محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ کا پورا نام’’ عماد الدین محمد بن قاسم‘‘ تھا ،آپ طائف کے ثقفی قبیلے میں 72ہجری(یا 75ہجری ) کوپیدا ہوئے ۔عبد الملک بن مروان کے زمانہ حکومت میں حجاج بن یوسف کو مشرقی ریاستوں (عراق) کا حاکم اعلیٰ(گورنر) مقرر کیا گیا ۔ حجاج بن یوسف نے اپنے چچا قاسم کو بصرہ شہر کا گورنر متعین کیاتومحمدبن قاسم رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے والد کے ہمراہ طائف سے بصرہ منتقل ہوگئے ، بچپن کے عالم میں ہی تھے کہ والد ِگرامی کی وفات ہوگئی ،یتیمی کی حالت میں پروان چڑھے مگر صغر سنی سے ہی اُن کی ذہانت وفطانت دیکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیتی تھی۔آپ نے بصرہ میں ہی تعلیم و تربیت پائی ۔اُس زمانے میں حجاج بن یوسف نے اپنے خاص فوجیوں کی تربیت اورجنگی مہارت کے لئے ’’واسط ‘‘شہر بسایا، اسی شہرمیں محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فوجی تربیت پائی ،جنگی حکمت عملی میں کمال کی مہارت حاصل کی۔ محمد بن قاسم ایک خوبصورت نوجوان تھے ۔آنکھیں بڑی بڑی،پیشانی کشادہ ،باز و گول ،چوڑی کلائیاں ،بھرا ہوابدن ،گلابی رنگ اور آواز بھاری اور رعب دار تھی ۔قدرت نے اُنہیں فولادی دل و جگر ، بلند خیا لی ،مستحکم ارادے اور شجاعت و جوانمردی کے جوہر عطا کیے تھے ،وہ نہایت ہی خلیق ،حلیم الطبع، شیریں زبان اور ہنس مکھ چہرہ رکھتے تھے ،ہر چھوٹے بڑے سے نہایت شیریں اور میٹھے لہجے میں بات کرتے تھے ۔فوج میں ان سے بڑی عمر کے لوگ جو ان کے ماتحت تھے ان سے بے حد عزت و احترام کے ساتھ پیش آتے تھے ۔(تاریخ سندھ) پندرہ برس کی عمر میں کردوں کے مقابلے میں ان کے کندھوں پر سپہ سالاری کی ذمہ داری ڈالی گئی جسے انہوں نے ایران میں کردوں کی بغاوت کو کچل کر’’ اصطخر‘‘ کا علاقہ فتح کر کے بخوبی نبھایا اوردیگر کئی علاقوں کو فتح کرتے ہوئے ’’جرجان ‘‘کی طرف پیش قدمی کی اور ایک خاص نقشے کے مطابق شیراز شہر کی بنیاد ڈالی ورنہ اس سے پہلے شیراز ایک معمولی چھائونی تھااور بعد میں فارس(ایران)کا دارالسلطنت بنا ۔ سترہ برس کی عمرمیں تو وہ ایک جلیل القدر اور منجھے ہوئے فوجی کمانڈر کی حیثیت سے شہرت پا چکے تھے ۔شاید اسی لیے سترہ برس کی عمر میں ہی آپ فارس کے دارالسلطنت شیراز کے گورنر مقرر ہوئے ۔ محمد بن قاسم نے نہایت عمدگی اور عدل و انصاف سے گورنری کی ،تنخواہ سے جو کچھ بچا پاتے اسے تبلیغ اسلام میں صرف کرتے ۔ اپنی فرصت کے اوقات میں لوگوں کے سامنے تقریر کرتے جسے بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ،ان کے اخلاص اور قوت ایمانی کی تعریف اس دور کے جلیل القدر اکابر علما نے فرمائی ہے ۔(جُنۃ السندھ ) 88ہجری میں جزیرہ یاقوت (سیلان) کے بادشاہ نے عربوں سے اچھے تعلقات قائم کرنے کے لئے ایک جہاز عراق کے لئے روانہ کیا جس میں یتیم اور بیوہ مسلم عورتیں سوار تھیں۔ جب یہ جہاز سندھ کی بندرگاہ (دیبل) سے گزراتو سندھ کے کچھ لوگوں نے اس جہاز کو لوٹ لیا۔حجاج نے فوراً اپنا خاص ایلچی راجہ داہر کی طرف روانہ کیا اور خط کے ذریعے نہایت معقول انداز میں اس سے مطالبہ کیا کہ وہ قیدیوں کو آزاد کردے اور بحری قزاقوں سے جہازوں کا تمام سامان و اگزار کرا کے عراق روانہ کرے اور قزاقوں کو ان کے کئے کی سزا دے جس کے جواب میں راجہ داہر نے نہایت غیر معقول اور غیر ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کیا اور کہلا بھیجا کہ وہ بحری قزاق نہایت طاقت ور اور مضبوط ہیں میرا ان پر کوئی زور نہیں چلتا، جب کہ تاریخ فرشتہ کے مطابق ان قزاقوں نے یہ کام راجہ داہر کی پشت پناہی سے کیا تھا ۔ حجاج بن یوسف نے دو مرتبہ لشکر کشائی کی مگر اسے کامیابی نہ ہوئی۔ جب حجاج بن یوسف کو یقین ہوگیا کہ دیبل کی جیلوں میں قیدمسلم عورتوں اور فوج کے جوانوں کو سندھ کا بادشاہ عربوں سے دشمنی کی وجہ سے چھوڑنا نہیں چاہتا تو حجاج بن یوسف نے سندھ کے تمام علاقوں کو فتح کرنے کے لئے 90 ہجری میں ایک بڑے لشکر کو محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں سندھ روانہ کیا۔ محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے انتخاب کو صرف دو سال کی کم مدّت میں اللہ کے فضل وکرم سے 92 ہجری تک سندھ کے بے شمار علاقے فتح کرکے درست ثابت کیا۔92 ہجری میں محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں مسلمان لشکر کی سندھی فوج سے سندھ کے راجہ داہر کی قیادت میں ایک فیصلہ کن جنگ ہوئی جس میں راجہ داہرمارا گیا، مسلمانوں کو تاریخ کی شاندار فتح ہوئی اورمحمدبن قاسم رحمۃ اللہ علیہ صرف بیس برس کی عمر میں فاتحِ سندھ بن گئے ۔ 95ہجری تک تو پنجاب کے بعض علاقے بھی محمدبن قاسم رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں مسلمانوں نے فتح کر لئے ۔ جب محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ نے سندھ فتح کر لیا اور ہندوستان کی حدود میں داخل ہونے کا ارادہ کیا توخلیفہ سلیمان بن عبدالملک جو کہ ولید بن عبدالملک کے بعد حکمران بن گیاتھا،اس نے خاندانِ قاسم سے ذاتی بغض و عناد کی بنا پر محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ کو حکم بھیجاکہ فوراً عراق واپس آجائو۔سندھ کے لوگوں اور فوج کے اعلیٰ عہدے داروں نے محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ کو واپس جانے سے منع کیا لیکن محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ نے خلیفہ کے حکم کی نا فرمانی کرنے سے انکار کردیا او ر عراق واپس چلے گئے ، خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ کو قید کر لیا اور طرح طرح کی تکلیفیں دیں، انہیں تکالیف میں 95ھ میں سندھ فتح کرنے والا مرد مجاہد صرف 23سال کی عمر میں خالق ِحقیقی سے جا ملا مگر تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا ۔ مآخذ: تاریخ سندھ ،محمد بن قاسم، جُنّۃ السندھ ،آزاددائرۂ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی لاہور