وہ ایک کامیاب وکیل تھے اور عمر میںہم سے بڑے تھے مگرہم سے بے تکلفی سے ملا کرتے تھے۔ ہمیشہ ہنستے ہنساتے رہتے تھے۔ پرانے لطیفے نئے انداز میں سنانے کے آرٹسٹ تھے۔ انہیں دیکھ کر ہمیشہ یہ خیال آتا کہ اگر یہ ہمارے نوجوان بزرگ اپنی وکالت کی عزت اور دولت انتخابی معرکوں میں اس طرح بیدردی سے نہ لٹاتے تو معتبر شخصیت کے مالک بن جاتے۔ مگر موصوف پورے پانچ برس محنت سے وکالت کرتے اور جب بھی انتخاب کا موسم آتا تو وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہوتے اور برسوں کی کمائی ہفتوں میں اڑا دیتے۔ ہم نے ایک بار ہمیشہ ہارنے والے اپنے بزرگ دوست سے پوچھا کہ ’’آپ اس قدر ہوشیار اور زمانہ ساز ہیں۔ حیرت ہے کہ آپ کو یہ معلوم کیوں نہیں ہوتا کہ آپ انتخابات میں ہار جائیں گے۔ ہمارا تعلق آپ کے گاؤں سے نہیں لیکن شہر میں رہتے ہوئے بھی ہم آسانی سے سمجھ جاتے ہیں کہ انتخاب جیتنا آپ کے بس کی بات نہیں۔ پھر آخر آپ ہر بار ہارنے کے لیے انتخابات میں حصہ کیوں لیتے ہیں؟‘‘ انہوں نے ہماری بات اطمینان سے سنی اور سگریٹ سلگا کر کش لگاتے ہوئے بولے ’’ایک بات ذہن میں رکھ لو۔ جس شخص کی بیوی بدچلن ہوتی ہے اس کے بارے میں پورا محلہ تو کیا پورا شہر جانتا ہے کہ وہ کریکٹر کی ڈھیلی ہے مگر اس کا شوہر اس کھلے سچ سے ناآشنا رہتا ہے اور اسی طرح جو کوئی الیکشن میں ہارتا ہے اس کے بارے میں حلقے کے احمق ترین شخص کو بھی اس بات کا علم ہوتا ہے کہ وہ ہار رہا ہے مگر ہارنے والا اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتا‘‘ہمارے زندہ دل دوست کے اس خیال سے پاکستان میں منعقد ہونے والے انتخابی معرکوں کو دیکھا جائے تو خودفریبی کے خوبصورت مناظر نظر آئیں گے ۔ اس بار پورے پاکستان میں بلند پہاڑوں سے لیکر ساحل سمندر تک جن لوگوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے ان کی اکثریت پر وہ سارے لطیفے فٹ آتے ہیں جنہیں انتخابی حوالے سے سنایا جاتا ہے۔ اس مقابلے میں ایسے لوگ بھی حصہ لے رہے ہیں جن کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ ’’جب ووٹ کاسٹ کرنے کا وقت ختم ہوا اور بیلٹ باکس کھلے تو ایک امیداور کے حصے میں صرف تین ووٹ آئے۔ اس نے غصے سے کہا ایک ووٹ میرا اور ایک ووٹ میری بیوی کا یہ تیسرا ووٹ کس خبیث کا ہے؟ یہ بات سن کر امیدوار کی بیوی کچھ شرماتے اور کچھ احتجاج کا اظہار کرتے ہوئے بولی ’’کیوں جی! میں نے کبھی آپ کے دوستوں کے لیے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں؟‘‘ پورے پاکستان کا تو ہم نہیں کہہ سکتے مگر اس بار سندھ میں انتخابی منظر اتنا الجھا ہوا ہے کہ ہر طاقتور امیدوار کو اپنے ہارنے کا خدشہ اور ہر کمزور امیدوار کو اپنی جیت کی خوش فہمی ہے۔ اگر پاکستان کے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کو اپنے آبائی گاؤں نواب شاہ سے ہارنے کا خطرہ نہیں ہوتا تو وہ اس نوجوان کے بارے میں عدم تحفظ کا شکار کیوں ہوجاتے جو حال ہی میں میڈیا چھوڑ کر سیاست میں کودنے والے سندھ کی قاضی فیملی کے چشم و چراغ کی ’’تبدیلی پسند پارٹی‘‘ کے پلیٹ فارم سے آصف زرداری کے خلاف انتخاب لڑ رہے تھے اور ایسی گستاخی کرنے کے بعد وہ دو دن غائب ہوگئے اور تیسرے دن منظر عام پر آتے ہی وہ نوجوان میڈیا کے سامنے نہ صرف آصف زرداری کے حق میں دستبردار ہوا بلکہ اس نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان بھی کردیا۔ آصف زرداری اپنی تمام تر دولت اور طاقت کے باوجود سندھ کے قوم پرست رہنما ڈاکٹر قادر مگسی کو چھو بھی نہیں سکتے جو ٹھٹہ سے تعلق رکھتے ہیں اور حیدرآباد میں سیاست کرتے ہیں مگر اس بار انہوں نے نواب شاہ سے آصف زرداری کے خلاف انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ وہ آصف زرداری جن کو پورا یقین تھا کہ وہ سندھ سے سویپ کرجائیں گے‘ کیوں کہ انہوں نے ہر چلتے پھرتے سیاسی شخص کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے سندھ میں اپنے متبادل کی کوئی گنجائش نہ چھوڑی تھی مگر کس کو معلوم تھا کہ پیپلز پارٹی کا متبادل اس پارٹی کی کوکھ سے پیدا ہوگا۔ اس وقت سندھ کے ہر دوسرے شہر میں ایک پیپلز پارٹی کا جانا پہچانا اور اچھا خاصہ ووٹ بینک رکھنے والا سینئر رہنما ٹکٹ نہ ملنے کے ردعمل میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے اپنی پارٹی کے خلاف انتخاب لڑنے کا اعلان کرچکا ہے۔ آصف زرداری ایسے افراد سے بات کرتے ہوئے اپنا بلڈ پریشر کنٹرول میں نہیں رکھ پاتے۔ اس لیے اب روٹھے ہوؤں کو منانے کی ذمہ داری اس بلاول بھٹو زرداری کے سپرد کی گئی ہے جس کے بارے میں پہلے پارٹی کے روٹھے ہوئے قائدین کہتے تھے کہ ’’ان کی آنکھوں سے شہید بینظیر صاحبہ جھانکتی ہیں‘‘ مگر اب وہ صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔ وہ لیاری جس کو کراچی میں پیپلز پارٹی کا قلعہ کہا اور سمجھا جاتا تھا اب اس لیاری میں بلاول بھٹو زرداری کی مخالفت ان کے باغی جیالے کر رہے ہیں اور وہ بغاوت صرف نعروں تک محدود نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بلاول بھٹو کے پھٹے ہوئے پوسٹر اور پینا فلیکس بھی گلیوں میں جا بجا دیکھے جا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو اس بار جس قدر سوشل میڈیا نے تنگ کیا ہے اتنا تنگ تاریخ میں اسے کسی نے نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار انتخابی مہم چلانے کے لیے جہاں جاتے ہیں وہاں ظلم اور زیادتی کے شکار افراد موبائل فون لیکر پہنچ جاتے ہیں اور ان امیدواروں کا عوامی احتساب کرنا شروع کرتے ہیں اور چند لمحوں کے بعد وہ ویڈیو وائرل ہو جاتی ہے اور ایک شہر کے نوجوانوں کے مقابلے میں دوسرے شہر کے نوجوان موبائل کے ساتھ پیپلز پارٹی کے ان امیدواروں کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں جنہوں نے دس برس تک سندھ پر حکومت کی مگر سندھ کو پینے کے صاف پانی کا حق بھی میسر نہیں ہوا۔سوشل میڈیا پر تو سندھ میں یہ انتخابات پیپلز پارٹی برے طریقے سے ہارتی نظر آ رہی ہے مگر سندھ صرف سوشل میڈیا نہیں ہے۔ سندھ اب تک وڈیروں کے پنجوں میں جکڑے ہوئے کسانوں کی وہ دنیا ہے جہاں موبائل فون کے سگنل نہیں پہنچتے۔ وہ وڈیرے اس بار بھی پیپلز پارٹی کو ووٹ دلوانے کی بھرپور کوشش کریں گے مگر ان وڈیروں کے لیے مشکل یہ ہے کہ ان کے مقابلے میں بھی وڈیرے ہی ہیں۔ وہ وڈیرے جو عمران خان کی تحریک انصاف اور پیر پگاڑا کی جی ڈی اے (گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس) کی صورت میںموجود ہیں۔ وہ وڈیرے اچھی طرح جانتے ہے کہ پیپلز پارٹی کے وڈیرے کس وقت کون سا پتہ استعمال کرینگے۔ ان کی نظر ساری صورتحال پر ہے۔ یہی سبب ہے تین روز قبل پیر پگاڑا نے سندھ کی نگران حکومت کو وارننگ دی کہ اگر پیپلز پارٹی کے امیدواروں سے سرکاری پروٹوکول واپس نہ لیا گیا تو وہ پورے سندھ میں ہڑتال کی کال دینگے اور نگران حکومت نے پیر پگاڑا کی اس دھمکی کو نظرانداز نہیں کیا۔ مگر پیپلز پارٹی سندھ کے صدر اورسابق صوبائی وزیر نثار کھوڑو نے فوری طور پر بیان جاری کیا کہ ’’جی ڈی اے ایم کیوایم بننے کی کوشش نہ کرے‘‘ اس سے پہلے کہ جی ڈی اے کے طرف اس بیان کا جواب آئے میڈیا میں یہ خبر آئی کہ چار شادیاں کرنے والے نثار کھوڑو نے ایک بیوی اور ایک بیٹی کے بارے میں انتخابی فارم میں کچھ نہیں لکھا اس لیے انہیں نااہل قرار دیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی پریشانیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں۔ وہ جی ڈی اے جس کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ پیر پگاڑا اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ہوتے ہوئے بھی یہ اتحاد پیپلز پارٹی کے لیے ایک سپیڈ بریکر ثابت ہوگا مگر وہ اتحاد ایک مضبوط دیوار بنتا جا رہا ہے۔ کراچی کے انتخابی معرکے کی صورتحال بہت مختلف ہے۔ اس کے لیے ایک الگ کالم کی ضرورت درپیش ہے مگر عجیب بات یہ ہے کہ نصف صدی گزرنے کے باوجود بھی سندھ کے قوم پرست حلقے ابھی تک انتخابی دنیا میں اجنبی ہیں۔ سندھ کے سارے قوم پرست حیدر آباد کے سندھی علاقے قاسم آباد سے انتخاب لڑنے کی تیاری میں مست مگن ہیں۔پیپلز پارٹی کے سابق وزیر جام خان شورو کا مقابلہ کرنے کے لیے چار قوم پرست رہنما میدان میں اترے ہوئے ہیں ۔ نواب شاہ میں آصف زرداری سے مقابلہ کا اعلان کرنے والے ڈاکٹر قادر مگسی نے حیدرآباد سے بھی انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے اور وہ کسی طور پر بھی حالیہ دنوں میں وفات پانے والے سندھ کے سینئر رہنما رسول بخش پلیجو کے بیٹے ایاز لطیف پلیجو کے حق میں دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ۔ جب کہ اسی حلقے میں جی ایم سید کے پوتے اور سندھ یونائٹیڈپارٹی کے سربراہ جلال محمود شاہ کے قریبی ساتھی اور پارٹی جنرل سیکرٹری دو دو مہیری بھی میدان میں اترے ہوئے ہیں اور اس بار پیپلز پارٹی کا امیدوار جام خان شورو اندرون خانہ بڑی محنت کررہا ہے کہ پی پی مخالف ان امیدواروں میں کوئی دستبردار نہ ہو۔ اگر جام خان شورو پی پی مخالف ووٹ کو بانٹنے میں محنت نہ کرتے تب بھی سندھ کے قوم پرست ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے سے باز نہ آتے۔ انتخاب کا یہ سارا تماشہ ایک طرف اور کراچی میں جوڑ توڑ کی وہ سیاست دوسرے طرف جس میں کسی کو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ’’کوئی کدھر جا رہا ہے؟ صبح ادھر آ رہا تھا اور شام ادھر جا رہا ہے؟ غور سے دیکھو بھائی یہ آرہا ہے کہ جا رہا ہے؟‘‘