رات کو ہم نے کھانا کھایا ۔ پھر لائونج میں بیٹھ کر ٹی وی سے خبریں سنیں ۔ ٹی وی بند کرنے کے بعد بانو نے چولستان میں میرے پروگرام کے بارے میں باتیں کیں ۔ میں نے انہیں اس وقت بہت وضاحت سے بتایا کہ میں کیا کرنا چاہتی ہوں ۔ سات ‘دس بج چکے تھے جب بانو نے میرا ہاتھ پکڑ کر خواب گاہ کا رخ کیا ۔ بستر پر لیٹنے کے بعد انہوں نے کہا ۔ ’’ بس اب سوجائو!‘‘ ’’ ابھی سے۔؟‘‘ مجھے تعجب ہوا تھا ۔ ’’ ہاں ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ میں کچھ سوچنا چاہتی ہوں۔‘‘ انہوں نے دوسری طرف کروٹ بھی لے لی ۔ میں حیران رہ گئی ۔ بانو کا یہ رویہ میں پہلی بار دیکھ رہی تھی ۔ ’’ کیا ہوگیا آج آپ کو ؟‘‘ میں نے بے اختیار پوچھا ۔ ’’ میں کچھ سوچنا چاہتی ہوں صدف!‘‘ بانو کے لہجے میں جھنجلا ہٹ تھی ۔ ’’ بس اب سوجائو۔‘‘ میں ہکا بکا رہ گئی ۔ انہوں نے زندگی میں کبھی مجھ سے اس لہجے میں بات نہیں کی تھی ۔ میرا جی چاہا کہ اٹھوں اور اپنے گھر چلی جائوں لیکن پھر مجھے خیال آیا ‘ کوئی خاص بات ضرور ہے جس کی وجہ سے بانو کے انداز یہ تبدیلی آئی ہے ۔ میں اس بارے میں سوچتی رہی ۔ آدھی رات گزر گئی لیکن بانو نے میری طرف کروٹ نہیں لی ۔ نیند سے میری پلکیں بوجھل ہونے لگیں ۔ میں جاگنا چاہتی تھی لیکن پلکیں بوجھل ہوتی ہی گئیں اور آخر کار مجھے نیند آہی گئی ۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں بانو سے لڑ رہی تھی ‘ ان سے کہہ رہی تھی کہ اگر وہ اپنا یہ رویہ نہیں بدلیں گی تو میں اب کبھی ان کے پاس نہیں آئوں گی ۔ ’’ تمہارے فرشتے بھی آئیں گے ۔ ‘‘ بانو نے ہنس کر کہا ۔ پھر منظر بدل گیا اور مجھے چولستان کا صحرا دکھائی دینے لگا ۔ میں صحرا میں ننگے پائوں ایک طرف چلی جارہی تھی ۔ ریت بہت گرم تھی ۔ مجھے اپنے پیروں میں چھالے پڑتے محسوس ہونے لگے ۔ جب ریت کی تپش ناقابل برداشت ہوگئی تو میری آنکھیں کھل گئیں ۔ میں نے بے اختیار اپنے پیر ٹسولنے چاہے لیکن پھر ایک ایسا منظر دیکھا کہ دم بہ خود اور ساکت رہ گئی ۔ وہ منظر میں ایک بار پہلے بھی دیکھ چکی تھی ۔ میں نے بانو کے ساتھ ایک اور بانو کو دیکھا ۔ ایک بانو میرے پہلو میں لیٹی ہوئی تھیں اور دوسری بانو ان کے سامنے کھڑی ہوئی تھی ۔ اس کے ہونٹ ہل رہے تھے ۔ وہ کچھ کہہ رہی تھی لیکن مجھے اس کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔ اس کے تیور ایسے بھی تھے جیسے وہ بانو سے لڑ رہی ہو ، جیسے بہت غصے میں ہو ۔ یکایک میرے پہلو میں لیٹی ہوئی بانو نے ہاتھ اٹھا کر دوسری بانو سے کہا ۔ ’’ بس کرو اب !..... جائو!‘‘ ان کے ،لہجے میں غصہ تھا ۔ میں بے اختیار اٹھ بیٹھی ۔ دوسری بانو نے چونک کر میری طرف دیکھا اور پھر اسی طرح غائب ہوگئی جیسے پہلے ایک مرتبہ نظر آئی تھی اور غائب ہوگئی تھی ۔ اب بانو نے مسکرا کر میری طرف دیکھا ۔ ’’ اب تو چین آگیا ؟‘‘ ’’ کیا .....کیا.....کیا مطلب؟‘‘ میں ہکلا گئی ۔ ’’ تم میرے باطن کے بارے میں جاننا چاہتی تھیں نا ؟‘‘ ’’ تو.....تو.....یہ.....یہ.....‘‘ ’’ ہاں ۔ ‘‘ بانو نے کہتے ہوئے مجھے بڑی محبت سے لٹایا اور میرا بازو تھپکتے ہوئے بولیں ۔ ’’ میں نے سوچا کہ تمہیں اپنے باطن کے بارے میں صرف بتائوں نہیں بلکہ دکھا بھی دوں تاکہ آئندہ تمہارے سوالات سے بچ جائوں ۔ ‘‘ مجھے یقین نہیں آرہا ہے ۔ ‘‘ میں آواز بھر ائی ہوئی تھی ۔ ’’ دوسری بار آنکھوں سے دیکھ چکی ہو‘ پھر بھی یقین نہیں آرہا !‘‘ ’’ میں اگر کسی کو بتائوں گی تو وہ بھی یقین نہیں کرے گا ۔ ‘‘ ’’ یہ بات میں مانتی ہوں۔‘‘ بانو نے سنجیدگی سے کہا ۔ ’’ لیکن یہ سبھی مانے ہیں کہ ہر شخص کا باطن ہوتا ہے ۔ بعض لوگ اسے انسان کا ہم راز بھی کہتے ہیں ، لیکن پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت ہم راز کو نہیں مانتی ۔ اگرچہ ایسے حقائق بہت ہیں جنہیں پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت نہیں مانتی ۔ انہی باتوں میں سے ایک حقیقت یہ بھی ہے ۔ میں اسے اپنا باطن سمجھتی ہوں ۔ تم اسے ہم زار کہہ لو ۔ یہ میرا یا میری ہم زاد ہے ۔ ‘‘ ’’ میں اس بارے میں پڑھ چکی ہوں بانو ! ہم زاد کو لوگ قصے کہانی کی بات سمجھتے ہیں ۔‘‘ ’’ میں نے ابھی کہا تو ہے کہ ایسے حقائق بہت ہیں جنہیں پڑھے لوگوں کی اکثریت نہیں مانتی ۔ انہی میں سے ایک حقیقت یہ بھی ہے ۔ میں اسے اپنا باطن کہتی ہوں ، تم اسے میرا ۔۔یا ۔۔میری ہم زاد سمجھ لو ۔ میں تمہیں اس بارے میں اسی لئے نہیں بتاتی تھی کہ تم یقین نہیں کرو گی ۔ ‘‘ ’’ اب کیسے یقین نہیں کروں گی ! اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہوں ۔ ‘‘ میں یہ باتیں تو کررہی تھی لیکن میرا دماغ چکرایا ہوا تھا ۔ میں نے مزید کہا ۔ ’’ لیکن یقین کرنے کے بعد یہ ماننا پڑے گا کہ میری بھی ہم زاد ہوگی ۔ ‘‘ ’’ یقینا ہے ۔‘‘ بانو نے زور دے کر کہا ۔ ’’ لیکن میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا ۔ اس نے مجھ سے کبھی بات نہیں کی ۔ ‘‘ ’’ ہاں یہ تو ہے ۔ ایسا اسی کے ساتھ ہوسکتا ہے جو اپنے باطن پر قابو پالے ‘ یا یوں کہہ لو کہ اپنے ہم زاد کو اپنے قابو میں کرلے ۔ دنیا میں کچھ ہی لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے اپنے ہم زاد کو اپنے قابو میں کیا ہو ۔ انہی کچھ لوگوں میں ایک میں بھی ہوں ۔ ‘‘ ’’ کیا میں بھی اپنی ہم زاد کو اپنے قابو میں کرسکتی ہوں ؟‘‘ یہ سوال کرتے ہوئے میں نے خود کو احمق محسوس کیا ۔ ’’ نہیں ۔ ‘‘ بانو نے ایک طویل سانس لے کر کہا ۔ ’’ اس کے لئے انتہائی.....حد سے زیادہ ذہنی یک سوئی کی بھی ضرورت ہے اور میں جانتی ہوں کہ تمہیں اپنے دماغ پر اس حد تک قابو نہیں ہے ۔ ’’ کیا اس کے لئے آپ نے کوئی عمل کیا ہے ؟‘‘ یہ سوال کرتے ہوئے میرے دماغ میں کچھ سنی سنائیں باتیں تھیں ۔ بانو ذرا سا رکیں ،پھر انہوں نے کہا ۔ ’’کہہ لو ! ایسا کہہ لو!.....عمل ہی کہہ لو!تمہیں سائنٹیفک طور پر سمجھانے میں بہت وقت لگ جائے گا اور تمہیں یہ بات صرف سمجھنے کے لئے خاصی اسٹڈی کرنی پڑے گی ۔ ہم زاد کو اپنے قابو میں کرنے کے لئے تو اور بہت کچھ بھی کرنا پڑتا ہے ۔ تم اس معاملے پر گفت گوس کو پھر کسی وقت کے لئے اٹھا رکھو میری جان ! فی الحال بس اس پر یقین کرلو کہ یہ میری ہم زاد ہے جسے میں نے اپنے قابو میں کرلیا ہے ۔‘‘ ’’ وہ آپ سے لڑتی بھی ہے ؟‘‘ میری پلکیں جلدی جلدی جھپکنے لگیں ۔ ’’ ہاں ۔ ‘‘ بانو ہنسیں ۔ ‘‘ جب اسے میری کوئی بات اچھی نہیں لگتی تو وہ اپنی خفگی کا اظہار کرنے سامنے آجاتی ہے ۔ ‘‘ ’’ آج اسے آپ کی کیا بات اچھی نہیں لگی؟‘‘ میں اس وقت بالکل بچی بن گئی تھی ۔ ’’ یہ اسے اچھا نہیں لگا تھا کہ میں نے تمہاری طرف سے کروٹ بدل لی تھی ۔ ‘‘ ’’ یہ اسے برا کیوں لگا تھا ؟‘‘ ’’ اس لئے کہ وہ میرے عمل کے خلاف کچھ نہیں کرسکتی ۔ میں بستر پر تم سے دور ہوگئی تھی ‘ اس لئے وہ تمہاری ہم زاد کے قریب نہیں جاسکی ۔ ‘‘ بانو اس طرح مسکرارہی تھیں جیسے میری کیفیت سے محظوظ ہورہی ہوں ۔ انہوں نے مزید کہا ۔ ’’ جس طرح تم مجھے محبوب ہو ‘ اسی طرح تمہاری ہم زاد بھی میری ہم زاد کو محبوب ہے ۔ جیسا تعلق ہم دونوں کا ہے ‘ ویسا ہی تعلق ان دونوں کا بھی ہے ۔ ‘‘ حیرت سے میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ! بانو نے اس بارے میں اور کیا کچھ بتایا ؟ اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں !