وادی مہران میں سندھ اور وفاق کی کشمکش اور رہنمائوں کی ایک دوسرے پر تنقیدکوئی نئی بات نہیں ، جب سے یہ حکومتیں بنی ہیں، پہلے روز سے ہی دونوں بلکہ کراچی کی تینوں نمائندہ جماعتیں بات بے بات دست بہ گریباں رہتی ہیں،بس فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے ایم کیوایم سندھ میں پیپلزپارٹی کی شریک اقتدار تھی اور اس بار وفاق میں تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی ہے۔صوبے میں جاری سیاسی جنگ سے یوں لگتا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ ؎عوام کی خدمت سے زیادہ باہم جنگ کی تیاری پر اپنے وسائل اوروقت خرچ کرکے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔دراصل سیاست میں جورواداری اور برداشت غلام مصطفی خان جتوئی، پیرصاحب پگاڑو، مولانا مفتی محمود،مولانا شاہ احمد نورانی،سردار شیر باز خان مزاری، نواب محمد اکبر خان بگٹی ، میر غوث بخش بزنجو، سردار عطااللہ مینگل،خان عبدالولی خان، نوابزادہ نصراللہ خان،قاضی حسن احمد اور پروفیسر غفور احمد کے دور میں تھی، اب اس کا نام ونشاں باقی نہیں رہا۔اصولی سیاست سے وابستہ نام گنتے چلے جایئے، سیاسی اختلافات کے باوجود احترام سے سرخم اور آنکھیں سرنگوں ہوتی جائیں گی۔پھر نئی سیاسی نسل بھی اتنی گئی گزری نہیں تھی کہ اسے کوئی دوش دیا جا سکے۔محترمہ بے نظیر بھٹو شہید، اسفندیار خان ولی،سرداراختر مینگل ، مولانا فضل الرحمٰن ،میاں رضا ربانی،میر حاصل بزنجو جیسے لوگوں پرمشتمل کارزار سیاست میں نمودار ہونے والی یہ نسل بھی اخلاق واطوارمیں تربیت یافتہ اورسیاسی محاسن سے لیس تھی جنہوں نے سیاست کونہ توسربازار بیچا اور نہ ہی اسے رسوا کیا۔سیاسی کشمکش کے اس دور میں بھی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جواس مکدر فضا میں سیاسی پھلجڑیاں چھوڑ کرکچھ دیر کے لئے ماحول کی تلخی کو ٹال دیتے ہیں۔ آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے کے الزام میں عدالت عالیہ سندھ کے دوشی، ہمارے خیر پور کی خوابوں والی سرکار منظور احمد وسان بہت ہی منجھے ہوئے سیاست دان ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی سے ان کا رشتہ اتنا پرانا ہے کہ اس کے لئے جتنے بھی عشرے ان سے منسوب کر دئیے جائیں اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ جب سے سیاست میں ان کا ستارہ گردش میں آیا ہے انہوں نے خوابوں اور سیاسی پیش گوئیوں کی دنیا آباد کر لی ہے، اس کام کے انہیں دام ملیں نہ ملیں لیکن شہرت بہت ملتی ہے، جس کا انہیں اب چسکا پڑ گیا ہے- سندھ کے بڑے پیر صاحب پگاڑو مرحوم کا دل ہی نہیں دستر خوان بھی وسیع تھا،وہ جب سیاسی طور پر سرگرم عمل تھے توانہیںپیش گوئیوں کے حوالے سے بڑی شہرت حاصل تھی ، ان کی پیش گوئیاں اکثر حرف بہ حرف سچ ثابت ہوتی تھیں اور وہ اپنے سیاسی تخمینوں کی کامیابی پر خوب داد پاتے تھے- سید مردان شاہ دوم پیر صاحب پگاڑو ہفتم کا دور پرنٹ میڈیا کے عروج کا دور تھا اس لئے اخبارات ان کے دل کو موہ لینے والے سیاسی تجزیوں، سیاسی مخالفین سے متعلق برجستہ پھبتیوں اور بروقت پیش گوئیوں کو نمایاں اور جلی حروف سے چھاپتے تھے لیکن ان کی پیش گوئیوں کا دائرہ اتنا وسیع نہیں تھا جتنا برقی صوتیات اور سماجی رابطے کے موجودہ دور میں ہو سکتا تھا۔ اس کے باوجود ان کی بذلہ سنجی مشہور تھی اور ان کی سیاسی جملے بازی کو پاکستان ہی نہیں عالمی اخبارات کے صفحہ اول پر جگہ ملتی تھی- پیر صاجب پگاڑو کالفظی تبرک سینہ بہ سینہ ہر جگہ پہنچ جایا کرتا تھا- ان کے مخالفین کہتے تھے کہ چونکہ ان کے راولپنڈی سے گہرے مراسم ہیں ، اس لئے انہیں وہاں سے وافر تعداد میں مستند خبریں مل جاتی ہیں جو وہ قارئین کی نذر کرکے داد پاتے ہیں۔ سید مردان شاہ پیرصاحب پگاڑو خود بھی اعلانیہ راولپنڈی سے اپنے روابط کا اعتراف کرتے تھے لیکن ان کا دعویٰ ہوتا تھا کہ ان کی سیاسی پیش گوئیاں کسی کی طرف سے ملنے والی خبروں پر مبنی نہیں ہوتیں بلک یہ ان کے سیاسی تجزیئے ہوتے ہیں جو اکثر سچ ثابت ہوتے ہیں۔ اس میں کسی شک و شبے کی گنجائش بھی نہیں ہے کہ بڑے پیر صاحب پگاڑو سیاسی دائوپیچ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اور سیاسی حالات پر ان کی گہری نگاہ تھی جسے ہر سطح پر سراہا اور قدرکی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا بلکہ ان کے سیاسی مخالف بھی ان کی سیاسی بصیرت کے دل سے معترف تھے۔ بڑے پیر صاحب پگاڑو کی وفات کے بعد سیاسی پیش گوئیوں کا میدان کافی عرصے تک خالی رہا اور سیاسی پیش گوئیوں کے حوالے سے اخبارات میں پیرصاحب پگارو کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی رہی۔ پھر اچانک شیخ رشید احمد اس میدان میں اترے لیکن ان کی پیش گوئیوں کا دائرہ شریف خاندان اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی مخالفت تک محدود تھا، یہ خبریں انہیں ان کے حلقہ انتخاب میں موجود ایک بڑے گھر سے ہی ملتی تھیں جنہیں وہ دھڑلے سے بریکنگ نیوز بنا کر اپنے ناظرین سے اپنی سیاسی چابکدستی کا لوہا منوالیتے ہیں ، اس کے باوجود وہ اپنی سیاسی پیش گوئیوں کی وجہ سے خود کو پیر صاحب پگاڑو کا نعم البدل ثابت نہیں کر سکے۔ شیخ رشید احمد کی سیاسی پیش گوئیوں میں جملوں کی وہ کاٹ ،گہرائی اور حوصلہ مندی نہیں ہوتی جو پیر صاحب پگاڑو کا خاصا تھا ۔شیخ رشید احمد کی سیاسی تبصرہ نگاری میں ان کی ذاتی خواہشوں کا بغض اور نجی عداوت شامل ہوتی ہے جو انہیںپیر صاحب پگاڑو کے اسلوب کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتی- پیر صاحب پگاڑو مرحوم کو سیاسی پیش گوئیوں اور اس کے زبان و بیان پر ملکہ حاصل تھا۔ البتہ موجودہ دور کے نمایاں سیاسی پنڈت شیخ رشید احمد کی خوش قسمتی ہے کہ ان کی پیش گوئیوں کا دور برقی صوتیات اور سماجی رابطے کی ویب سائٹوں کے عروج کا دور ہے، اس لئے ان کی بیان کی گئی رام کہانیاں چشم زدن میں وسیع پیمانے پر پھیل جاتی ہیں۔ حالانکہ ان کی کئی پیش گوئیاں صدا بہ صحرا ثابت ہوئیں لیکن وہ اپنے ناکام سیاسی تجزیوں کو اپنی چرب زبانی سے ٹی وی ٹاکروں میں اسے کوئی نیا رنگ دے کر یا کوئی اور شوشہ چھوڑ کر پچھلے حساب کتاب سے صاف بچ نکلتے ہیں اور ان کا میزبان ان کی سیاسی دھمکیوں، نئے شوشوں کے فریب میں مبتلا ہو کر ان کا منہ تکتا رہ جاتا ہے۔ اب تو چونکہ شیخ رشید خود حکومت میں اہم عہدے پر براجمان ہیں انہیں اندر کی باتیں معلوم ہوتی ہیں ، اس لئے وہ ان خبروں کو سیاسی پیش گوئیوں کا لبادہ اوڑھا کر پیش کر کے خوامخواہ کی شہرت سمیٹتے ہیںلیکن وقت کے ساتھ ساتھ شیخ رشید احمد کے سیاسی قد کاٹھ کابھانڈابیچ چوراہے پھوٹنے لگا ہے۔ بہ صد معڈرت اب قارئین اور ناظرین شیخ رشید کی گفتگو کو سیاسی بڑھکوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے، اب ان کی گفتگو پر ان کی انتظامی ناکامیوں اور سیاسی چڑ چڑے پن کا رنگ نمایاں ہو نے لگا ہے- ملک کی جمہوری آمریتوں اور آمریتی جمہوریتوں میں چھٹی بار وزارت کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے ان کے لہجے اور بیانئیے میں تصنع اور سیاسی مایوسی کی آمیزش بڑھ سی گئی ہے، شاید عمران خان کی اندھی سیاسی تقلید کی بھیڑ میں وہ خود اپنی سیاسی ساکھ کہیں گم کر بیٹھے ہیں، اب ان کے سیاسی تجزیوں اور پیش گوئیوں میں وہ دم نہیں رہا جو ایک زمانے میں ان کی پہچان بنا ہواتھا۔(جاری ہے)