جنوبی پنجاب میں عمران خان کی سونامی میں جو سیاسی ریلا شامل ہوا ہے اس کا رخ سینٹرل پنجاب کے بجائے سندھ کی طرف آتا محسوس ہو رہا ہے۔ سیاست بھی دریا کی طرح اوپر سے نیچے بہتی ہے۔ اس وقت سندھ میں آصف زرداری کے مخالفین عمران خان کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا جیسے کردار تو ہاتھوں میں اجرک لیے تحریک انصاف کے منتظر ہیں۔ مگر پیپلز پارٹی میں بہت سارے لیڈران سندھ حکومت ختم ہونے کے دن پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔یہ بات آصف زرداری کو اچھی طرح معلوم ہے کہ رواں ماہ کے آخر میں صرف سندھ سرکار ہی نہیں جائے گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان سابق ممبران کی اچھی خاصی تعداد اسے چھوڑ کر جائے گی جو پیپلز پارٹی کے سرکاری ساون میں بھی پیاسے کے پیاسے ہی رہے۔ سندھ کی سماجی نفسیات کہہ لیجئے یا اسے سیاسی مجبوری سمجھیں مگر یہ ایک حقیقت ہے وہ سندھ کا وڈیرہ کبھی بھی سیاسی طور پر بہادر نہیں رہا۔ سندھ کی سیاسی تاریخ میں سندھی وڈیروں سے صرف ایک بار بہادری کا مظاہرہ کروایا گیا اور وہ دور تھا ’’ایم آر ڈی‘‘ کا۔ اس دور میں سندھ کے سب سے بڑے وڈیرے رئیس غلام مصطفی جتوئی نے سندھی وڈیروں کے کان میں سرگوشی کی کہ’’ امریکہ پیپلز پارٹی کو اقتدار دینے کے لیے تیار ہے آپ صرف احتجاج کرنے کے لیے باہر نکلیں‘‘ اس بات کا اندازہ نہ جتوئی صاحب کو تھا اور نہ پیپلز پارٹی کی قائد بینظیر بھٹو کو کہ سندھ کے لوگوں کے سینوں میں مارشل لا کے خلاف ایک طوفان مچل رہا ہے۔ تحریک برائے جمہوریت کی شدت سندھ میں صرف اس لیے نہیں تھی کہ سندھ اس وقت ملک کے باقی صوبوںسے زیادہ باشعور اور سرگرم تھا؛سندھ کے سینے میں ایک دکھ تھا۔ سندھ کے سینے میں ایک درد تھا۔ ایک قسم کا احساس جرم تھا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کو بچانے میں وہ کردار ادانہ کرسکا جو اسے کرنا چاہئیے تھا۔ سیاست میں صرف مفاد نہیں بلکہ احساس بھی اہم ہوتا ہے۔اگر سندھ کا پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاد کا رشتہ ہوتا تو پیپلز پارٹی کا سندھ میں بھی وہی حشر ہوتا جو پنجاب میں ہو چکا ہے۔ صرف آصف علی زرداری نے ہی نہیں بلکہ بینظیر بھٹو نے بھی سندھ کے لیے وہ کچھ نہیں کیا۔ بینظیر بھٹونے سندھ کے کسانوں اور مزدوروں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ بینظیر بھٹو نے سندھ کی تعلیم اور صحت کی ترقی کے لیے وہ کردار ادا نہیں کیا جو بھٹو کی بیٹی کو کرنا چاہئیے تھا۔ مگر سندھ نے پیپلز پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ حالانکہ اس سیاسی سفر میں ایسے بہت سے موڑ آئے جب سندھ کو بہت غصہ بھی آیا اور سندھ نے پیپلز پارٹی سے تعلق ختم کرنے کے بارے میں سوچا بھی۔ ایسے حالات بھی آئے جب سندھ کے غریب گھروں میں بینظیر بھٹو کی تصویر کو مٹی سے بنی ہوئی دیوار سے نوچا گیا مگر کچھ دیر کے بعد پھر کچھ ہاتھوں نے اس تصویر کو اٹھایا اور اسے اسی دیوار پر آویزاں کیا۔ سندھ کی پیپلز پارٹی سے غیرمشروط محبت کا سبب سندھ کا مرد نہیں ہے۔ ایک دور تھا جب سندھ کے مرد اور خواتین بینظیر بھٹو پر جان نچھاور کرتے تھے مگر وقت کے ساتھ سندھ کے مرد بینظیر بھٹو سے ناراض ہوتے چلے گئے مگر وہ غصہ جو پیپلز پارٹی کے خلاف سندھ کے مردوں کے دل میں پلا اس غصے سے سندھ کی عورت لاتعلق رہی۔ سندھ کی عورت نے پیپلز پارٹی سے سیاسی نہیں بلکہ ذاتی رشتہ نبھایا ہے۔ سندھ کی عورت نے نعرے نہیں سنے۔ سندھ کی عورت نے سیاسی حساب کتاب نہیں کیا۔ سندھ کی عورت نے عقل اور سمجھ سے کام نہیں لیا۔ سندھ کی عورت نے پیپلز پارٹی کو بطور سیاسی جماعت بھی نہیں دیکھا۔ سندھ کی عورت نے صرف بھٹو خاندان کو دیکھا ہے۔ سندھ کی عورت نے بھٹو خاندان کا درد محسوس کیا ہے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی تب سندھ کی عورت نے روکر دہائی دی تھی کہ ’’ہائے! بھٹو صاحب کی بیٹی یتیم ہوگئی‘‘ وقت تبدیل ہوگیا۔ وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا۔ مگر پیپلز پارٹی اور سندھی عورت کا تعلق ختم نہ ہو پایا۔ یہ ایک عجیب اور انتہائی داخلی قسم کا رشتہ ہے۔ اس رشتے میں عقل کم اور عشق زیادہ ہے۔ اس رشتے کا پیپلز پارٹی کو ہمیشہ فائدہ حاصل ہوتا رہا ہے۔ یہ ہی سبب تھا کہ جب بینظیر بھٹو اسلام آباد کی بے وفا فضاؤں میں اپنے دل درد سے بھر ہوا محسوس کرتی تھیں جب انہیں سیاسی تنہائی گھیر لیتی تھی تب وہ سندھ کا رخ کرتی تھیں اور اجرک کی چادر اوڑھ کر سندھ سے مخاطب ہوتی تھیں کہ ’’میں آپ کی بہن ہوں‘‘ اور اگر سندھ کے مرد اس پر تنقید بھی کرتے تو سندھ کی عورتیں کہتیں کہ ’’چھوڑو بچاری یتیم ہے‘‘ سندھ کی عورت نے بینظیر کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا۔ جب آئی جے آئی بنی تھی اور سندھ میں غلام مصطفی جتوئی کی قیادت میں وڈیرے منظم ہوکر میدان میں اترے تھے اور جس وقت بینظیر کو شکست دینے کے لیے ان سب نے حلف لیا تھا اس وقت بھی جب دیہاتوں سے بیلٹ باکس کھلے تو اس میں ’’تیر‘‘ کے نشان پر ٹھپے زیادہ تھے۔ جب وڈیروں سے شکایت کی گئی اور وڈیروں نے اپنے قبیلوں سے پوچھا کہ بینظیر کو ووٹ کس نے ڈالے؟ تب انہوں نے قسم اٹھا کر کہا کہ سائیں! قرآن سر پر رکھو ہم نے بینظیر کو ووٹ نہیں دیے مگر ہماری عورتوں نے ہمارے روکنے کے باوجود بینظیر کو ووٹ دیے۔ وہ کہتیں ہیں کہ ’’ووٹ بھٹو کا ہے‘‘ اس کے پاس اپنے اس موقف کو ثابت کرنے کے لیے عجیب افسانے ہیں۔ پیپلز پارٹی جانتی ہے کہ اب بھی سندھ کی عورتوں کا ووٹ اس کی طرف آئے گا۔ اس لیے وہ سندھی عورت کی اداس اور غمگین نفسیات کا فائدہ اٹھانے کے لیے بلاول کے نام کے ساتھ نہ صرف ’’بھٹو‘‘ جوڑا ہے بلکہ اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ اسے دیکھ کر بینظیر بھٹو یاد آجائے۔ سندھ کے مرد بلاول کے حوالے سے عجیب باتیں کرتے ہیں اور اس کو تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں اور وہ باتیں سن کر سندھی عورتیں متاثر ہونے کے بجائے محبت بھرے لہجے میں اپنے مردوں سے کہتی ہیں کہ ’’ارے ! بچارا چھوٹا تھا تو یتیم ہوگیا۔ دیکھو نہ اس کی آنکھوں میں اب تک ماں کا درد کس قدر چھلکتا ہے۔ تم مرد ماں کا دکھ کیا جانو!!؟‘‘ ایسی باتیں سیاسی نہیں ہیں مگر یہ سیاست کو متاثر کرتی ہیں۔اگر سندھ میں آج تک پیپلز پارٹی سیاسی طور زندہ اور طاقتور ہے تو اس کا سبب سندھ کا مرد نہیں بلکہ سندھ کی عورت ہے۔ وہ عورت آج بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ وہ عورت پیپلز پارٹی کا ساتھ اس لیے نہیں دے رہی کہ پیپلز پارٹی نے ’’بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام‘‘ شروع کیا تھا۔ سندھ کی عورت کا پیپلز پارٹی سے پیسے کا نہیں بلکہ پیار کا رشتہ ہے۔وہ رشتہ بہت مضبوط ہے۔ اس رشتے کو ختم کرنے کی کوشش سندھ کے ترقی پسندوں اور قوم پرستوں نے بھی کی مگر وہ بھی ناکام رہے۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں اس بات کا فائدہ بھی اٹھایا ہے کہ اس نے اپنے نعم البدل کو پیدا ہونے نہیں دیا۔ آصف زرداری نے تو ہر مخالف کو پیپلز پارٹی میں شامل کیا ہے مگر اس وقت وہ سخت دباؤ میں ہیں جب عمران خان کی صورت انہیں اندرون سندھ میں سخت سیاسی مخالفت کا سامنا کرنا ہوگا۔ عمران خان کے ساتھ صرف لیاقت جتوئی جیسے سیاستدان نہیں ۔ عمران خان کی پارٹی میں شامل ہونے کا اعلان کرنے کے لیے وہ بہت سارے وڈیرے منتظر ہیں جن کے پاس انتخابات میں خرچ کرنے کے لیے پیسہ بھی ہے اور جو اپنے علاقہ میں پاور بھی رکھتے ہیں۔عمران خان سندھ کے محروم وڈیروں سے مل کر ایک بہت بڑی قوت بن سکتے ہیں۔ عمران خان میں سیاسی طور پر کرزما بھی ہے اور ان کے لیے مشہور ہے کہ وہ نوجوانوں اور عورتوں میں مقبولیت رکھتے ہیں۔ ان کی اس خوبی کا اندازہ ان کے جلسے دیکھ پر بھی ہوتا ہے۔ ان جلسوں میں جس طرح خواتین جذبے اور فخر سے شریک ہوتی ہیں؛ اس سے عمران خان کے مخالف بہت جلتے بھی ہیں۔کراچی کا اپنا مزاج ہے۔ کراچی کی اپنی سوچ اوراپنی نفسیات ہے۔ ممکن ہے کہ کراچی (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں) میں خواتین کا ووٹ عمران خان کی جیت کا سبب بن جائے۔ مگر عمران خان کو اس بات کا یقین کرلینا چاہئیے کہ اسے سندھ میں سندھی عورتوں کا ووٹ نہیں ملے گا۔ اس کا سبب صرف اور صرف سندھی عورتوں کا بھٹو خاندان کے ساتھ وہ رشتہ ہے جو رشتہ سندھ کی عورت نے نسل درنسل نبھایا ہے۔ جب سندھی عورت بوڑھی ہوئی ہے وہ اس نے بھٹو خاندان کے اپنی محبت اپنی بیٹی کی دل میں منتقل کی ہے۔ یہ صورتحال پیپلز پارٹی ان سارے مخالفین کے لیے چیلنج ہے جو آج ’’جے ڈی اے‘‘ کی صورت میں پیپلز پارٹی کے خلاف تقریریںکر رہے ہیں اور کل پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کے لیے تحریک اںصاف بھی میدان میں اترے گی۔ مگر مشکل ہے کہ اس بار بھی مخالفین سندھی عورت کے دل سے پیپلز پارٹی کی حمایت ختم کرپائیں۔