومتوں کا کام عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ترقیاتی منصوبے بنانا اور انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوتا ہے۔ عوام ووٹ دے کر اپنے نمائندوں کو اس لئے منتخب کرتے ہیں کہ وہ ان کو سہولتیں بہم پہنچائیں گے۔ ہونا تو یہی چاہیے کہ وفاق کے ذمے صوبوں کے جو ترقیاتی فنڈ واجب الادا ہیں انہیں دے تاکہ متعلقہ صوبے میں ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری رہ سکے‘ سیاسی لڑائیوں کو عوام کی مشکلات کا باعث نہیں بننا چاہیے‘ لہٰذا بہتر یہ ہو گا کہ وفاق سندھ حکومت کی شکایات دور کرے اور مطلوبہ فنڈ بلا امتیاز جاری کرے تاکہ صوبائی حکومت کا مالیاتی نظم و نسق متاثر نہ ہو اور صوبائی حکومتوں کا بھی فرض ہے کہ وفاق کی طرف سے دیے جانے والے فنڈ کو خالصتاً عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے منصوبوں پر خرچ کرے تاکہ اسے بار بار وفاق کی طرف نہ دیکھنا پڑے۔ پنجاب بھر میں شلٹر ہوم بنانے کا لائق تحسین منصوبہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے سڑکوں، فٹ پاتھوں پرسونے والے افراد کے لئے مرحلہ وار صوبے کے تمام اضلاع میں پناہ گاہیں بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ملک بھر بڑے شہروں میں لاکھوں مفلس اور نادار مختلف وجوہ پر کھلے آسمان تلے سوئے ملتے ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق 5ہزار بچے تو صرف پشاور کی سڑکوں پر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جولاوارث اورنشہ کے عادی افراد کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اس لت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ایسے لوگوں کی اکثریت درگاہوںکے باہر پڑے ملتی ہے اور اکثر سردی یا نشے کے باعث ان کے جاں بحق ہونے کی اطلاع ملتی ہے۔ ان مسترد شدہ اور نظر انداز کئے گئے بے کسوں کی نگہداشت بھی ریاست کی ذمہ داری ہے اور ماضی میں ہماری حکومتیں اس حوالے سے مجرمانہ غفلت کی مرتکب بھی ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ 1956ء کے بعد اس وقت کے صدر سکندر مرزا کی بیگم کے بعدفقراء اور لاوارث افراد کا خیال صرف وزیر اعظم عمران خان کوسوجھا ہے ۔جو لائق تحسین ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بیگم سکندر مرزا کی خصوصی توجہ کے باعث جو شلٹر ہوم بنایا گیا تھا وہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور اس کی جگہ آج پاکستان کا واحد جنرل نیورو سائنسز ہسپتال موجود ہے۔ بہتر ہو گا وزیر اعظم کی ہدایت پر حکومت جو شلٹر ہومز بنا رہی ہے ان کا دائرہ ملک بھر میں پھیلایا جائے اور ان میں قیام و طعام کے علاوہ بحالی سنٹر بھی بنائے جائیں تاکہ ان شیلٹر ہومز کے مکینوں کو معاشرے کا فعال شہری بننے میں بھی مدد فراہم کی جا سکے۔