سڑک اس وقت بالکل سنسان تھی لیکن جب میں نقاب پوش کر پکڑنے کی کوئی دوسری تدبیر سوچ ہی رہی تھی کہ مجھے سامنے سے ایک کار آتی نظر آئی ۔ زیادہ فاصلے کی وجہ سے وہ بہت چھوٹی سے نظر آئی تھی لیکن یہ دکھائی دے گیا تھا کہ وہ سفید تھی ۔ مجھے فوراً خیال آیا کہ اس میں کیپٹن جمال بھی ہوسکتا ہے ۔ میری ذہنی رو دوسری طرف چلی گئی ۔ یہ چانس لیا جاسکتا تھا کہ کیپٹن جمال اپنی کار رانگ سائڈ پر لے آئے ، یعنی نقاب پوش کی کار کے سامنے ! اسی طرح وہ نقاب پوش کی کار کا راستہ روک سکتا تھا ۔ میرے موبائل کی گھنٹی بج اٹھی ۔ نمبر اجنبی تھا لیکن میں نے کال ریسیو کی ۔ ’’ یس! ‘‘ ’’ کمانڈر !‘‘ دوسری طرف سے مردانہ آواز آئی ۔ ’’ میں جمال بول رہا ہوں ۔آپ اس وقت کہاں ہیں ؟‘‘ وہ میری کار نہیں پہچانتا تھا لیکن میرے موبائل نمبر سے واقف تھا ۔ میں جب کمانڈر کے منصب پر پہنچی تھی تو ہر کیپٹن کو میرا نمبر بتایا جاچکا تھا ۔ ’’ میں اسی کار کے برابر کی کار میں ہو ںجسے روکنے کے لیے تمہیں ہدایت کی گئی ہے ۔‘‘ ’’ مجھے یہی شبہہ ہوا تھا ۔ ‘‘ جمال نے کہا‘ پھر بولا ۔ ’’ اسی چاکلیٹی کار کو روکنا ہے؟‘‘ ’’ ہاں۔‘‘ میں نے جواب دیا ۔ میرا یہ خیال صحیح ثابت ہوا تھا کہ وہ سفید کار کیپٹن جمال کی تھی ۔ ’’ میں گولی چلا کر اس کار کا ایک ٹائر پھاڑ دوں ؟‘‘ ’’ یہ کام میں بھی کرسکتی تھی ۔ ‘‘ میں نے جھنجلا کر کہا ۔’’ اتنی تیز رفتار کار کا ٹائر پھٹے گا تو وہ حادثے کا شکار ہوجائے گی ۔ اسے ڈرائیو کرنے والا مر بھی سکتا ہے ۔ میں اسے زندہ پکڑنا چاہتی ہوں کیپٹن جمال !‘‘ ’’ بہتر ہے ۔ آپ اپنی کار اس کے برابر میں رکھیے۔میں اپنی کار اس کار کے سامنے لاتا ہوں ۔ حادثے سے بچنے کے لیے وہ رک سکتا ہے ۔ ‘‘ ’’ میں یہی چاہتی ہوں ۔ ‘‘ ’’ او کے کمانڈر!‘‘ دوسری طرف سے رابطہ منقطع کردیا گیا ۔ ’’ بے وقوف شخص!‘‘ میں نے چاکلیٹی کار ڈرائیو کرنے والے سے کہا ۔ ’’ میں نے اگر تمہاری کار کا ٹائر نہ پھاڑا تو بھی تم بچ نہیں سکتے ۔ میں تمہارا پیچھا نہیں چھوڑوں گی ۔ ‘‘ میری اس بات کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا ۔ وہ پریشان تو نظر آنے لگا تھا لیکن اس نے اپنی کار کی رفتار کم نہیں کی ۔ میں نے دیکھا کہ سفید کار بہ تدریج اپنا ٹریک بدل کر چاکلیٹی کار کے ٹریک پر آتی جارہی تھی ۔ ’’ پاگل آدمی !‘‘ میں پھر بولی ۔ ’’ ایک سفید کار تمہارے ٹریک پر آچکی ہے ۔ اگر تم نہیں رکو گے تو حادثہ ہوجائے گا ۔ سفید کار والا بھی شاید پاگل ہی ہے جو تمہارے ٹریک پر آگیا ہے ۔ یہ کہنے سے میرا مقصد یہ ظاہر کرنا تھاکہ سفید کار کی موومنٹ میرے اشارے پر نہیں تھی ۔ میں نے مزید کہا ۔ ’’ تم دونوں ہی مارے جائو گے ۔ ‘‘ میں نے اسے ’’ پاگل‘‘ کہہ کر مخاطب کیا تھا اور اس نے پاگل پن ہی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی کار کی رفتار کم نہیں کی ۔ سفید کار اب معمول کی رفتار سے آگے بڑھتی چلی آرہی تھی ۔ میں نے اپنی کار چاکلیٹی کار کے برابر میں ہی رکھی اور اپنی رفتار بھی اس سے کم یا زیادہ نہیں کی ۔ اسپیڈ میٹر کی سوئی ایک سو دس کے ہندسے پر لرز رہی تھی ۔ چند سیکنڈ بعد ہی میرے دانت ، دانت پر جم گئے ۔ اب اگر چاکلیٹی کار کی رفتار کم بھی کی جاتی تو یک لخت کم نہیں ہوسکتی تھی ۔ اور اس صورت میں سفید کار سے اس کا تصادم یقینی تھا ۔ کیپٹن جمال نے بھی سمجھ لیا کہ چاکلیٹی کار والا مارنے اور مرجانے پر تل گیا ہے ۔ اس نے اپنی کار کسی حد تک تیزی سے اپنی بائیں جانب کاٹی اور اس ٹریک پر آگیا جس پر میری کار تھی ۔ میں نے جمال کا ارادہ بھانپتے ہی اپنی کار کی رفتار کم کی تھی اور چاکلیٹی کار کے پیچھے ہوگئی تھی ورنہ جمال کی کار میری کار سے ٹکرا سکتی تھی۔ چاکلیٹی کار زناٹے کے ساتھ جمال کی کار کے برابر سے آگے نکل گئی اور اس کے بعد میں نے بھی جمال کی کار کو پیچھے چھوڑ دیا ۔ ساتھ ہی میں نے بیک مرر میں دیکھا کہ جمال اپنی کار روک رہا تھا ۔ میں نے آگے جاتی ہوئی چاکلیٹی کار کی طرف دیکھتے ہوئے دانت پیسے لیکن غصے میں یہ حماقت نہیں کی کہ اس کے ٹائروں پر گولیاں برسادیتی ۔ سامنے سے آتی ہوئی ایک سوزوکی میری اور چاکلیٹی کار کے برابر سے گزر گئی ۔ ایسا نہیں تھا کہ سڑک پر مکمل سناٹا ہو ۔ اِکا دُکا گاڑیاں گزر رہی تھیں ۔ میرے پیچھے اور کاریں بھی ہوں گی جو میری تیز رفتاری کے باعث قریب نہیں آئیں ۔ ایک کار میں دیکھ ہی چکی تھی جسے ڈرائیور کرنے والے پر مجھے فرار ہونے والے شخص کا شبہہ ہوا تھا ۔ میں نے ایک جملہ کہہ کر اسے چھیڑا بھی تھا ۔ ایسی صورت میں یہ امکان تھا کہ اس نے میرے پیچھے آنے کی کوشش کی ہو لیکن وہ اپنی رفتار اس حد تک نہیں بڑھا سکتا تھا جس رفتار سے میں کار چلا رہی تھی ۔ رفتار بڑھا کر میں پھر چاکلیٹی کار کے پہلو میں جانا چاہتی تھی ۔ اس وقت مفرور نے ایک ایسی حرکت کی جو میرے لیے غیر متوقع تھی ۔ اس نے اپنی کار دائیں جانب کاٹتے ہوئے میری کار کو دبانا چاہا تھا ۔ مجھے بریک لگانے پڑے ورنہ میری کار کا بایاں ہُڈ اس کے پچھلے حصے سے ٹکرا جاتا ۔ ’’ کم بخت کیا مرنا ہی چاہتا ہے ۔ ‘‘ میں بڑبڑائی ۔ اگر میں فائر کرکے اس کی کار کا ایک ٹائر بھی پھاڑ دیتی تو وہ حادثے کا شکار ہوجاتا اور اس حادثے میں مر بھی سکتا تھا ۔ میں نے بیک مرر میں دیکھا کہ جمال کی سفید کار اب میرے پیچھے آرہی تھی لیکن بہت دور نظر آئی تھی ، البتہ دھیرے دھیرے شاید وہ اپنی رفتار بڑھا رہا تھا ۔ اس کا یقین مجھے ایک منٹ بعد ہوا جب درمیانی فاصلے میں کمی آئی ۔ میری کار کی رفتار ایک سو دس میل سے کچھ کم تھی اس لیے وہ میرے قریب بھی آسکتا تھا لیکن اگر میں ایک سو ستر میل کی رفتار سے کار چلا رہی ہوتی تو وہ ہر گز میرے قریب نہیں پہنچ پاتا ۔ میرے محکمے کے ہر کیپٹن کو انتہائی تیز رفتاری سے کار چلانے کی تربیت دی جاتی ہے لیکن جو مہارت مجھے حاصل ہوگئی تھی ، وہ میرے علم کے مطابق میرے محکمے کے کسی کیپٹن کو حاصل نہیں تھی۔ میں نے ایک بار پھر چاکلیٹی کار سے آگے نکلنے کی کوشش کی لیکن اس بار بھی اس نے میری کار کو دبایا اور مجھے اپنی رفتار کم کرکے تصادم سے بچنا پڑا ۔ میں اس کے آگے اس لیے نکلنا چاہتی تھی کہ پھر اپنی رفتار بہ تدریج کم کرتی تو وہ بھی اپنی رفتار کم کرنے پر مجبور ہوجاتا ۔جمال کے معاملے میں اس نے ایسا نہیں کیا تھا ۔ اس نے غالباً یہ سوچا ہوگا کہ سفید کار والا خود ہی گھبرا کر اس کے سامنے سے ہٹ جائے گا اور ہوا بھی یہی تھا ۔ آخر اس سے آگے نکلنے کے لیے مجھے ایک تدبیر پر عمل کا فیصلہ کرنا پڑا ۔ صدف نے کس تدبیر پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا تھا ؟ کل کے روزنامہ 92 میں ملاحظہ فرمائیں!