سندھ صوفیاء کی دھرتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس سرزمین پر کبھی تعصب کے کسی پودے نے جڑ نہیں پکڑی۔ سندھ کے صوفیاء کرام شاہ عبد الطیف بھٹائی سے اپنے کلام کی روشنی لیتے ہیں۔ شاہ لطیف کے کلام میں فرقہ واریت پر کڑی تنقید موجود ہے۔ شاہ لطیف کا پیغام وحدت کا پیغام ہے۔ شاہ لطیف کے کلام میں سب کو ایک ہوجانے کی پکار ہے۔ ایک شعر میں شاہ لطیف فرماتے ہیں: ’’وہ ایک دوسرے سے جڑ کر جھنڈ بنا کر اڑتے ہیں انسانوں دیکھو پرندوں میں کتنا پیار ہے‘‘ شاہ لطیف کی شاعری میں مختلف سوچوں اور دائروں میں بٹے ہوئے لوگوں کو ایک ہوجانے کی صدا ہے اور جو دردو غم کی کیفیت ہے وہ سندھ کی سرزمین میں رچی ہوئی ہے۔ اس لیے جب بھی ماہ محرم شروع ہوتا ہے تب سندھ کی آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں۔ ان کی شاعری میں کربلا کے غم کا تذکرہ ہے۔ ان کی شاعری میں تاریخ کی کوئی تکرار نہیں۔ ان کے لیے کربلا غم کی علامت تھی۔ غم سندھ کی دھرتی کو راس آتا ہے۔ اس لیے وہ محرم کے مہینے میں امام حسین ؓ کے خاندان اور ان کے ساتھیوں کی شہادت والی کہانی سن کر بچوں کی طرح رونے لگتے ہیں۔ سندھ میں جب غم حسینؓ کی ابتدا ہوئی تب وہ حکمرانوں کے حوالے سے نہیں ہوئی۔ سندھ میں غم حسین ؓ کا پیغام عام لوگوں تک پہچانے کا فرض صوفیا ء نے ادا کیا۔ سندھ میں تالپور دور میں عزاداری کے کلچر نے فروغ پایا مگر وہ عوامی نہیں بن پایا۔ صوفیا ء کے کلام کا رشتہ عام لوگوں سے تھا۔ ان کی زبان اور ان کا بیان عام تھا۔ اس لیے وہ عام لوگوں کے دل میں اتر جاتا تھا۔ اس کے علاوہ سندھ میں غم حسین ؓ کے عام ہونے کا سب سے بڑا سبب سندھ کا اپنا مزاج تھا۔ اس مزاج میں اور کربلا کے قصے میں ایک ہی کیفیت تھی۔ اس لیے وادی سندھ میں غم حسین ؓ کو جس طرح سندھی اور سرائیکی زبان والوں نے دل کی گہرائی سے اپنایا ؛ اس کی ایسی اور کوئی مثال کہیں نہیں ملتی۔ سندھی اور سرائیکی زبان میں محبت کی مٹھاس ہے۔ جس دل میں محبت ہوتی ہے؛ اس دل میں غم ہوتا ہے۔ جس دل میں غم ہوتا ہے اس دل کے لیے غم کی کیفیت میں ایک طرح کی کشش ہوتی ہے۔سندھ کی سوندھی اور غمگین مٹی اور غم حسین ؓ میں احساساتی رشتہ ہے۔ وہ رشتہ وقت کے ساتھ کمزور ہونے کے بجائے مضبوط ہوتا رہا۔ سندھ میں کچھ عرصے سے تفرقے کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے مگر ہم نے اپنی آنکھوں سے اس وقت کو بھی دیکھا ہے کسی گلی اور کسی راستے سے نکلنے والے تعزیتی جلوس کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا۔یہ سندھ کی دھرتی ہے جہاں ماتم کرنے والوں کے لیے ٹھنڈے پانی اور میٹھے شربت کا بندوبست نہ صرف سنی عقیدے کے لوگ کرتے تھے بلکہ اس کام میں سندھ کے ہندو خاندان بھی آگے آگے ہوتے تھے۔ ان کے لیے بھی محرم کا مہینہ غم کا مہینہ ہوتا تھا۔ اس دن سب کے دل غم حسین ؓ کے باعث بھاری ہوتے تھے۔ وہ بچوں میں چنے تقسیم کرتے اور قدم قدم پر سبیلوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اب تو اس کلچر کی آخری جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ حالانکہ چند برس پہلے تک سندھ میں عام لوگ عزاداری میں شرکت کرنے کے لیے اپنے شہروں سے نکل کر ان شہروں کا رخ کرتے جو شہرامام حسین ؓ کا غم اپنے انداز سے مناتے تھے۔ عزاداری کے حوالے سے کراچی کا کلچر حیدرآباد کے کلچر سے مختلف ہے۔ حیدرآباد کے بعد روہڑی کا ماتم پورے سندھ میں مشہور ہے۔ اس کے علاوہ دسویں محرم پر جو تعزیے نکالے جاتے ہیں ان میں سندھ کے تاریخی شہر شکارپور کا کوئی جواب نہیں۔ شکارپور کے کاریگر پورا سال اپنے تعزیوں کو بڑی مہارت سے سجانے میں مصروف رہتے ہیں۔اس دن شہر میں عام لوگ یہ بھی دیکھنے کے لیے جاتے ہیں کہ کس محلے کا تعزیہ سب سے زیادہ سجایا گیا ہے؟ سندھ میں ماہ محرم صرف دس محرم کے ماتم کا نام نہیں۔ اس مہینے کے دوراں عام لوگ فرقوں سے ماورا ہوکر خیراتوں کا بندوبست کرتے ہیں۔ اس مہینے میں لوگ خوشیاں منانے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ مہینہ غم کا مہینہ ہوتا ہے۔ اس مہینے میں ہر شخص اپنے مزاج کے مطابق غم حسین ؓ کااظہار کرتا ہے۔سندھ میں غم حسین ؓ میں لکھی ہوئی شاعری کی الگ تاریخ ہے۔ یہ شاعری صرف شاہ لطیف اور بعد میں آنے والے صوفیاء کرام تک محدود نہیں ہے۔ غم حسین ؓ میں ڈوبی شاعری کا ایک سلسلہ اور بھی رہا ہے۔ آج بھی سندھ میں ثابت علی شاہ کے مرثیوں کو عقیدت کے ساتھ پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ اس سارے درد و رنج میں کبھی کسی کے لیے کوئی ایسی بات نہیں ہوتی تھی جو کسی دوسرے مسلک سے وابستہ شخص کے لیے دل آزاری کا باعث بنے۔ ہم جب تاریخ سے اپنا رشتہ کاٹتے ہیں تب ہم زمانہ حال کے ہاتھوں میں کھلونے بن رہ جاتے ہیں۔ اس وقت مسلمان معاشروں میں جہاں جہاں نفرت ہے وہاں امام حسین ؓ کے پیغام پر عمل نہیں ہوتا۔ امام حسین ؓ کا پیغام تو محبت کا پیغام ہے۔ امام حسین ؓ کا پیغام تو قربانی کا پیغام ہے۔ ہم امام حسین ؓ کے قربانی کا تذکرہ تو کرتے ہیں مگر ہم خود اپنی انا کی قربانی بھی نہیں دیتے۔ اگر ہم قربانی کے فلسفے کو سمجھیں تو اس پر عمل کرنے میں ہمیں کوئی مشکل پیش نہیں آ سکتی۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم اس پورے کلچر سے کٹ چکے ہیں جس میں درد کا کوئی فرقہ نہیں ہوتا تھا۔ جس میں محبت ہر مسلک میں شامل تھی۔ وہ دور سندھ میں عزاداری کے حوالے سے بہت مشہور تھا۔ تاریخ میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔ مگر ہم تاریخ کو فراموش کرچکے ہیں۔ ہم سب کچھ بھول چکے ہیں۔ہم تو غم حسین ؓ کے اظہار کا سلیقہ بھی بھول چکے ہیں۔