مسٹر داراب جلدی سے اٹھے اور انھوں نے دروازے کی طرف بڑھنا چاہا ۔ ’’ ابھی رک جائیے مسٹر داراب !‘‘بانو نے کہا ۔ ’’ دھماکے کے بعد لوگوں کا ہجوم ہونے کے بعد دوسرا دھماکا بھی ممکن ہے ۔ یہ حرکت طالبان کے علاوہ کسی کی نہیں ہوسکتی ۔ مسٹر داراب رک گئے ۔ باہر سے چیخ پکار کی آوازیں آرہی تھیں ۔ لوگ زخمی تو ہوئے ہی ہوں گے اور ہلاکتیں بھی ممکن تھیں ۔ دھماکا بہت زور کا تھا ۔ ’’ یہاں.....یہ کیسے.....کیوں ؟ ‘‘ میں رک رک کر بولی ۔ میرا جسم جھنجھنا رہا تھا ۔ اس وقت دروازے کی طرف سے ایسی آواز آئی جیسے اسے کسی نے کھولنا چاہا ہو لیکن دروازہ نہیں کھلا ۔ ’’ آپ لوگ خیریت سے ہیں؟‘‘ باہر سے ڈاکٹر کی آواز آئی ۔ ’’ جی ہاں ۔‘‘ بانو نے جواب دیا ۔ ’’ کیا دروازہ نہیں کھل رہا ہے ؟‘‘ ’’ ہاں ۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا ۔’’ نہ جانے کیا خرابی ہوئی ہے ۔‘‘ دروازہ کھولنے کی کوشش دوبارہ کی گئی ۔ ’’ دھماکا اثر انداز ہوسکتا ہے لاک پر !‘‘ بانو نے کہا۔ ’’ جام ہوگیا ہوگا ۔ دھماکا کیسے ہوا؟‘‘ ’’ خود کش بم بار تھا ۔‘‘ جواب ملا ۔ ’’ سیکیورٹی والوں کو اس پر شبہ ہوا تھا ۔ انھوں نے اسے روکنے کی کوشش کی تو اس نے ہال ہی میں خود کو اڑا لیا ۔ ‘‘ ڈاکٹر اور بانو نے کسی حد تک چیخ کر ہی باتیں کی تھیں کیونکہ چیخ پکار بہت تھی ۔ ’’ میں کسی کو بلا تا ہوں ۔ دروازہ توڑنا پڑے گا ۔ ‘‘ بانو نے جلدی سے پوچھا ۔’’ آپریشن تھیٹر خیریت سے ہے ۔‘‘ ’’ جی ہاں ‘‘ لیکن دھماکے کا ڈاکٹروں پر اثر تو فطری بات ہے ۔‘‘ ’’ آپریشن میں تو گڑبڑ نہیں ہوئی ؟‘‘ بانو نے جلدی سے بولا ۔ جواب ملا ۔’’ ڈاکٹر دو چار وارڈ بوائز کو لینے چلا گیا ہوگا جو دروازہ توڑ سکیں !‘‘ ’’ آپریشن پر اثر پڑسکتا ہے ۔ ‘‘ میرے لہجے میں تشویش ہونی ہی چاہئے تھی ۔ مسٹر داراب نے اپنے موبائل پر کسی سے رابطہ کرنا چاہا لیکن ناکام رہے ۔ ’’ بگ پرسن کا فون بند مل رہا ہے ۔‘‘وہ بولے۔ ’’ صورت حال کا علم ہوچکا ہوگا انھیں ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ دوسرا دھماکا تو نہیں ہوا!‘‘ میں بولی ۔ ’’ امکانی خطرے کی بات کی تھی میں نے !‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ یقین سے نہیں کہا تھا کہ دوسرا دھماکا ہوگا ۔ پہلے ایسا ہوتا رہا ہے ۔ ‘‘ پھر انھوں نے مسٹر داراب سے پوچھا ۔’’ طالبان مرکز کی کوئی اطلاع؟‘‘ ’’ آخری خبر ملنے تک وہاں گولیاں چل رہی تھیں ۔ کچھ طالبان تو بھاگ نکلے تھے دھماکے ہوتے ہی لیکن کچھ مقابلے پر جم گئے تھے ۔ تین فوجیوں کے شہید ہونے کی اطلاع ملی تھی اس وقت !‘‘ مجھے وہ دو دھماکے یاد آگئے تھے جو بے نظیر بھٹو کے قافلے میں ہوئے تھے ۔ دروازے کی طرف سے آنے والی آوازوں سے ظاہر ہوا کہ کئی افراد اسے دھکے دے کر گرا دینا چاہتے تھے ۔ دروازہ گرا تو نہیں لیکن کھل گیا ۔ اس کا ’’ لاک‘‘ ٹوٹ گیا ہوگا ۔ اسے دھکے مارنے والے وارڈ بوائز کمرے میں آگرے۔ ڈاکٹر جلدی سے کمرے میں آگیا ۔ فرش پر گرے ہوئے وارڈ بوائز اٹھ رہے تھے ۔ ’’ دراڑیں تو پڑ گئی ہیں دیواروںمیں ۔‘‘ اس نے طائرانہ نظر ڈال کر ہم تینوں کی طرف دیکھا ۔ ’’ شکر ہے کہ آپ لوگ محفوظ رہے ۔ ‘‘ ’’ صورت حال کیا ہے ؟مسٹر داراب نے پوچھا ۔‘‘ زخمی ہونے والوں کے علاوہ ہلاکتیں تو ہوئی ہوں گی !‘‘ ’’ دو ایک لاشیں تو میں دیکھ چکا ہوا ۔تفصیل نہیں معلوم ! پولیس بہت جلدی آگئی ہے ۔ اب کسی کو ہال میں جانے کی اجازت نہیں ۔‘‘ ’’ آپریشن تھیٹر سے کیا خبر ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا ۔ ’’ اب میں وہیں جارہاں ہوں ۔ ‘‘ ’’ جلدی سے آکر آپریشن کے بارے میں بتائیے !‘‘میں نے کہا ۔ ڈاکٹر چلا گیا ۔ ’’ ہم ہال میں نہیں جاسکتے تو ہمیں یہیں رکنا پڑے گا ۔ ‘‘ مسٹر داراب نے بانو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ بانو نے بس سر ہلا دیا ۔ وہ کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں ۔ میں بھی سونیا کے لئے بہت متفکر تھی ۔ ڈاکٹر نے جلد ہی واپس آکر بتایا ۔ ’’ بے حد فرض شناس ڈاکٹرز ہیں ۔ دھماکے نے انھیں بس لمحاتی طور پر متاثر کیا تھا ۔ ‘‘ ’’ پوزیشن کیا ہے ؟‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا ۔ ’’ پوزیشن تو اچھی نہیں ۔‘‘ ’’ کیا مطلب!‘‘ میں تیزی سے بولی ۔ ’’ وضاحت سے بتائیے!‘‘ آپریشن بہت نازک ہے ۔ جو چیز ان کی کنپٹی کے راستے اندر داخل ہوئی ہے وہ خون کے بہائو کے ساتھ دماغ کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ اگر چہ اس کی رفتار بہت سست ہے لیکن وہ دماغ کے قریب ہی ہے ۔ ‘‘ اچانک بانو کھڑی ہوگئیں ۔’’ کیا مجھے آپریشن تھیٹر میں جانے کی اجازت مل سکتی ہے ؟‘‘ ’’ سوری !‘‘ ڈاکٹر نے کہا ۔ ’’ کسی بڑے سرجن ہی کو وہاں جانے دیا جا سکتا ہے ۔ ‘‘ ’’ میں سرجن ہوں ۔‘‘ بانو نے ڈاکٹر اور مسٹر داراب کو شدت سے چونکا دیا ۔ مجھے تو اس کا شبہ تھا ہی! ’’ آپ!‘‘ ڈاکٹر نے حیرت سے بانو کی طرف دیکھا ۔ بانو نے ایک لفافہ نکال کر ڈاکٹر کی طرف بڑھایا ۔ اس میں لندن کے ایک ہاسپٹل کا سرٹیفکیٹ بھی ہے جہاں میں ایک سال کام کرچکی ہوں ۔ میرے سرجن ہونے کی سند بھی ہے اس میں ۔ ‘‘ ڈاکٹر نے بوکھلائے ہوئے سے انداز میں لفافہ کھول کر دیکھا ۔ میں لکھ چکی ہوں کہ مجھے اس کا شبہ تو ہوچکا تھا لیکن میرے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ لفافہ ان کے پاس اس وقت کیسے تھا ! اس مہم میں وہ لفافہ ساتھ لے کر تو نہیں چلی ہوں گی ۔ ! ’’ آئیے!‘‘ ڈاکٹر نے بانو سے کہا ۔ ’’ ایک رسمی کارروائی کے بعد آپ کو وہاں جانے کی اجازے مل جائے گی ۔‘‘ کاف مین کا سیٹلائٹ فون بانو کے ہاتھ میں تھا ۔ وہ انھوں نے مجھے دیا اور ڈاکٹر کے ساتھ چلی گئیں ۔ ’’ حیرت انگیز خاتون ۔‘‘ مسٹر داراب بڑبڑائے۔ یہ تبصرہ بانو کے لئے تھا ۔ اسی وقت کاف مین کے سیٹلائٹ فون پر کال آئی ۔ مجھے فضل اللہ ہی کا خیال آیا ۔ میں نے کا ریسیو کی تو میرے خیال کی تصدیق بھی ہوگئی۔ میرا خون کھول گیا ۔ کم بخت میری چلائی ہوئی گولی سے بچ گیا تھا ۔ فضل اللہ نے وہ کال کیوں کی تھی ؟ کل کے روزنامہ 92میں پڑھیے !