میں اس طرح کھڑی ہوئی جیسے ڈیوڈ ڈورون کا احترام مجھ پر لازم ہو ۔ میرے ساتھ ہی حجازی بھی کھڑا ہوا ۔ ڈیوڈ ڈورون آہستہ آہستہ وھیل چیئر کو ہمارے قریب لایا ۔ اس کی نظریں مجھ پر جمی ہوئی تھیں ۔ ’’ سر!‘‘ میں نے احترام سے سر بھی خفیف سا خم کیا ۔ یہ مجھے جونی نے بتایا تھا کہ بیسٹ ہائوس میں ہر شخص ڈورون کو ’’ سر‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور جب کوئی اجنبی ڈورون سے ملنے آتا ہے تو اس کے سامنے احترام سے جھکتا بھی ہے ۔ میں نے اسے ’’ سر ‘‘ کہہ کر اپنی بات جاری رکھی ۔ ’’ میرا تعلق انگلینڈ کی گرانڈ فری میسن لاج سے ہے ۔ مجھے ہدایت کی گئی تھی کہ میں اپنے دوست کو آپ سے ملادوں ۔ ‘‘ میں نے حجازی کی طرف اشارہ کیا ۔ ’’ میں ویزا لے کر پاکستان آئی ہوں ۔ یہ مسٹر حجازی ہیں ۔ فیس بک پر ان کا اکائونٹ ہے ۔ لاج کی خواہش تھی کہ میں ان سے دوستی کروں ۔ اس کام کے لیے میں نے بھی فیس بک پر اپنا کائونٹ کھولا اور چند دیگر لوگوں کے علاوہ انہیں بھی فرینڈ ریکویسٹ بھیجی جو انہوں نے فوراً کنفرم کردی ۔ میری باتوں سے یہ چند دن میں ہی میرے گرویدہ ہوگئے تو میں نے فیس بک پر ہی ان سے ان کا موبائل نمبر لے لیا ۔ ہم میں براہ راست گفت گو ہونے لگی ۔ لاج نے تو مجھے اتنی ہی ہدایت کی تھی کہ میں پاکستان پہنچ کر ان سے دوستی کروں لیکن میں نے تجویز پیش کی کہ اگر فیس بک پر ان کا اکائونٹ ہو تو میں آغاز اسی طرح کروں ۔ مجھے اس کی اجازت مل گئی تھی ۔ ‘‘ ’’ یہ سب.....‘‘ حجازی تقریباً ہکلایا ۔ ’’ یہ تم کیسی باتیں کررہی ہو ڈورتھی ؟تم نے کسی کے کہنے پر مجھ سے دوستی کی تھی ؟‘‘ ’’ ہاں حجازی !‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ اور مجھے یہ ہدایت بھی کی گئی تھی کہ میں تمہیں مسٹر ڈورون تک پہنچادوں ۔ اتفاق سے یہ کام اس لئے اور آسان ہوگیا کہ میں نے جب پاکستان آکر تم سے ملنے کا ارادہ کیا اور یہ بھی بتایا کہ میں کس فلائٹ سے آرہی ہوں تو تم نے بتایا کہ اس دن تم چولستان جارہے ہو جہاں تم ایک ریسٹ ہائوس میں قیام کرو گے ۔ اس بات سے اس شبہے کو تقویت ملی کہ تم کراچی کی فری میسن لاج کا سراغ لگانے کے لئے کوششیں کررہے ہو ۔ تمہیں کس طرح معلوم ہوگیا تھا کہ یہ لاج چولستان میں ہے ۔ تم نے اپنے ریسٹ ہائوس کے بارے میں وضاحت سے بتادیا تھا لہٰذا اس تک پہنچنے میں مجھے کوئی دقت نہیں ہوئی۔‘‘ میں مسکرائی ۔ ’’ اب تو تمہیں خوش ہونا چاہئے کہ تم فری میسن لاج پہنچ گئے ہو !‘‘ ’’ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ تم کس قسم کی باتیں کررہی ہو !‘‘ حجازی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ۔ وہ پریشان اور کچھ خوف زدہ ہونے کی کی بڑی اچھی اداکاری کررہا تھا ۔ میں مسلسل بولتی رہی تھی جس کے دوران ڈورون کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا تھا ۔ وہ بس کبھی میری طرف اور زیادہ تر حجازی کی طرف دیکھتا رہا تھا ۔ اس کے چہرے پر کسی قسم کے تاثرات نہیں تھے ۔ ’’ تم خوش نہیں ہو حجازی ؟‘‘ میں قدرے توقف سے بولی ۔ ’’ تمہاری بے تکی باتیں سمجھ میں آئیں گی تبھی خوش ہو سکوں گا ۔ ‘‘حجازی نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری۔ وہ ظاہر کررہا تھا کہ میری باتیں سن کر اس کے ہونٹ خشک ہوگئے تھے ۔ ’’ سر!‘‘ میں اب ڈیوڈ ڈورون کی طرف متوجہ ہوئی ۔ ’’ در اصل گرانڈ فری میسن لاج کو اس شخص کے بارے میں اطلاع ملی تھی ۔ شبہہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس کے کانوں میں کراچی کی فری میسن لاج کی بھنک پڑگئی ہے اور یہ اس تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اب یہ یہاں پہنچ گیا ہے سر!یہ معلوم کرنا اب آپ کا کام ہے کہ یہ کون ہے اور کیا اس کا تعلق پاکستان کی کس ایجنسی سے ہے ؟‘‘ دفعتاً حجازی اچھل کر کھڑا ہوا اور اس نے اپنی جیب سے ریوالور نکال لیا ۔ یہ سب کچھ بھی میرے لائحہ عمل کے مطابق ہوا تھا اس لئے میں نے اسی وقت ریوالور پر اپنی گرفت مضبوط کرلی تھی جب حجازی نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تھا چنانچہ جب اس نے ریوالور نکالا تو میرے ریوالور کی گولی اس کے ریوالور پر پڑی تھی اور اس کا ریوالور اس کے ہاتھ سے نکل کر کچھ دور جاگرا تھا ۔ حجازی کا ہاتھ یقینا جھنجھلا گیا ہوگا‘ پھر بھی وہ اس طرف لپکا جہاں ریوالور گرا تھا ۔ میں نے فوراً فرش پر پڑے ہوئے ریوالور پر گولی چلائی ۔ وہ اچھل کر کچھ اور دور ہوگیا ۔ ’’ حجازی !‘‘ میں نے اپنے لہجے میں سفاکی لاتے ہوئے کہا ۔ ’’ یہ دوسری گولی تمہاری زندگی کا خاتمہ بھی کرسکتی تھی ۔ اب اگر تم اپنی جگہ سے ہلے تو میں نہیں بتائوں گی کہ میری تیسری گولی تمہارے جسم میں کس جگہ پیوست ہوگی!‘‘ حجازی ہونٹ بھینچے ساکت کھڑا رہ گیا ۔ ڈورون اس دوران میں اس طرح بیٹھا رہا جیسے کسی تماشے سے لطف اندوز ہورہا ہے اور حقیقتاً یہ تھا بھی تماشا لیکن ڈورون کے دماغ میں یہ بات نہیں آسکتی تھی ۔ پے در پے دو گولیاں چلنے کی آوازیں سن کر کئی افراد بے تحاشا کمرے میں گھستے چلے آئے تھے ۔ ڈورون نے پر سکون لہجے میں مجھ سے کہا ۔ ’’ تم پھر تیلی بھی ہو اور بہت اچھی نشانہ باز بھی !‘‘ پھر وہ کمرے میں آنے والوں سے مخاطب ہوا ۔ ’’ اسے لے جا کر ٹارچر سیل میں ڈال دو ۔ ‘‘ اس کا اشارہ حجازی کی طرف تھا ۔ ’’ سر!‘‘ میں فوراً بول پڑی۔’’ اس پر تشدد نہ کیا جائے ۔ گرانڈ فری میسن لاج کی ہدایت ہے کہ اس کی زبان کھلوانے کے لئے نفسیاتی طریقے اختیار کئے جائیں ۔ ‘‘ جن لوگوں نے حجازی کو اس کے بازوئوں سے جکڑ لیا تھا ‘ وہ میری بات سن کر سوالیہ انداز میں ڈورون کی طرف دیکھنے لگے ۔ ’’ ہاں ۔ ‘‘ ڈورون نے کہا ۔ ’’ فی الحال اسے وہاں لے جا کر بس ڈال دو ۔ اس سے پوچھ گچھ میں خود کروں گا ، اور ابھی کروں گا ۔ ‘‘ پھر اس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ ’’ مہمان کی لیے کسی معقول کمرے کا بندوبست کردیا جائے ۔ ‘‘ میں نے اندرونی طور پر سکون محسوس کیا ۔ مجھے وہاں قیام کا موقع مل گیا تھا ۔ اسی طرح میں وہاں کی تلاشی لے کر ایسی دستاویزات حاصل کرسکتی تھی جو ان لوگوں کے گلے کا پھندا بن جاتی ۔ ’’ میں لندن گرانڈ لاج سے تمہارے بارے میں بات کرلوں ! ‘‘ ڈورون نے میری طرف دیکھتے ہوئے اپنی جیب سے سیٹلائٹ فون نکالا ۔ گرانڈ لاج سے ڈورون کا رابطہ ! نتیجہ ؟ یہ اگلی قسط میں ملاحظہ کیجئے۔