جو خیال مجھے آیا تھا ، وہ غلط ہی ثابت ہوا ۔ جونی کے جواب سے عماد کو بھی مایوسی ہوئی ہوگی ۔ جونی نے کہا تھا ۔ ’’ مسز راحت نے پہلی ہی ملاقات میں مجھ سے موبائل لے کر اپنی تصویر ڈیلیٹ کردی تھی ۔ ‘‘ عماد کو مایوس کرنے والا یہ جواب میرے لیے بھی مایوس کن تھا ۔ ’’ کب ملے تھے تم اس سے ؟‘‘ عماد نے پوچھا ۔ ’’ کہاں ملے تھے؟‘‘ ’’ اسی کے گھر پر ۔ ‘‘ جونی نے جواب دیا ۔ ’’ اس نے واٹس ایپ پر مجھ سے کہا تھا کہ وہ ایک دن بعد مجھے اپنے گھر بلائے گی اور اپنی این جی او کے چند سرکردہ افراد سے ملائے گی ۔ پھر دوسرے دن بھی اس نے مجھے فون کیا اور اپنی آرگنائزیشن کی سوشل کارکردگی کے بارے میں بتاتی رہی ۔ پھر اس سے اگلے دن شام کو اس نے مجھے اپنا پتا بتایا اور کہا کہ فوراً ٹیکسی کرکے وہاں پہنچو ۔ میں بہت خوش تھا کہ اب میری ساری پریشانیاں ختم ہوجائیں گی ۔ میں ٹیکسی کرکے اس کے گھر پہنچ گیا جو بہت شان دار ہے۔ ‘‘ ’’ تو وہ بھی کراچی میں رہتی ہے ؟‘‘ عماد سوال کر بیٹھا ۔ ’’ جی ہاں ۔‘‘ ’’ وہاں کن لوگوں سے ملاقات ہوئی؟‘‘ اس بار میں نے سوال کیا ۔ ’’ مختلف عمر کے چھ افراد تھے جن میں ایک نوجوان لڑکی بھی تھی ۔ ان سب نے میرے ساتھ گپ شپ کی ۔ مجھ سے این جی او کی ممبر شپ کا فارم بھی بھروایا گیا ۔یہ مجھے مسز راحت نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ اس نے اپنی تنظیم میں جن پریشان حال لوگوں کو شامل کیا ، انہیں تنخواہیں وہ خود دیتی ہے ۔ مجھے بھی فوری طور پر تیس ہزار روپے دیے گئے ۔‘‘ جونی نے خاموش ہو کر اس طرح عماد کی طرف دیکھا جیسے اس سے کوئی اور سوال سننا چاہتا ہو ۔ عماد نے اسے مایوس نہیں کیا ۔ ’’ اس کے بعد تم اس کی این جی او کے لیے کام کرنے لگے ؟‘‘ ’’ ہاں ۔‘‘ جونی نے جواب دیا ۔ ’’ ان لوگوں کے ساتھ سوشل ورک میں حصہ لیتا تھا ۔ میری تنخواہ تیس ہزار روپے ماہانہ تھی جو مجھ جیسے پریشان حال شخص کے لیے ایک بڑی رقم تھی ۔ ‘‘ ’’ یہاں کیسے پہنچ گئے ؟‘‘ میں نے سوال کیا ۔ ’’ مسز راحت ہی مجھے یہاں لاکر چھوڑ گئی تھی ۔ اس کے بیان کے مطابق یہ اس کی این جی او کے وہ سرکردہ لوگ تھے جو آرگنائزیشن کو فنڈز دیتے تھے ۔ مسز راحت چاہتی تھی کہ میں کچھ عرصے ان لوگوں کے ساتھ رہوں اور اس کی این جی او کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر بیان کروں اور اشاروں اشاروں میں تنظیم کی مالی پریشانی کا اظہار بھی کردوں ۔‘‘ ’’ ہوں ۔‘‘عماد کے ہونٹ بند رہے لیکن آنکھیں سوال کررہی تھیں ۔ میں بھی خاموشی سے جونی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتی رہی ۔ آخر جونی نے پھر بولنا شروع کیا ۔ ’’ مسز راحت نے تو ان لوگوں کو برابرکے سرکردہ لوگ کہا تھا لیکن مجھے ایک ہی دن میں محسوس ہوگیا کہ ان میں سے صرف ایک بڑا آدمی تھا ۔ باقی لوگ اس کے احکام پر کام کرتے تھے ۔ ‘‘ ’’ وہ کوئی اپاہچ شخص ہے؟‘‘ میں نے تیزی سے سوال کیا ۔ جونی چونک کر میری طرف دیکھنے لگا ۔ ’’ وھیل چیئر پر بیٹھا رہتا ہے ؟‘‘ میں نے دوسرا سوال بھی کر ڈالا ۔ ’’ آپ۔‘‘ جونی حیرت سے بولا ۔ ’’ آپ یہ کیسے جانتی ہیں ؟‘‘ میں نے محسوس کیا کہ عماد بھی مجھے اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے اس کو مجھ سے اس قسم کے سوالات کی توقع نہیں تھی ۔ میرے لیے یہ اہم بات تھی ۔ مجھے شبہ بھی تھا کہ فری میسن لاج کی سرکردہ شخصیت ڈیوڈ ڈورون یہاں ہوسکتا ہے ۔ میں نے عماد کے تاثرات اور جونی کی حیرت نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’ ان لوگوں میں عرب کا کوئی آدمی بھی ہے ؟‘‘ جونی نے اس سوال کا جواب اثبات ہی میں دیا ۔ اس وقت اللہ ڈینو بول پڑا ۔’’ شاید میں نے بتایا تھا اس کے بارے میں ۔ ‘‘ میں نے اس کی طرف دھیان نہیں دیا اور جونی کی بات سنتی رہی جو بتا رہا تھا ۔ ’’ کار ریس کا شوق تو اسی کو ہے ۔ میرے یہاں آنے کے بعد یہ دوسری ریس تھی ۔ وہ خود بھی اس ریس میں شامل تھا ۔ ‘‘ ’’ اور تمہیں بھی اس میں شامل کیا گیا ؟‘‘ میں نے ایک ایسا سوال کیا جس کا جواب میرے علم میں تھا ۔ ’’ ہاں ۔ ‘‘ جونی نے جواب دیا ۔ ’’ میں نے اس موقع پر غنیمت جانا اور یہاں سے بھاگ نکلنے کا فیصلہ کیا۔‘‘ ’’ لیکن کیوں ؟‘‘ ’’ میری تنخواہ تو یہاں آنے کے بعد پچاس ہزار کردی گئی تھی لیکن میں خوف زدہ ہوگیا تھا ۔ ‘‘ جونی نے جواب دیا ۔ ’’ مجھے محسوس ہوا تھا کہ یہ لوگ بہ ظاہر جیسے نظر آتے ہیں ، در اصل ویسے نہیں ہیں ۔ میں تو مسز راحت کی ہدایت کے مطابق این جی او کی کارکردگی کے گن گایا ہی کرتا تھا لیکن وہ لوگ مجھ سے ایسی باتیں کرتے تھے جیسے میری برین واشنگ کرنا چاہتے ہوں ۔ ‘‘ ’’ ایسی کیا باتیں کیا کرتے تھے ؟‘‘میں نے سوال شروع کئے تھے تو عماد نے چپ سادھ لی تھی ۔ جونی نے کہا ۔’’ وہ سب کچھ بیان کرتا تو مشکل ہے لیکن ان باتوں کا مقصد یہ تھا کہ وہ میرے دل میں پاکستان سے نفرت پیدا کریں ۔ میں اس سے یہی سمجھ سکا کہ یہ لوگ کسی دشمن ملک کے جاسوس ہیں اور مجھے پاکستان کے خلاف کرکے مجھ سے کوئی کام لینا چاہتے ہیں ۔ اسی خیال سے میں خوف زدہ ہوگیا تھا اور کئی دن پہلے فیصلہ کرچکا تھا کہ مجھے پچاس ہزار پر لعنت بھیج دینی چاہئے !‘‘ سوال و جواب کی اس طوالت سے جونی اب بہت تھکا تھکا نظر آنے لگا تھا ۔ زخمی ہونے اور خاصا خون بہہ جانے کے سبب وہ پہلے ہی نقاہت کا شکار تو ہوچکا تھا ۔ ’’ میں اب بہت تھک گیا ہوں ۔‘‘ وہ بول بھی پڑا ۔ ’’ اچھا اب تم آرام کرو ۔ تم سے کچھ اور باتیں کل صبح کریں گے ۔ ‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ میں یہ سب کچھ پولیس کو بتانا چاہتا ہوں ۔ ‘‘ ’’ بتا دینا ۔ اس کا بندوبست کردیا جائے گا ۔ جب تک تمھاری حالت پوری طرح سنبھل نہیں جاتی ، یہاں آرام کرو اور خود کو بالکل محفوظ سمجھو ۔‘‘ ’’ ان لوگوں کو خیال آسکتا ہے کہ میں آپ لوگوں کو اپنے بارے میں سب کچھ کہیں بتا نہ دوں !‘‘ ’’ آنے دو انہیں یہ خیال !‘‘ میں نے زور دے کر کہا ۔ ’’ اب تم ہماری حفاظت میں ہو ۔‘‘ پھر میں نے اللہ ڈینو کی طرف دیکھا ۔ ’’ میںٹھیک کہہ رہی ہوں نا ؟‘‘ ’’ بالکل ۔‘‘ اللہ ڈینو نے کہا ۔ ’’ یہاں کوئی .....‘‘ اس کی بات ادھوری رہ گئی ۔ پے در پے چلنے والی گولیوں کے دھماکے سنائی دیے تھے ۔ گولیاں چلنے کا سبب کیا تھا ؟ کل کے روزنامہ 92 میں پڑھیے!