سندھ میں امن تو ہے مگر سکون نہیں ہے۔ بے سکونی کی یہ پہلی بوند سندھ کے شہر ٹنڈوالہیار پر پڑی۔ جب سندھ کی ایک لسانی جماعت سے تعلق رکھنے والے شخص نے مبینہ طور پر اپنے بھائی کا بدلہ لینے کے لیے اردو بولنے والے ایک شخص کا قتل کیااور پھرغافل سندھ حکومت کی نیندیںحرام ہوگئیں۔ اس واقعہ کے بعد حیدرآباد کے قریبی شہر ٹنڈوالہ یار میں احتجاجی لوگوں نے توڑ پھوڑ کی اور گاڑیوںکو جلانے لگانے کی کوشش کی۔ اس واقعہ کے بعد ٹنڈوالہ یار سندھی مہاجر تضاد کو ابھارنے والے شہر کے حوالے سے مشہور ہوا۔ قبل ازیں یہ شہر اپنی زرعی زرخیزی کے باعث سندھ میں شہرت رکھتا تھا۔ اس شہر میں سابق صدر آصف زرداری کے زرعی فارمزہیں۔ اس شہر میں زندگی سکون سے گزررہی تھی مگر سیاست کو سکون پسند نہیں ہے ۔وہ اس لئے بھی کہ اقتدار کی لالچی سیاست کو سکون سے فطری طور پر نفرت ہوتی ہے۔ ایم کیو ایم اپنے بانی سے بغاوت کرنے کے بعد سیاسی طور پر ایک ایسی جماعت نہیں رہی ‘جس کا زورماضی جیسا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ طاقت کم پڑجانے اور جبری طور پر پرامن کردار ادا کرنے کی وجہ سے ایم کیو ایم سیاسی طور پر ایک طرح کی فرسٹریشن کا شکار ہے۔ جب ہم ایم کیو ایم کا نام لے رہے ہیں تو فکری طور پر ان میں حقیقی اور پاک سرزمین پارٹی کو بھی شامل سمجھا جائے ۔ وہ وقت نہ معلوم کس طرح گزر گیا ‘جس وقت کی یاد بھی انسان کو اندر سے ہلادیتی ہے۔ وہ وقت جب سندھ کے شہروں اور خصوصی طور پر کراچی پر دہشتگردی کا راج تھا۔ بہت سخت تھا۔تب انسانی زندگی کی قیمت کچھ بھی نہیں تھی۔ بوری بند ملنے والی لاشیںاذیت ناک تھیں۔ تب راستوں پر گاڑیوں کاجلنا اور شہریوں کاخاموشی کے ساتھ لٹ جانا معمول تھا۔اس صورتحال کو یاد کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔تب نفرت اور لسانی سیاست نے سندھ سے زندگی کا حق چھین لیا تھا۔ اس وقت صرف سندھیوں کو ہی نہیں بلکہ عام مہاجروں کو بھی خوف محسوس ہوتا تھا۔ اس لیے جب سندھیوں اور اردو بولنے والوں کی بنیاد پر اپنی سیاسی دوکان چمکانے والوں نے ٹنڈوالہیار میں ہونے والے واقعہ کو سیاسی طور پر کیش کروانے کی‘ کوشش کی تو سوشل میڈیا پرلسانی سیاست کے خلاف نفرت کاسیلاب امڈ آیا۔ یہ اس وقت عام لوگوں کو جذباتی بناکر اپنے مذموم مقاصد میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ سندھی بولنے والوں نے اس بار جذباتی ہونے کے بجائے صبر اور تحمل سے کام لیتے ہوئے سندھ میں لسانی فسادات کی آگ بھڑکانے کا الزام پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پر لگایا ہے۔ کیوں کہ کراچی کے سابق میئر اور ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنما وسیم اختر نے ٹنڈوالہ یار واقعہ پر جذباتی ردعمل دیتے ہوئے تقریر میں کہا تھا: کہ ایم کیو ایم کے صبر کا غلط مطلب نہ لیا جائے۔ ہم پیپلز پارٹی کی وڈیرہ حکومت کو انتباہ کرتے ہیں اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو پھر ایسا نہ ہو وہ اندرون سندھ سے کراچی آنے والے وڈیرے ٹول پلازہ پر پہنچ کر اپنی ٹوپی نیچے رکھیں۔ وسیم اختر کی یہ تقریر کرنا تھی کہ سندھ میں پیپلز پارٹی نے ’’ٹوپی ڈرامہ‘‘ شروع کردیا۔ سندھ پر حکومت کرنے والی پارٹی نے اگلے روز اپنے تمام وزراء کو ہدایت کی وہ اپنے دفاتر میں سندھی ٹوپی پہن کر آئیں۔ اس طرح ٹوپی کی سیاست شروع ہوگئی۔ سوشل میڈیا پر پیپلز پارٹی اور اس کے ہمدرد حلقوں نے پوری شدت کے ساتھ ٹوپی کے حق میں مہم شروع کی مگر سندھ میں امن اور محبت کی فضا کے حامیوں نے پیپلز پارٹی کی اس سیاست کو ووٹ لینے کی مہم قرار دیا اور اس بات کو مشہور کردیا کہ جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں تب کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے کے بجائے لسانی سیاست کا سازشی جال بچھا دیا جاتا ہے اور اس میں سندھ کے سادہ لوگ آسانی کے ساتھ پھنس جاتے ہیں۔ اس بار بھی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے مل کرلوگوں کو’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘کی پالیسی پر عمل کرنے کی کوشش کی ۔جس کاڈراپ سین وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے ایم کیو ایم کا وہ احتجاجی مظاہرہ تھا جس پرپولیس نے دل کھول کر آنسو گیس کے شیل چلائے اور ڈنڈے برسائے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے اس عمل کوایک حد تک محدود رکھناچاہتی تھی مگر اس کو معلوم نہ تھا کہ اب سوشل میڈیا کا دور ہے اور اس دور میں کسی بھی عمل کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے۔ایم کیو ایم نے اپنے احتجاج پر ہونے والے پولیس ایکشن کوایشو بنانے کی بھر پورکوشش کی اور اپنے بانی کی منفی سیاست کے بعد انہوں نے پہلی بار وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے ہونے والے عمل کے ردعمل میں دوسرے دن یوم سیاہ کا اعلان کیا اور ایم کیو ایم کی پوری کوشش تھی کہ کافی وقت کے بعد اہلیان کراچی کو ایم کیو ایم کی یاد دلائی جائے مگر جن قوتوں نے بڑی محنت کے ساتھ کراچی کی صورتحال کو کنٹرول کیا ہے‘ انہوںنے ایک بار پھر کراچی کو بدامنی کے ہاتھوں میں دینے کی بھرپورمزاحمت کی ۔ اس طرح ایم کیو ایم کی پوری کوشش کے باوجود کراچی کے کاروباری مراکز اور بازار بند نہ ہوئے۔ متحدہ کو پس پردہ کنٹرول کرنے والی قوتوں کو یہ بھی منظور نہیں تھا کہ اس قسم کا ماحول ایک بار پھر پنپے۔ اس لیے لسانی سیاست کے نعرے لگانے والوں کو خاموش رہنے کی ہدایت دی گئی اور سندھی قوم پرستوں کے ساتھ ساتھ مہاجر قوم پرست بھی خاموش ہوگئے۔ پیپلز پارٹی کو یہ نیک مشورہ دیا گیا کہ وزیر اعلیٰ احتجاج میں زخمی ہونے والے ایم کیو ایم کے ایم پی اے کے گھر جائے اور انہیں ’’سوری‘‘ کہے۔وزیر اعلیٰ نے بغیرکوئی لمحہ ضائع کیے ناظم آباد کا رخ کیا اور اس عمل کی راہ میں ایم کیو ایم نے کسی بھی قسم کی رکاوٹ ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس طرح نفرت اور تشدد کا لسانی بم ناکارہ بنا دیا گیا۔ کیا یہ واقعہ ثابت نہیں کرتا کہ اگر امن کی چاہت ہو تو امن کی راہ میںکوئی رکاوٹ نہیں آ سکتی؟اگر ماضی میں بھی ایسے اقدام اٹھائے جاتے تو کتنے لوگ زندگی سے محروم ہونے سے بچ جاتے۔ کیا ہمارا ماضی قابل افسوس ہے؟ اس بار سندھ کے شہروں میں لسانی فسادات کے منصوبے کو تو ناکام کیا گیا مگر اس واقعہ اور چند روز پیدا ہونے والے تناؤنے ہمیں اس بات کا احساس تو بہرحال دلادیا ہے کہ وہ تضاد ہمارے معاشرے میںاب تک موجود ہے جس تضاد کو ہوا دے کر کبھی بھی آگ کا شعلہ بنانے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ سندھی اور مہاجر تضاد کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ دونوں آبادیاںزندگی کی بنیادی ضروریات کے لیے پریشان ہیں۔ دونوں آبادیوں کے مسائل حل ہوناچاہئیں۔ کرپشن کی سیاست مسائل حل کرنے کے بجائے ایک نیا اور بڑا مسئلہ پیدا کردیتی ہے ۔سندھی اور اردوبولنے والے اپنی زندگی کے حقیقی مسائل حل کرنے کے بجائے سندھی مہاجر سوال پر سوچنے لگتے ہیں۔