2 ماہ بعد اسلام آباد میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو اس میں دھواں دھار تقریریں سننے کو ملیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے الزام لگایا کہ ’’ کورونا کے مسئلے پر وفاق سندھ سے زیادتی کر رہا ہے ۔ وزیراعظم کنفیوژ ہیں اور ذمہ داری پوری نہیں کر رہے ‘‘۔ اس کے جواب میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’ اب سندھ نہیں پاکستان کارڈ چلے گا ۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی خود کو قومی جماعت کہتی تھی مگر پی پی کے رہنما صوبائیت کی بات کر رہے ہیں ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا سندھ پاکستان کا حصہ نہیں ؟ اگر پاکستان کا حصہ ہے تو اس کے حقوق کی بات کرنا کس طرح غلط ہے، دوسرا یہ کہ پیپلزپارٹی کے پاس سندھ کا مینڈیٹ ہے تو وہ سندھ کی بات کیوں نہ کرے ؟ سوال بلاول بھٹو زرداری پر نہیں خود مخدوم شاہ محمود قریشی اور وسیب کے ان تمام سیاستدانوں پر بنتا ہے جو وسیب سے منتخب ہوتے آ رہے ہیں مگر وسیب کے حقوق کی بات نہیں کرتے ۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ سندھ کارڈ نہیں چلے گا ۔ سوال یہ ہے کہ کیسے نہیں چلے گا ؟ سندھ کی تہذیب ، ثقافت اور اس کے حقوق کی جدوجہد کی ایک طویل تاریخ ہے ۔ جسے پڑھنے کی ضرورت ہے ۔ گملے میں اُگنے والے سیاستدان کبھی تہذیبی تاریخ سے آگاہ نہیں ہو سکتے۔ اگر سندھ کارڈ غلط ہے ، یہ کارڈ تو خود قائد اعظم نے بھی کھیلا تھا ، واقعہ اس طرح ہے کہ انگریزوں نے جب ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے سندھ کو بمبے کا حصہ بنایا تو محمد علی جناح نے بحیثیت وکیل ہندوستان کی عدالت عالیہ میں مقدمہ دائر کیا اور دلائل میں لکھا کہ سندھ تہذیبی ، ثقافتی ، لسانی ، جغرافیائی طورپر اپنی الگ شناخت رکھتا ہے ، اور وہ کبھی بمبے کا حصہ نہیں رہا اور سندھ کو بمبے کا حصہ بناتے وقت کسی الیکٹورل فورم کا استعمال نہیں ہوا اور نہ ہی سندھ کے لوگوں کی رضا مندی اس میں شامل ہے ۔ اس پر ہندوستان کی عدالت عالیہ نے محمد علی جناح کے حق میں فیصلہ دیا اور 1934ء میں صوبہ سندھ بحال ہوا ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ سرائیکی صوبے کے قیام کیلئے بھی وسیب کے کروڑوں عوام کے آج وہی دلائل ہیں جو کہ قائد اعظم کے تھے ۔ سندھ کے تشخص کی ایک طویل داستان ہے ، سندھ کے لوگوں نے اپنے خطے کی زبان و ثقافت کے ساتھ ساتھ قدیم تہذیبی آثار پر بہت توجہ دی ہے ۔ سندھ کے مزارات ہوں یا آثار قدیمہ موہنجودڑو ، امری اور کوٹ ڈیجی ، ان پر سندھیوں نے بہت کام کیا ہے ۔ وسیب میں بھی قدیم آثار موجود ہیں ، خود ملتان کی تاریخ موہنجو دڑو سے بھی قدیم ہے ۔ ملتان کے مخادیم ہمیشہ بر سرا قتدار بھی ہوتے آ رہے ہیں ، سوال یہ ہے کہ ملتان کے آثار پر کتنا کام ہوا؟ انگریز سامراج سے لڑنے والے ہوشو شیدی جن کا سرائیکی میں لگایا گیا نعرہ ’’ مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں ‘‘ سندھ میں زبان زدِ عام ہے ۔ سندھیوں نے حیدر آباد میں ہوشو کی یادگار قائم کی ہے ۔ جبکہ ملتان کے قلعہ کہنہ قاسم باغ میں حملہ آور انگریزوں کی آسمان بوس قبریں حریت پسندوں کی روح کو آج بھی تڑپا رہی ہیں ۔ اگر قبروں کا نشان نہیں تو ان حریت پسندوں کا نہیں جو انگریز سامراج سے مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے ۔ یہ بھی دیکھئے کہ قلعہ کہنہ قاسم باغ پر ایک توپ رکھی گئی ہے ، جس کی تاریخ میں یہ لکھا گیا ہے کہ یہ توپ ملتان کی فتح کے وقت کام آئی ۔ جب تک تاریخ کو اس کی اصلیت کے حوالے سے نہیں دیکھا جائے گا ، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نہیں ہوگا۔ اگر بقول مخدوم شاہ محمود قریشی ، سندھ کارڈ بن چکا ہے اور سندھ کے سیاستدان بوقت ضرورت اسے استعمال کرتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ وسیب کو یہ حیثیت کیوں نہیں دی گئی ؟ وسیب کو یتیم ، مسکین اور لا وارث بنانیوالے کون ہیں ؟ سندھ میں مخدوم صاحب کے لاکھوں مرید ہیں ، کبھی انہوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ لوگ اپنے سندھ سے کتنی محبت کرتے ہیں ، اگر یہ بھی فرصت نہیں تو کم از کم یہ تو دیکھئے کہ سندھ کے ادارے سندھیالوجی ،سندھی لینگویج اتھارٹی ، سندھی ادبی بورڈ سندھ کی زبان و ادب پر کتنا کام کر رہے ہیں ؟ کچھ عرصہ پہلے مجھے سندھیالوجی جانے کا اتفاق ہوا، ڈائریکٹر قاسم ماکا نے بتایا کہ سندھیالوجی کروڑوں کے اثاثہ جات کی مالک ہے ، میں نے پوچھا یہ کیسے ممکن ہوا ؟ تو انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو بیرون ملک دوروں سے ہیرے جواہرات کے جو تحائف ملے ، انہوں نے سندھیالوجی کو دے دیئے ۔ ہمارے وسیب کے لوگ بھی صدر ، وزیراعظم، گورنر ، وزیراعلیٰ رہے ، کیا کوئی اس طرح کی مثال موجود ہے ؟ سندھ کارڈ سے مجھے کوئی غرض نہیں ، سندھ کی تاریخ کے حوالے سے مثالیں دینے کا مقصد اپنے وسیب کے سیاستدانوں کیلئے سوال پیدا کرنا ہے کہ انہوں نے اپنے وسیب کے لئے کیا کیا؟ سندھ ، پنجاب ، خیبرپختونخواہ ، وسیب ، بلوچستان کی ترقی در اصل پاکستان کی ترقی ہے ۔ سندھ میں سندھی تعلیم صدیوں سے جاری ہے ، 1885ء میں سندھی میں تعلیم دینے والے سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی میں قائم ہوا، قائد اعظم نے بھی اسی مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ، انگریزوں نے بھی سندھی زبان کی سرپرستی کی اور سندھی تعلیم کو جاری رکھا ۔ 1961ء میں ایوب خان نے سندھ میں سندھی کے ساتھ اردو کو لازمی قرار دیا تو سندھ میں طوفان کھڑا ہوگیا اور سندھ کے تمام ارکان اسمبلی نے سندھی زبان کے حق میں 9 فروری 1962ء کو بہت بڑا جلسہ کیا اور اسی دن کو ’’ سندھی زبان کا دن ‘‘ قرار دیا گیا ۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اعتراض کرنے سے پہلے تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے ۔ پاکستان میں بولی جانیوالی زبانوں اور ثقافتوں کا فروغ ہی اصل پاکستانیت ہے ۔ سرائیکی وسیب میں 6 سرائیکی روزنامے جھوک ، سانول ، سانجھ ، جاگ سرائیکی ، سرائیکی کئو اور سجاک جاری ہوئے مگر حکومتوں کی عدم توجہی کی بھینٹ چڑھ گئے، تین سرائیکی چینل بند ہوئے ۔ بمشکل ان میں سے جھوک سانس لے رہا ہے ۔ سندھی صحافت کی تاریخ دیکھتے ہیں تو 1860ء سے سندھی زبان میں اخبارات اور رسائل شائع ہو رہے ہیں ، اب ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور سندھ حکومت اب بھی بھرپور سرپرستی کر رہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ وسیب کے لئے ایسا کیوں نہیں؟