انتہا پسند گروہ ہمارے ہاں کسی نا کسی شکل میںہمیشہ موجود رہے ہیں۔سرد جنگ عروج پر تھی تو بائیں بازو کے cultکے مقابلے میں مذہبی عناصر سر گرم رہتے۔ مذہبی انتہا پسند پاکستانی سوشلسٹوں کو’لادین‘ اور روسی ایجنٹ کہتے۔جبکہ سوشلسٹ گروہ سے وابستہ انتہا پسند، مذہب پسندوں کو ’امریکی استعمارکا پٹھو ‘ کہہ کر پکارتے۔ دونوں متحارب گروہ مگر انتخابی میدان میںاپنی مقبولیت ثابت کرنے میں ناکام رہتے۔ بھٹو صاحب آندھی اور طوفان کی اُبھرے تو اسلام اور سوشلزم کا ’ہائبرڈ برینڈ‘ متعارف کروایا۔کئی سال بعد روسی فوجیں افغانستان میں اتریں تو جنرل ضیاء الحق کی افغان پالیسی کے نتیجے میں مذہبی جماعتوں کو سرکاری سرپرستی اور امریکی مالی امداد دستیاب ہو گئی۔افغانستان سے پسپائی کے بعد سوویت یونین کی سرحدیں سمٹیں تو پاکستان میں رہے سہے کمیونسٹ بھی بے سر وسامان ہو کر معدوم ہو گئے۔ سال 2001 ء میں عالمی حالات نے ایک بار پھر پلٹا کھایا۔ جنرل مشرف نے امریکی دبائو کے تحت متشدد مذہبی جتھوں کے خلاف عسکری کاروائی کا آغاز کیا تو زندگی کے مختلف شعبوں میں سرائیت کر جانے والے مذہبی انتہا پسند ان کی جان کو آگئے ۔ سیکیولرطبقہ کم از کم ابتداء میں لبرل فوجی آمر کی پرجوش مخالفت سے گریزاں رہا تا آنکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ابتدائی گرم جوشی کے بعد پاک امریکی تعلقات باہم بدگمانی کا شکار ہوگئے۔ مشرف کے بعد سویلین حکومت قائم ہوئی تو بھی امریکی پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو ہی خطے میں اپنے احداف کے حصول میں رکاوٹ سمجھتے رہے۔ پاکستان کے اندر بائیں بازو کی طرف جھکائو رکھنے والی علاقائی جماعتیں تو روز اول سے ہی پختون پٹی میں خون ریزی کے لئے پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام ٹھہراتی چلی آ رہی تھیں،امریکی ایماء پر متحرک ہونے والے انتہا پسند لبرلز بھی اب وہی زبان بولنے لگے تھے۔نتیجے میں انسانی آزادیوں، بنیادی حقوق اور سویلین حکمرانی کے دلکش نعروں سے لیس مغرب زدہ لبرلز اورمذہب کے نام پر خون ریزی کرنے والے انتہا پسند بھی باہم متضاد نظریات کے باوجود پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت میں ہم آواز ہو گئے ۔ گزرتے برسوںیہ حادثاتی اتحاد منظم نیٹ ورک میں بدل گیا۔شریف خاندان حال ہی میں نظریاتی ہوا تو مولانا فضل الرحمٰن اس ہائبرڈ جنگ کا استعارہ بن کر سامنے آئے۔مغرب زدہ لبر لز مولانا کے مداح ہر گز نہیں، تاہم پی ڈی ایم کی تحریک میں ان کی امیدیں مولانا کے خاکی پوش لشکر اور دینی مدرسوں کے طلباء کے جتھوںسے ہی وابستہ رہیں۔ صرف مولانا کو ہی نہیں،ماضی قریب میں ایک سابق جج صاحب کو بھی یہی ممتاز مقام حاصل رہا ہے۔ ایک قانون دان سے زیادہ جن کی افتاد طبع ایک سیاسی کارکن (Activist) کی بتائی جاتی تھی۔مبینہ طور پر جسٹس افتخار چوہدری کی وساطت سے ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے اور انہی کی روش اپناتے ہوئے اپنے عدالتی ریمارکس کے ذریعے میڈیاکی شہہ سرخیوں میں رہتے ۔ جج صاحب کے کئی فیصلے جہاں مخصوص مذہبی حلقوں میں پسندیدگی سے سنے اور سراہے جاتے تو وہیں مغرب زدہ لبرلز کو سخت ناگوار گزرتے۔تاہم لبرلز کی ناراضگی اس وقت دور ہو جاتی جب آپ افواج پاکستان سے اکثر’ خصوصی شفقت‘ کا مظاہرہ فرماتے۔ ایک روز وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے پھٹ پڑے تو سوشل میڈیا پرلبرل اور مذہبی انتہا پسندوں نے مل کر ہاتھوں ہاتھ لیا۔سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت درج ہوئی تو وہاں بھی قانونی دلائل کی بجائے الزامات کا سہارا لیا اور مقدمہ ہار گئے۔معزول جج صاحب کے اسی مئوقف کو اب باپ بیٹی اپنے خلاف مالی بد عنوانی کے مقدمات میں ریلیف کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔چنانچہ ایک خاص صحافی کی جانب سے ہر پیشی کے بعد عدالت کے باہرخاتون سے کوئی ایک معنی خیز سوال پوچھا جاتا ہے اور طے شدہ شعلہ بیانی کے بعدسیاسی افق پر کسی طوفان کی امید باندھی جاتی ہے ۔تاہم اندازہ یہی ہے کہ اکتوبر2020 ء میںجوطوفان میاں صاحب نے اپنی تقریروں کے ذریعے اٹھایا تھا، کراچی کے ساحل سے ٹکرا نے کے بعد اس کا زور ٹوٹ چکاہے۔ مریم نواز کی توجہ مگر اب بھی اپنے خلاف مقدمات کے قانونی پہلوئوں سے زیادہ ہیجانی کیفیت برپا کرنے پر مرکوزہے۔ یہ درست ہے کہ باپ بیٹی کے سامنے بقا کا کوئی دوسرا راستہ بچا بھی نہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا باپ بیٹی کو اندازہ ہے کہ اپنی ذاتی بقاء کے خاطر وہ کن خطرناک لکیروں کو چھو رہی ہیں؟ہونا تو یہ چاہیئے کہ آپ دستیاب عدالتی فورمز پر اپنا مئوقف پوری تندہی سے پیش کریں۔ ایک سے بڑا ایک وکیل خاندان کو دستیاب ہے۔ میڈیا کا ایک بے حد مئوثر حصہ آپ اور آپ کے وکیلوں کی ہمہ وقت دسترس میں ہے۔ لوئر کورٹس کی طرف سے آپ کو دی گئی سزائوں پر اپیل بھی آپ کی طرف سے دائر کی گئی، اور بظاہر کاروائی پر تاخیری حربے بھی اب آپ کی طرف سے ہی استعمال ہو رہے ہیں۔ملک میں اہم عہدوں پر نئی تقرریوں کی باز گشت ایک گزشتہ چند روز سے سنائی دے رہے تھی ۔ ایک تاثر ہے کہ صاحبزادی کی طرف سے یوں اچانک جو شعلہ نوائی میں اضافہ ہوا ہے، وہ محض اتفاق نہیں ہے۔ محترمہ نے میڈیا ٹاک سے ذریعے جو شہرت کمائی ہے ، وہ ہر گز ایک مدّبر سیاسی رہنما کی نہیں ہے۔ ہم نے انہیںکسی معتبرمیڈیا یا پبلک فورم پرکسی جانبدار صحافی یا ماہرین کے پینل کے سامنے بیٹھ کر کبھی عالمی اور پیچیدہ ملکی معاملات پر سنجیدگی کے ساتھ اظہار رائے کرتے ہوئے نا تو دیکھا نا ہی سُنا۔ مریم صاحبہ کوپہلے سے طے شدہ میڈیا ٹاکس میں مخصوص چہروں کی طرف سے پوچھے گئے پلانٹڈ سوالات کے ’جوابات‘ کی صورت پست درجے کی جملہ باری سے اوپر اٹھنا ہو گا ۔ اب تک ان کی چاند ماری کا نشانہ چند مخصوص سیاسی یا سابق ادارہ جاتی شخصیات ہی رہی ہیں۔ عمران خان نے تو ہمیشہ ان کو نظر انداز کیا لیکن اگرچاہیں تو ان کو اسی زبان میں دو قدم بڑھ کر جواب دے سکتے ہیں۔ تاہم حال میں جس’ شخص‘ کے متعلق آپ نے زبان درازی کا سلسلہ شروع کیا ہے، کیا اس سے ہم توقع کر سکتے ہیں کہ وہ آپ کی سطح پر اتر آئے ؟یاد رکھیں، جس ’شخص‘ کو آپ نے سر عام تضحیک کا نشانہ بنانے کا آغاز کیا ہے، چند روز کے بعد اپنی نئی حیثیت میں وہ ہزاروںافسروں اور جوانوں کو آپریشن ایریا میں کمانڈ کر رہے ہو ں گے۔یہ وہی آپریشنل ایریا ہے جہاں دن رات ہمارے سپوت خون بہاتے ہیں۔کیا آپ کو رد عمل کا ادراک بھی ہے؟ انتہا پسند گروہوں کے لئے باپ بیٹی کی ہرزہ سرائیاں خوش کن موسیقی سے کم نہیں ہیں۔ انتہا پسندوں کی بات مگر کچھ اور ہے، تاہم حالات کے ہاتھوں ستائی ہوئی معتدل مزاج اکثریت سے وابستہ ہم جیسے پاکستانی لا متناہی انتشار سے سخت بیزارہو چکے ہیں ۔ اب جا بجا بکھرے مقدمات کو کسی کنارے لگنا چاہیئے کہ انتشار اور انتہا پسندی کی دیمک ہمیں اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے۔