وہ دھان پان سی ہندو لڑکی اب تو اپنی چتا پر جل کر راکھ ہوگئی ہے مگر اس کے ناگہانی موت کا دکھ اب تک سندھ کے سوشل میڈیا میں موجود ہے۔ اس ہندو لڑکی کا نام نمرتا تھا۔ وہ لاڑکانہ کے ’’آصفہ ڈینٹل کالج‘‘ کے آخری سال کی طالبہ تھی۔ گذشتہ ماہ اس کی لاش ہاسٹل کے کمرے سے ملی۔ اس کے پراسرار موت کو خودکشی قرار دیا گیا مگر سندھ کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اس بات سے انکار کرتے رہے کہ ڈاکٹر نمرتا نے خودکشی کی ہے۔ وہ سب یہ تلخ حقیقت قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے کہ نمرتا جیسی ہنستی گاتی لڑکی زندگی سے ہار مان سکتی ہے۔ اس کی جو تصاویر اور وڈیو کلپس سوشل میڈیا پر اپلوڈ ہوئیں ان میں وہ رنگین تتلی کی طرح نظر آتی تھی۔ لوگ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ معصوم بچے خودکشی نہیں کرتے؟سندھ کے مڈل کلاس کو یہ شک کیوں ہوا کہ ڈاکٹر نمرتا کا قتل کیا گیا ہے؟ حالانکہ نمرتا کیس میں ایک بھی ایسا ثبوت منظرعام پر نہیں آیا کہ اس کا قتل ہوا ہے۔مگر سندھ کے لوگ سمجھتے ہیں اس نے خود کو نہیں مارا بلکہ کسی اور نے اس کی جان لی ہے۔ سندھ کے لوگوں کا یہ شک خواہ مخوا ہ نہیں۔ کیوں کہ اعلی تعلیمی ادارے کی ہاسٹل سے برآمد ہونے والی یہ پہلی لاش نہیں تھی۔ اس سے قبل سندھ یونیورسٹی کی ماروی ہاسٹل سے نائلہ رند نامی لڑکی کی چھت میں لٹکتی ہوئی لاش ملی تھی۔ جب اس کے موت پر تحقیق ہوئی تو معلوم ہوا اس لڑکی کو کوئی شخص بلیک میل کر رہا تھا۔ اس دوران سندھ کے اعلی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے حوالے سے ہراسمینٹ کی شکایات موصول ہونے لگیں۔ سندھ کی طالبات نے اپنے بند ہونٹ کھول دیے اور وہ سرعام کہنے لگیں کہ اساتذہ انہیں زیادہ نمبر دینے کے لیے غیر اخلاقی آفرز کرتے ہیں اور بیہودہ مطالبات تسلیم نہ کرنے کی صورت میں انہیں فیل کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔سندھ میں مخلوط تعلیم کا نظام نیا نہیں ہے۔گذشتہ نصف صدی سے سندھی لڑکے اور سندھی لڑکیاں اعلی تعلیمی اداروں میں ایک ساتھ پڑھتے رہے ہیںمگر اس قسم کی صورتحال پہلے نہیں تھی۔اب ایسا کیا ہوا ہے کہ ہماری بچیاں اپنے تعلیمی اداروں میں محفوظ تصور نہیں کی جاتیں۔ حالانکہ وقت گذرنے کے ساتھ عورت کو زیادہ سماجی تحفظ حاصل ہوا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب سندھی اخبارات میں کارو کاری کے باعث عورتوں کے قتل ہونے کی خبریں عام تھیں۔ وہ وقت کب کا گذر گیا جب جرگوں میں لڑکیوں کے بارے میں وڈیرے فیصلے کرتے تھے۔ اس صورتحال کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ سندھ کے تعلیمی ادارے نہ صرف اپنا اپنا تعلیمی معیار کھو چکے ہیں بلکہ ان تعلیمی اداروں میں اخلاق کا معیار بھی بتدریج نیچے آ رہا ہے۔اس کا واحد سبب یہ ہے کہ ماضی میں سندھ کے اعلی تعلیمی اداروں کے سربراہ ہمیشہ ایسے افراد رہے جن کا نام آج بھی انتہائی عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔کس کو معلوم نہیں کہ سندھ میں علم اور ادب کی سب سے بڑی علامت علامہ آئی آئی قاضی ہے۔ علامہ آئی آئی قاضی نہ صرف سندھ یونیورسٹی کا بنیاد رکھا بلکہ انہوں نے بیرون ملک سے آنے کے بعد شاہ عبد الطیف بھٹائی کے کلام پر نئے سرے سے تحقیق کی اور انہوں نے انگریز ادیب اور عالم جارج برنارڈ شا کی شہرہ آفاق کتاب The Adventures of the Black Girl in Her Search for God کے جواب میں The Adventures of the White Girl in her Search for Knowledge نامی کتاب تحریر کی۔ مغرب کو مشرق کی عظیم ادبی کاوشوں سے متعارف کروانے کے سلسلے میں علامہ آئی آئی قاضی تنہا نہیں تھے۔ ان کے ساتھ ان کی جرمن جیون ساتھی ایلسا قاضی بھی ان کے شانہ بشانہ علمی؛ ادبی اور تحقیقی کام کرتی رہی۔ ایلسا قاضی نے نہ صرف اپنے مزاجی خدا کے ساتھ ایک دوست اور ساتھی بن کر کام کیا بلکہ انہوں نے شاہ عبد الطیف بھٹائی کے کلام کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔ وہ عالم اور مترجم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شاعرہ بھی تھیں ۔ انہوں نے سندھ کے پس منظر میں اعلی اشعار بھی لکھے۔ علامہ آئی آئی قاضی کے بعد سندھ کے بہت بڑے اسکالر نبی بخش بلوچ سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے ۔ انہوں نے لوک ادب کے سلسلے میں وہ تحقیق کی جس پر آج بھی سندھ کو ناز ہے ۔ علامہ آئی آئی قاضی کے بعد سندھ یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس کے وائس چانسلر سندھی زبان کے بہت بڑے شاعر شیخ ایاز مقرر ہوئے۔ یہ بہت بڑا زوال ہے کہ جس منصب پر کبھی علامہ آئی قاضی؛ ڈاکٹر نبی بخش اور شیخ ایاز تھے آج کل ان کی جگہ پر ایسے افراد کو اعلی تعلیمی داروں کا سربراہ بنا دیا گیا ہے جن کا نام میڈیا میں علم ، ادب اور تحقیق کے سلسلے میں نہیں بلکہ کرپشن کے حوالے سے لیا جاتا ہے۔سندھ یونیورسٹی سے لیکر شاہ لطیف یونیورسٹی تک جو افراد اس وقت اعلی تعلیمی اداروں کے سربراہ بنے ہوئے ہیں وہ سب نیب اور اینٹی کرپشن کے ملزمان ہیں۔ یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ سندھ کے تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت کے باعث ایسا ماحول ہوگیا ہے کہ ہر تعلیمی ادارے کے طلباء اور ملازمین احتجاج کرنے میں مصروف ہیں۔جب تعلیمی اداروں کے سربراہان کرپشن کے مقدمات میں میڈیا کی زینت بنے تو پھر تعلیمی اداروں میں علم اور اخلاق کا زوال فطری بن جاتا ہے۔یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ سندھ کے تعلیمی ادارے اس وقت کرپشن کا شکار ہیں۔ جب کرپشن اداروں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے تب اخلاقی پستی لازم بن جاتی ہے۔ اخلاقی زوال کے باعث پہلے علم تباہ ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ پورا ماحول ہمہ جہتی زوال کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس ماحول میں اساتذہ تعلیم کا فرض ادا کرنے سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے ماحول میں جب نائلہ رند نامی لڑکی اپنے ہاسٹل کے کمرے میں خودکشی کرتی ہے یا ڈاکٹر نمرتا کی لاش بازیاب ہوتی ہے تب سندھ کے لوگ اپنی بیٹیوں کے بارے میں فکرمند کیوں نہ ہوں؟سندھ کرپشن کے جال میں قیدی پرندے کی طرح ہے۔ اس جال میں سب قیدی ہیں۔ سارے ادارے اور ان اداروں کے سربراہان زوال کی علامت بن کر پوچھ رہے ہیں کہ علم اور ادب کی اس سرزمین کا یہ حال کیوں ہوا؟ اس وقت انگلی حکمرانوں کی طرف اٹھتی ہے۔