بانو کی اس بات پر مجھے یوں لگا جیسے میرے سر پر بم پھٹ گیا ہو۔ ’’کیا؟‘‘ میں تقریباً اچھل پڑی تھی۔ ’’ہاں‘‘ بانو پرسکون نظر آئیں۔ ’’وہ لوگ جانتے تھے کہ ہم نے ہر راستہ بلاک کردیا ہوگا۔ ان کے خود کش بم بار پگارا صاحب کے گھر تک نہیں پہنچ سکیں گے لہٰذا انھوں نے فضاسے حملے کا پروگرام بنایا۔‘‘ ’’تو اب کیا ہوگا؟‘‘ میں پریشان ہوگئی۔ ’’دیکھو کیا ہوتا ہے؟‘‘ ’’یعنی… یعنی کہ… میں ہکلا سی گئی اور پھر جلدی سے بولی۔ ’’وہ پگارا صاحب کے گھر تک پہنچنے ہی والا ہے۔اوہ! خاصابڑا ہیلی کوپٹر ہے۔‘‘ ’’ہوں‘‘ بانو پرسکون رہیں۔’’کیا تم ہیلی کوپٹر کے اندر کا منظر دیکھنا پسند کروگی؟‘‘ ’’یہ ممکن ہے؟‘‘ میں حیران ہوئی۔ بانو نے جواب دینے کی بہ جائے اسکرین کے نیچے جو بٹن وغیرہ تھے ان میں کچھ کیا اور میری اسکرین پر ایک منظر آگیا۔ ہیلی کوپٹر کا اندرونی منظر! منظر دکھانے والا کیمرا عقب میں تھا اس لیے پائلٹ کی پشت دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے برابر کی سیٹ پر کوئی نہیں تھا۔ اس کے عقب میں تین نشستیں تھیں جن میں سے ایک خالی تھی۔ دو پر جو آدمی بیٹھے تھے، ان کی بھی پشت نظر آرہی تھی۔ پشت بھی کیا، صرف سر اور شانے دکھائی دے رہے تھے۔ ہیلی کوپٹر کے انجن کی آواز بھی سنائی دینے لگی تھی۔ ’’یہ دونوں خودکش بم بار ہیں۔‘‘ بانو نے کہا۔ میری سانس ناہم وار ہوگئی۔ ’’اب ایک منٹ بھی نہیں لگے گا کہ یہ پگارا صاحب کے گھر کے عین اوپر ہوگا۔‘‘ ’’ایک منٹ سے بھی کم وقت لگنا چاہیے۔‘‘ ’’اس میں کیمرا کیوں لگا ہوا ہے؟‘‘ ’’لگوایا ہے میں نے!‘‘ ’’آپ نے؟‘‘ میری حیرت میں اضافہ ہوا۔ ’’ہاں۔‘‘ ’’آخر کیا بندوبست کیا ہے آپ نے؟‘‘ بانو نے جواب نہیں دیا تھا کہ اسکرین کے اسپیکر سے آواز آئی۔ ’’اب تیار ہوجائو۔ ہم پہنچنے ہی والے ہیں۔ میں تمھاری طرف کا دروازہ پورا کھول دوں گا۔ تم دونوں کو ساتھ ہی کودنا ہے۔‘‘ بانو بولیں۔’’یہ پائلٹ کی آواز ہے۔‘‘ دونوں مبینہ بم بار بہ یک وقت کچھ بولے تھے لیکن ان کی آوازیں اتنی دھیمی تھیں کہ الفاظ صاف نہیں سنائی دیئے تھے۔ شاید انھوں نے کہا ہو کہ وہ تیار ہیں۔ میرے جسم میں سنسناہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ بانو نہ جانے کیا کچھ کرلیتی تھیں، اور اب نہ جانے کیا کچھ ہونے والا تھا۔ ’’اب میں دروازہ کھولنے والا ہوں۔‘‘ پائلٹ کی آواز پھر سنائی دی۔ ’’کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘ ایک نئی آواز سنائی دی اور ریوالور لیے ہوئے دو ہاتھ نظر آئے۔ ریوالوروں کی نالیں دونوں بم بار کی کھوپڑیوں سے لگ گئیں۔ پائلٹ نے چونک کر پیچھے دیکھا تو ایک اور ہاتھ نظر آیا۔ اس ہاتھ میں بھی ریوالور تھا جو پائلٹ کی پیشانی سے جالگا۔ اب ان دونوں آدمیوں کے سراور شانے بھی نظر آرہے تھے جنہوں نے بم باروں اور پائلٹ کو زد پر لے لیا تھا۔ ’’اب ہیلی کوپٹر پگارا صاحب کے گھر سے آگے نکل چکا ہوگا۔ اب تم اس کا رخ اس طرف موڑو گے جس کا حکم تمہیں مجھ سے ملے گا۔‘‘ ’’نہیں۔‘‘ ہیلی کوپٹر میں ایک اور آواز گونجی۔ بانو نے میری طرف دیکھتے ہوئے تیزی سے کہا۔ ’’یہ اسی شخص کی آواز ہے جس سے میں نے ڈائری کے سلسلے میں بات کی تھی۔‘‘ وہ آواز سنائی دیتی رہی تھی۔ اس نے حکم دیا تھا کہ دونوں بم بار خود کو اڑالیں۔ بانو نے مجھ سے کہا۔ ’’وائرلیس پر اس کا رابطہ ہے ہیلی کوپٹر سے۔‘‘ ہیلی کوپٹر میں ریوالور والوں میں سے کوئی ہنسا۔ ’’یہ بھی نہیں ہوسکے گا۔جو بھی بول رہا ہے، وہ سن لے کہ ہیلی کوپٹر میں جیمرز بھی لگادیے گئے ہیں۔‘‘ اس دوران میں ان بم باروں نے خود کو اڑانے کی کوشش بھی کی تھی لیکن ناکام رہے تھے۔ ’’یہ دو آدمی ہیں۔‘‘ پائلٹ نے وائرلیس پر بولے جانے والے کو بتایا۔‘‘ اور ان کے ریوالور ہمارے سروں پر لگے ہوئے ہیں۔ جیکٹس بھی ناکارہ ہوچکی ہیں جیمرز کی وجہ سے۔‘‘ غصے میں کچھ عجیب سی آواز سنائی دی۔ پھر کہا گیا۔ ’’اس مکار عورت کے ایجنٹ ہیلی کوپٹر میں کیسے آگئے؟‘‘ ’’میں کیا بتاسکتا ہوں۔‘‘ بانو نے اسکرین کی طرف جھکتے اور ایک بٹن دباتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے کہا تھا نا کہ تمہیں ناکامی ہوگی۔ شکست کھائو گے تم؟‘‘ بانو کی آواز ہیلی کوپٹر میں گونجی تھی۔ کچھ توقف سے وائرلیس پر بولنے والے نے غرا کر کہا۔ ’’تم بھی ہو اس ہیلی کوپٹر میں!‘‘ لہجے میں کچھ حیرت تھی۔ ’’نہیں۔‘‘ بانو کی آواز ہیلی کوپٹر میں گونجی۔ ’’میں کہیں اور ہوں۔‘‘ ’’تمھاری کار اس وقت پگارا ہائوس کے قریب کھڑی ہے۔‘‘ ’’میں جانتی ہوں کہ تمہیں اس کا علم ہوگا۔‘‘ بانو نے کہا۔ ’’کار کی مسلسل نگرانی کی گئی ہے۔ میں اسی کار سے بول رہی ہوں۔‘‘ ’’تمھارے آدمی ہیلی کوپٹر میں کیسے پہنچ گئے؟‘‘ ’’کیا ایسی باتیں کوئی اپنے دشمن کو بتاتا ہے؟‘‘ بانو نے کہا۔ ’’تم بھی مجھے نہیں بتائو گے کہ تم نے میاں ڈنشا کا ہیلی کوپٹر کن ذرائع سے حاصل کیا ۔ خیر!…چھوڑو یہ باتیں! میری شرط یہی تھی کہ تم اپنی سی کر دیکھو۔ تمہیں شکست دینے کے بعد وہ ڈائری اب تمہیں مل جائے گی۔‘‘ ’’تمھاری یہ کار کیا کیا تماشے دکھاسکتی ہے؟‘‘ ’’اگر ڈائری لینے کے بعد بھی تم مجھ سے تصادم کرو گے تو یہ کار تم لوگوں کو کچھ اور تماشے بھی دکھائے گی۔‘‘ ’’میں نے ابھی شکست نہیں کھائی ہے۔‘‘ غرانے والے انداز میں کہا گیا اور پھر اس نے پائلٹ کو مخاطب کرکے کہا۔ ’’پائلٹ کا رخ موڑو اور اسے پگارا کے گھر کے صدر دروازے سے ٹکرادو۔‘‘ ’’اس سے پہلے ہی یہ لوگ ہمیں گولی سے اڑا دیں گے۔‘‘ پائلٹ کا جواب تھا۔ ’’اس صورت میں ہیلی کوپٹر بھی تباہ ہوگا۔ یہ دونوں جو تم لوگوں کو ریوالور کی زد پر لیے ہوئے ہیں، یہ جہنم رسید ہوجائیں گے اور تم تینوں کا ٹھکانا تو جنت میں ہوگا۔‘‘ آخری جملے سے ظاہر ہوا کہ پائلٹ بھی طالبان میں سے تھا۔ کیا پائلٹ کو گولی ماری گئی؟ کل کے روزنامہ 92 نیوزمیں پڑھیئے!