وہ اکیس جون کا دن تھا۔ اس دن بینظیر بھٹو کی سالگرہ تھی۔ ان کی سالگرہ کا کیک کہاں کاٹا گیا؟ اس بارے میں میڈیا کو کچھ بھی معلوم نہیں مگر اس دن بلاول بھٹو زرداری نے اپنے کندھوں پراپنے والد آصف زرداری کی آزادی کا بہت بڑا بوجھ اٹھایا تھا ۔ اس دن کی گرم شام کو مزید گرمانے کے لیے پیپلز پارٹی کے بڑے لیڈرز موٹر سائیکلوں پر نواب شاہ کے راستوں پر چلتے دکھائی دیے۔ اس دن پوری پارٹی اور خاص طور پر نواب شاہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے وزیروں؛ مشیروں؛ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کو سختی سے پابند بنایا گیا تھا کہ وہ اپنے اپنے حلقوں سے عوامی سیلاب لیکر آئیں تاکہ آصف زرداری کی تحریک آزادی کی بہت بڑی ابتدا ہوسکے۔ جلسے کو کامیاب کرنے کے لیے پورے ہفتے سے انتظامی تیاریاں عروج پر تھیں۔ پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ اس جلسے میں کم از کم ایک لاکھ لوگوں کی شرکت ہوگی مگر اس بار بھی پیپلز پارٹی کی قیادت کا تیر نشانے پر نہیں لگا۔ اس بار بھی نواب شاہ کے میدان پر پندرہ سے بیس ہزار لوگوں سے زیادہ کیمرا کی آنکھ نہ دیکھ پائی۔ حالانکہ اس دن کے لیے بلاول بھٹو زرداری کو بہت جذباتی تقریر لکھ کر دی گئی تھی۔ اس تقریر میں اس نے پہلی بار اپنے والد کی تعریف کرنے کا رسک اٹھایا تھا۔ یہ بہت مشکل کام تھا۔ کیوں کہ نہ صرف سندھ کے سیاسی اور عوامی بلکہ پیپلز پارٹی کے تنظیمی حلقوں میں بھی آصف زرداری کو ہیرو کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔ اس دن بلاول بھٹو کو جو تقریر لکھ کر دی گئی اس میں آصف زرداری ایک عظیم ہیرو کی طرح پیش ہوا۔ بلاول بھٹو نے اپنے والد کو نواب شاہ کے زرداری قبیلے کے سردار کے شہزادے کے اعزاز دیا۔ اس نے آصف زرداری کو قربانی کا پتلا بنا کر پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری کو بینظیر بھٹو سے بے وفائی کرنے کی قیمت کے طور پر وزارت اعظمی کی پیشکش ہوئی مگر انہوں نے ٹھکرادی۔ اس جلسے میں بلاول کے قریب مردوں اور عورتوں کی وہ ٹیم کھڑی کی گئی تھی جو اس وقت زور زور سے تالیاں بجاتی اور نعرے لگاتی جب تقریر میں آصف زرداری کا ذکر آتا۔ بلاول بھٹو نے پوری کوشش کی وہ اپنے بلند آواز سے جلسے میں شریک ہونے والوں کو کچھ گرمائے اور جذباتی الفاظ سے انہیں کچھ تڑپائے مگر وہ جلسہ بھی مرزا غالب کے اس شعر کی طرح ثابت ہوا: ؎ تھی خبر گرم کہ غالب کہ اڑیں گے پرزے دیکھنے ہم بھی گئے پہ تماشہ نہ ہوا بلاول نے بہت کوشش کی مگر وہ عمران خان کو ولن اور آصف زرداری کو ہیروبنا کر پیش نہ کرسکا۔ ان کی لکھی ہوئی تقریر اور ماحول میں کوئی مطابقت نہیں تھی۔ اس لیے سوشل میڈیا پر پیپلز پارٹی کے حامی حلقوں نے بھی یہ تبصرے کیے کہ اگر بلاول سے لکھی ہوئی تقریر نہ کروائی جاتی اور اگر وہ اپنے دل اور دماغ سے بولتا تو شاید سننے والوں پر اچھا اثر ہوتا۔ نواب شاہ کا وہ سیاسی شو جس کے لیے بہت محنت کی گئی تھی کامیاب نہ ہوپایا۔ حالانکہ اس شو کو آصف زرداری کی آزادی کے لیے طے کی گئی تحریک کے انجن کا کردار ادا کرنا تھا۔ میڈیا کے سامنے تو جلسے کی کامیابی کا تذکرہ کیا گیا مگر دوسرے دن بلاول ہاؤس میں ایک اہم میٹنگ کا انعقاد ہوا۔ اس میٹنگ میں یہ جائزہ لیا گیا کہ آخر جلسہ اس طرح سے کامیاب کیوں نہیں ہو پایا جس کے لیے پلاننگ کی گئی تھی۔ حالانکہ نواب شاہ چھوٹی ڈویژن نہیں ہے۔ اس میں سانگھڑ؛ نوشہرو فیروز اور خود نواب شاہ جیسا بہت بڑا شہر شامل ہے۔ اس میں مورو اور سکرنڈ جیسے اہم اور سیاسی طور پر سرگرم شہر بھی ہیں۔ اگر ایک ایک اسمبلی ممبر دس دس ہزار لوگوں کا جلوس لیکر نواب شاہ میں داخل ہوتا تو اس شو کے مناظر سیاسی سیلاب سے کم نہ ہوتے مگر اس اہم جلسے میں لوگ توقع سے بہت کم شریک ہوئے۔ جب قیادت کی طرف سے پوچھا گیا کہ ’’ایسا کیوں ہوا؟‘‘ تب انہوں نے فوری طور پر وہ جواب دیا جو وہ ذہن میں رکھ کر آئے تھے کہ ’’اس غضب کی گرمی میں لوگ گھر سے نکلنے کے لیے تیار نہیں‘‘ کیا نواب شاہ کے جلسے کا سبب یہ تھا کہ اس دن بھی سخت گرمی تھی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل سندھ میں سخت گرمی ہے مگر سخت گرمی کے ساتھ ساتھ سندھ میں سیاسی طور پر جو سردی چھائی ہوئی ہے اس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ سندھ میں موسم گرما کا موسم نیا نہیں ہے۔ سندھ موسم گرما میں بھی سیاسی طور پر متحرک رہا ہے مگر پچھلے چند برسوں سے سندھ سیاسی طور پر سرگرم ہونے کے موڈ میں نظر نہیں آتا۔ اس کا اہم سبب یہ ہے کہ سندھ نے جو بھی سیاسی قربانیاں دی ہیں اس کے نتیجے میں سندھ کو مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں ملا۔یہ سندھ ہی تھا جس نے ضیاء الحق کے دور میں نہ صرف سیاسی طور پر مظاہرے کیے بلکہ جب ایم آر ڈی کی طرف سے جیل بھرو تحریک کا آغاز ہوا تھا تب سندھ نے پورے صوبے کے جیل خانے بھر دیے تھے۔ آج سندھ میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں ہے۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ مریم نواز نے اے پی سی میں یہ مطالبہ کیا کہ احتساب کے مقدمات میں قید افراد کو سیاسی قیدی کا درجہ دیا جائے۔ سندھ میں کبھی سیاسی قیدیوں کی لمبی فہرست ہوتی تھی اور آج سیاسی قیدیوں کے حوالے سے جیلیں سونی ہیں۔سندھ میں سیاسی مایوسی کی کرپشن ہے۔ سندھ ایک چھوٹا صوبہ ہے۔ وہاں لوگ ایک دوسرے کو ذاتی حوالے سے بھی جانتے ہیں۔ ان سب کو معلوم ہے کہ کل کوئی کیا تھا اور آج کیا بن گیا ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی امیر کیوں بن گیا ہے؟ جب اہلیان سندھ کو یہ احساس ہوا ہے کہ وہ سیاسی طور پر محنت کرتے ہیں اور قربانیاں دیتے ہیں مگر اس کی محنت کا صلہ انہیں تو کیا معاشرے کو بھی نہیں ملتا۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ سیاست کرپٹ لوگوں کے قبضے میں آچکی ہے۔ جب وہ جان چکے ہیں کہ محنت وہ کریں گے مگر سیاست کی فصل وڈیرے اٹھائیں گے تو پھر وہ آخر سیاسی طور پر سرگرم کیوں ہوں؟ قربانیاں کیوں دیں؟ نعرے کیوں لگائیں؟ جیلوں میں کیوں جائیں؟ سندھ یہ سوچ کر سیاسی طور پر سرد ہوگیا ہے۔ سندھ کا سیاسی منظر لاتعلقی کا مظہر پیش کر رہا ہے۔ سندھ میں ایک طرح کی سیاسی بیگانگی کا بسیرا ہے۔ کیا یہ اہم بات نہیں کہ جب سندھ کی سب سے بڑی جماعت کا رہنما آصف زرداری گرفتار ہوتا ہے تو سندھ میں کوئی بڑا احتجاج نہیں ہوتا۔یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ آصف زرداری کی گرفتاری پر لوگوں نے مٹھائیاں زیادہ بانٹیں اور احتجاجی نعرے کم لگائے۔ سندھ کبھی بائیں بازو اور ریڈیکل جمہوریت کی تحریک کا مرکز تھا مگر وہ سب کچھ ختم ہو رہا ہے۔ اس وقت زوال کی زدمیں صرف پیپلز پارٹی نہیں بلکہ وہ جماعتیں بھی ہیںجو کسی دور میں پیپلز پارٹی کا نعم البدل بن کر ابھر رہی تھیں۔ مرحوم رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک نے ایم آر ڈی تحریک میں نمایاں کردارا ادا کیا۔ چند روز قبل سندھ کے دانشور سیاستدان کے آبائی شہر جنگ شاہی میں ان کی پہلی برسی تھی۔رسول بخش پلیجو جب تک زندہ اور تندرست تھے تب وہ مشکل حالات میں بھی لوگوں کے ہجوم اکھٹے کرنے کا فن کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ ان کے لوگ نہ صرف جذبات سے بھرے ہوئے نعرے لگاتے تھے بلکہ وہ سیاسی کتابیں بھی پڑھتے تھے اور نظریاتی سیاست کرنے کے فخر سے لبریز ہوتے تھے۔ ان کو اپنے کام پر ناز تھا۔ مگر پلیجو صاحب کے بعد سندھ میں انقلابی سیاست کی روشنی بجھتی نظر آ رہی ہے۔ رسول بخش پلیجو کی پہلی برسی اس کا ثبوت تھی۔وہ برسی جس کو پلیجو صاحب کی پارٹی نے کامیاب کرنے کے لیے بڑی محبت کی تھی۔ اس برسی کا منظر بھی یہ گواہی دے رہا تھا کہ سندھ سیاسی طور پر سرد ہو چکا ہے۔