آج اگر میں بجٹ پر لکھوں تو یہ میرا پچاسواں بجٹ ہو گا۔ پہلی بار میں نے بھٹو صاحب کے نئے پاکستان کے پہلے بجٹ پر تفصیلی گفتگو کی تھی جو مری کی خنک فضائوں سے ڈاکٹر مبشر حسن نے پیش کیا تھا۔ آدھے پاکستان کا بجٹ اتنا ہی تھا جتنا ایک سال پہلے پورے پاکستان کا بجٹ ہوا کرتا تھا بھٹو صاحب نے آتے ہی ڈالر کی قیمت کو اس طرح بڑھایا جس طرح ان دنوں ہمارے اب والے نئے پاکستان کے کرتا دھرتائوں نے بڑھایا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے آج ہم جتنے ہزار کا بجٹ پیش کر رہے ہیں یہ بجٹ صرف اتنے کا تھا یعنی صرف سات آٹھ ارب روپے کا۔ آج مجھے بجٹ پر بات کرنا ہے نہ اس اکنامک سروے پر جو کل جاری کیا گیا ۔یہ نہیں کہ میں نے اس کا بائیکاٹ کر رکھا ہے بلکہ اس لئے کہ میں یہ کام بجٹ کو اچھی طرح سن کر اور پرکھ کر کرنا چاہتا ہوں۔ بہت سی باتیں تو بجٹ آنے سے پہلے ہی گفتگو کا موضوع بن چکی ہیں۔ کوئی نئی بات نہیں آرام سے کر لیں گے۔ کچھ ملنے والا نہیں پھر جلدی کیا ہے تاہم آج میں جو بات کرنا چاہتا ہوں وہ بھی اقتصادی حوالوں سے ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے شکوہ کیا کہ سندھ پاکستان کی آمدنی کا 70فیصد فراہم کرتا ہے مگر اسے اس کا حصہ نہیں دیا جاتا۔ یہ بات اکثر کہی جاتی ہے یہی دلیل کراچی والے یوں پیش کرتے ہیں کہ پاکستان کا 70فیصد کراچی پیدا کرتا ہے مگر اس سے سوتیلی ماں کا سا رویہ اختیار کیا جاتا ہے ان کو یہ شکایت صرف وفاق سے نہیں صوبے سے بھی ہے۔ ظاہر ہے جس آمدنی کا ذکر کیا جاتا ہے اس کا زیادہ تر حصہ کراچی ہی سے حاصل ہوتا ہے جبکہ باقی سندھ تو اس میں دس فیصد بھی اضافہ نہیں کرتا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے یا افسانہ اور اگر افسانہ ہے تو اس کی حقیقت کیا ہے۔ پہلے میں ایک اور بات کروں گا جو اس طرح کے سوالوں سے پیدا ہوتی ہے کراچی کیا دیتا ہے اور کیسے دیتا ہے اس کا مفہوم کیا ہے‘ پہلے ایک سوال اور بھی ہے کہ کراچی کیسا بنا ہے۔ جب پاکستان بنا تھا تو کراچی 3لاکھ افراد کی ایک بستی تھی جبکہ لاہور کی آبادی غالباً 5لاکھ تھی۔ یہ ایک بندرگاہ ضرور تھی مگر اتنی اہم نہ تھی کہ ممبئی اور کولکتہ کے مقابلے میں اس کا ذکر بھی آتا ہو۔ جنہوں نے کراچی دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ مزار قائد اعظم اب شہر کا مرکز ہے، بلکہ مرکزسے بھی پہلے ہے‘ یوں کہہ لیجیے شہر کا آغاز ہے۔ ان دنوں جب ہمارے قائد کی وفات ہوئی اور ان کی یہاں تدفین ہوئی تو کسی نے اس بات کو یوں لکھا کہ ایک بیورو کریٹ نے بابائے قوم کو شہر سے باہر ایک ویران ٹیلے پر دفن کردیا۔ یہ شہر جو تین لاکھ پر مشتمل تھا اب اس میں رہنے والے اس کی آبادی 3کروڑ بتاتے ہیں ،دور دور ویرانے آباد ہوتے گئے ۔ گلشن حدید سٹیل ملز کی بستی تھی وہاں کیا ہوا کرتا تھا۔ بہرحال کسی نے سوچا یہ شہر کیسے اتنی دور دور تک بنا۔ اربوں روپے لگے ہوں گے۔ وہ کہاں سے آئے پھر یہاں صنعتیں لگنے لگیں۔ سائٹ اور کورنگی کے علاقے تو خیر بڑی صنعتی آبادیاں ہیں اور بھی بہت سے علاقے ہیں۔ یہ کارخانے لگانے کے لئے پیسہ کہاں سے آیا۔ سارے بنکوں کے ہیڈ آفس یہیں بنے اور بنتے چلے گئے۔ پہلے تو یہ وفاقی دارالحکومت تھا۔ اب بھی پاکستان کا صنعتی اور تجارتی دارالحکومت ہے۔ مگر کسی نے غور نہیں کیا تین کروڑ کا یہ شہر یہ تجارتی مراکز‘ یہ کارخانے لگانے کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا۔ جب کراچی میں علاقائیت اپنے عروج پر تھی تو ایک ممتاز ریسرچ سکالر میرے پاس آئے جو بیرون ملک سے فارغ التحصیل تھے اور کراچی کے ایک ادارے میں پروفیسر کے عہدے پر فائز تھے۔انہوں نے مجھے ایک مضمون تھمایا۔ اس مضمون میں تو خیر بہت کچھ تھا مگر ایک بات بڑی بنیادی تھی۔ وہ یہ کہ پاکستان کے کمرشل کریڈٹ کا 62فیصد کراچی میں لگا ہے۔ ذرا غور کیجیے کراچی میں جو بستیاں بنتی گئیں‘ کارخانے لگتے گئے۔ اس کے پیسے کہاں سے آئے۔ یوں سمجھیے پورے پاکستان کے وسائل کا 62فیصد یہاں لگا ہے۔ ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا قرضہ غالباً اس میں شامل نہ ہوگا سرمایہ پورے ملک کا لگا، اور اب اس کی ملکیت پر کوئی اور بیٹھ جائے۔ اس بات سے ہٹ کر ایک بات سمجھ لینے کی ہے کہ پورے ملک میں جو تجارتی اور صنعتی سرگرمیاں ہوتی ہیں اس کا ٹیکس کراچی میں جمع کیا جاتا ہے ایک تو بندرگاہ ہونے کی وجہ سے۔ آپ آج اعلان کر دیں کہ باقی ملک کا مال اپنے اپنے علاقے کی ڈرائی پورٹ پر ٹیکس ادا کرے گا تو سارا پول کھل جائے۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت آپ افغانستان کو بھی ٹرانزٹ دینے پر مجبور ہیں یاد ہے چند سال پہلے ایک تحریک چلی تھی کہ چند بنکوں کے ہیڈ آفس شمال میں منتقل کر دیے جائیں۔ اس سے بہت سے اداروں کے ہیڈ آفس بھی منتقل ہو جاتے ۔کراچی والے اس معاملے میں بڑے حساس ہیں۔ انہوں تو پی آئی اے کا ہیڈ آفس اسلام آباد منتقل کرنے کی بات ہوئی تھی تو شور مچا دیا تھا ۔چنانچہ 70فیصد وہ نہیں جو کراچی کما کر دیتا ہے بلکہ وہ ہے جو کراچی میں اکٹھا کیا جاتا ہے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ یہ گوادر کا منصوبہ اور سی پیک اس اجارہ داری کو ختم کرنے کا ایک طریقہ ہے اور بہت سی باتیں ہیں جو میں یہاں عرض نہیں کرنا چاہتا مگر یہ کہ اس قسم کے دعوے ہمارے سارے ڈھانچے کو تلپٹ کر سکتے ہیں۔ کراچی ایک بندرگاہ ہے۔ ایک زمانے میں واحد بین الاقوامی ہوائی اڈہ تھا‘ بنکوں کے ہیڈ آفس اور ملک کے بڑے بڑے تجارتی اداروں کے ہیڈ آفس یہاں تھے۔ یہ شہر بھی بہت خوبصورت تھا‘ اسے منی پاکستان کہا جاتا تھا۔ حالات نے اس ہنستے کھیلتے شہر کو اجاڑ کر رکھ دیا عجیب طرح کی سیاست ہو رہی ہے۔ اب اسے سندھی قوم پرستی کی نظر نہیں ہونا چاہیے۔پھر یہاں کی آمدن 70فیصد نہیں رہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی معیشت کا پہیہ کراچی کے ساتھ گھومتا ہے۔ ہم نے اس پہیے کی رفتار میں روک لگا رکھی ہے۔ خدا کے لئے عقل کے ناخن لیجیے۔ کراچی میں صنعت کاروں اور تاجروں کے تین طبقے ہیں۔ میمن ،پنجابی سودگران اور چنیوٹ برادری۔ ان لوگوں کو اگر کراچی تنگ ہونا محسوس ہو گا تو یہ ہجرت کر جائیں گے۔ ماضی میں بہت رکاوٹیں کھڑی ہوئی ہیں۔میں قلم کو روک رہا ہوں اور نہیں چاہتا کہ کوئی غلط بات قلم سے نکل جائے۔ کراچی میں پورے ملک کے وسائل اور محنتیں لگی ہیں۔ اس کا پھل کھانا بھی پورے ملک کا حق ہے۔ اس سے ہٹ کر یہ بات یاد رکھیے کہ کراچی ٹیکس اکٹھا کرتا ہے‘ کماتا نہیں ہے۔ تاہم اس سے پورا ملک محبت کرتا ہے۔اس کا یہ مقام رہنے دیجیے کہ یہی اس کی مرکزیت ہے۔کراچی تو سلامت رہے۔ سندھ تو ترقی کرے اور مرا پاکستان بھی پھلے پھولے۔