پھر میں نے سیٹلائٹ فون پر بات کرکے اپنے تینوں ساتھیوں کو بھی چھت پر بلا لیا اور پھر رسا اوپر کھینچ لیا ۔ جب میں ان تینوں کو اس کمرے میں لے گئی تو ان کی بھی وہی حالت ہوئی جو میری ہوئی تھی ۔ وہ کمرا راکٹ لانچروں اور حد درجہ خطرناک راکٹوں سے بھرا ہوا تھا ۔ ’’ مائی گاڈ!‘‘ سونیا کے منہ سے نکلا ۔ ’’ دوسرے کمرے ؟‘‘ زاہد کا لہجہ سوالیہ تھا ۔ ’’ اب وہ بھی دیکھیں گے ۔ میں نے سوچا کہ پہلے تم لوگوں کو بھی اوپر بلالوں ۔ دبے قدموں ہی چلنا ۔‘‘ وہ تینوں دبے قدموں ہی اس کمرے تک آئے تھے ، اس کے باوجود میں نے انھیں ایک بار پھر تاکید کی تھی ۔ اگر چہ اس مہم میں ہم شروع سے اب تک کرمچ ہی کے جوتے پہنے رہے تھے ، لیکن زیادہ سے زیادہ احتیاط کرنا ہی بہتر تھا ۔ ہم نے اس منزل کے چار اور کمرے دیکھے ۔ کسی کمرے میں بارود بھرا ہوا تھا تو کسی میں جدید ہتھیاروں کے ڈھیر تھے ۔ ایک کمرے میں ہمیں کوہ پیمائی کا سامان بھی وافر مقدار میں نظر آیا ۔ ’’ یہ تو ہمارے بہت کام آئے گا ۔ ‘‘ اس مرتبہ بولنے میں زاہد نے پہل کی تھی ۔ ’’ لیکن ان لوگوں کو اس کی کیا ضرورت پڑتی ہوگی ۔‘‘ سونیا بھی بولی ۔ دونوں ہی نے بہت مدھم سرگوشیاں کی تھیں ۔ علی محمد بولتا ہی بہت کم تھا لیکن اس موقع پر بول پڑا۔ ’’ پہاڑوں پر چڑھنا اترنا ان لوگوں کو بھی پڑتا ہے اور برف باری میں تو یہ کام اور مشکل ہوجاتا ہے ۔‘‘ ’’ مجھے اندازہ ہے اس کا ۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’یہ سامان ہمارے ساتھ بھی ہوتالیکن اتنا سامان اٹھاتا کون!‘‘ ’’ تو قدرت نے ہماری مدد کی ہے ۔‘‘ سونیا نے اپنے ایک بھنو اچکائی۔ ’’ ہمیں پہاڑوں پر تو چڑھنا ہے ۔‘‘ میں نے کہا ۔’’کچھ سامان کی کمی کا ان لوگوں کو احسا س بھی نہیں ہوگا ۔ ہمیں بس یہ سوچنا ہوگا کہ اپنا کون سامان کم کیا جائے ۔‘‘ ’’ اب نچلی منزل کا رخ کیا جائے!‘‘ سونیا بولی ۔ میں نے اثبات میں سرہلا یا اور زینے کی طرف قدم بڑھادیے ۔ نچلی منزل کے کمروں میں بھی اسی قسم کا سامان تھا جو ہم اوپر دیکھ چکے تھے لیکن اس کے علاوہ ایک کمرے میں خودکش جیکٹس تھیں اور ایک کمرے میں بیرنگ اور لوہے کے ٹکڑے وغیرہ جو بارود کے ساتھ خودکش جیکٹوں میں بھرے جاتے ہیں ۔ ’’ گرائونڈ فلور پر تو اور زیادہ احتیاط سے جانا ہوگا ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ دونوں طالبان گرائونڈ فلور کے کسی کمرے میں ہوں ۔ پہلے مجھے اکیلے جانا چاہیے ۔‘‘ ’’ آخر ہم کس مرض کی دوا ہیں لیڈر!‘‘ سونیا نے سنجیدگی سے کہا ۔’’ہمیں بھی تو کچھ کرنا چاہیے۔‘‘میں نے اس کی طرف دیکھا اور پھر اثبات سے سر ہلایا ۔ ’’ٹھیک ہے ۔ تم چلی جائو ۔گرائونڈ فلور کا جائزہ لے کر آئو ۔‘‘ سونیا نے فوراً زینے کی طرف قدم بڑھا دیے ۔ اس کی پیٹھ پر بھی سامان کا بوجھ نہیں تھا ۔ ہم سبھی اپنا سارا سامان اوپری منزل پر چھوڑ آئے تھے ۔ زاہد نے ایک طویل سانس لے کر کہا ۔‘‘ تو یہ ان لوگوں کا گوڈائون ہے ۔‘‘ ’’ اوریہ یہاں اس لیے بنایا گیا ہے کہ یہاں اب بم باری کا خطرہ نہیں ہے ، اور اس کے علاوہ بھی کوئی مقصد ہوسکتا ہے ۔‘‘ ’’ آپ نے اب تک مسٹر داراب کو رپورٹ نہیں دی !‘‘ ’’ ہاں ۔‘‘ میں نے سر ہلایا ۔‘‘ اب دے دینی چاہیے ۔‘‘ ’’ انھوں نے بھی کال نہیںکی !‘‘ ’’ یہ طے پاگیا تھا کہ وہ اس وقت تک فون نہیں کریں گے جب تک ہماری طرف سے غیر معمولی تاخیر نہ ہوجائے ۔ ہم دوبارہ اوپری منزل پر جائیں گے تو میں رپورٹ دوں گی انھیں ۔‘‘ ’’ ایک سوال ذہن سے چپک کر رہ گیا ہے لیڈر ! ان گھڑ سواروں پر تیر کس نے چلائے تھے ؟یہاں ہمارا ہم درد کون ہے ؟‘‘ ’’میرے ذہن میں تو بگ پرسن کا خیال ہے ۔‘‘ میں نے جواب دیا ۔ بانو کا نام لینا میں نے مناسب نہیں سمجھا تھا ۔ اس موضوع پر ہماری بات ہو ہی رہی تھی کہ سونیا واپس آگئی ۔ ’’ دونوں طالبان ہیں نیچے ۔‘‘ اس نے بتایا ۔’’ وہ خود کش جیکٹس تیار کررہے ہیں ۔‘‘ ’’ ہوں !‘‘ میں نے ہونٹ بھینچ لیے ، پھر کہا ۔’’ تو یہ صرف گوڈائون نہیں ، ان لوگوں کا گویا کارخانہ بھی ہے ۔‘‘ اس بات پر سونیا کچھ کہتے کہتے رک گئی ۔ مجھے بھی کسی گاڑی کے انجن کی آواز سنائی دی تھی ۔ ’’ کوئی گاڑی آرہی ہے ادھر ۔‘‘زاہد بولا ۔ میری نظر ایک کھڑکی پر گئی ۔ میں تیزی سے اس کی طرف گئی ۔ مجھے ایک جیپ نظر آگئی جو، ان پہاڑوں کی طرف سے آرہی تھی جدھر ہمیں جانا تھا ۔ زاہد اور سونیا بھی میرے قریب آگئے ۔ میں نے ان سے کہا ۔’’ہم میں سے کسی ایک کو جھانکنا چاہیے ۔‘‘ وہ دونوں ایک قدم پیچھے ہٹ گئے ۔ میں جیپ کی طرف دیکھتی رہی ۔ جلد ہی وہ مکان کے سامنے آرکی ۔ میں سرگوشی میں سونیا اور زاہد سے بولی ۔ ’’ جیپ مکان کے سامنے آکر رکی ہے ۔ اس میں چار افراد ہیں ۔ دو تو پختہ عمر کے ہیں لیکن باقی دونوں بائیس چوبیس سال سے زیادہ کے نہیں ہوں گے ۔ان دونوں کی وضع قطع طالبان جیسی بھی نہیں ہے ۔ وہ جینز اور شرٹ پہنے ہوئے ہیں ۔ چہرے داڑھی مونچھ سے بے نیاز ہیں ۔ وہ جیپ سے اتر کر مکان کے دروازے کی طرف بڑھے ہیں ۔ ’’ اوہ! ‘‘ میرے منہ سے نکلا ۔’’جیپ میں ایک موٹر سائیکل بھی ہے ۔ وہ چاروں اب نظر نہیں آرہے ہیں ،مکان میں داخل ہوگئے ہوں گے ۔‘‘میں تیزی سے مڑی۔’’نیچے جاکر دیکھنا ہوگا کہ یہ لوگ کیوں آئے ہیں ۔‘‘ ’’میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا لیڈر!‘‘ زاہد بولا ۔ ’’ میں بھی چلوں تو بہتر ہوگا ۔‘‘ سونیا بھی بولی ۔ ’’ وہ ایک ہال ہے جہاں وہ دونوں جیکٹس بنا رہے ہیں ۔ میں نے ایک ایسے جگہ دیکھ لی ہے جہاں سے ان سب کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ ان کی نظر ہم پر نہیں پڑے گی۔ ‘‘ ’’ تو پھر تم بھی آئو ہمارے ساتھ ۔ ‘‘میں نے علی محمد سے کہا ۔ سونیا نے اس وقت رہ نمائی کی اور ہم اس جگہ پہنچ گئے جہاں سے ان سبھی کو دیکھا جاسکتا تھا ۔ اس وقت ان نوجوانوں کو خود کش جیکٹس پہنائی جارہی تھیں ۔ نوجوانوں کو خودکش جیکٹس پہنانے کا مقصد؟ کل کے اخبار میں پڑھیے!