گولیاں چلتے اور ان دونوں کے گرتے ہی میرے ذہن میں جھماکا سا ہوا تھا۔ ’’بانو۔‘‘ لیکن گولیاں چلانے والی بانو نہیں تھیں۔ وہ سونیا تھی۔ اس کی بغل سے خون رس رہا تھا۔ چہرے پر خون کے چھینٹے تھے۔ ’’جلدی نکل چلو لیڈر! ‘‘وہ بولی ’’تم صرف زخمی ہوئی ہو اور وہ دونوں؟ ‘‘میں نے اپنا سامان اٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’وہ اب اس دنیا میں نہیں۔ بس جلدی چلو، بتادوں گی سب!‘‘ میرے ذہن میں کئی سوال تھے جن میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ سونیا زینے سے کیسے آئی تھی۔ ہم دونوں نے تیزی سے زینے طے کیے، مکان سے نکل کر سونیا نے کہا۔ ’’ہمیں پیچھے جانا ہے۔ میرا سامان وہیں ہے۔‘‘ سونیا شاید مجھ سے زیادہ تیز بھاگ سکتی تھی کیونکہ میری طرح اس کے پاس کسی قسم کا سامان نہیں تھا لیکن وہ میرے ساتھ ساتھ رہی۔ مکان کے عقب میں علی محمد اور زاہد کی لاشوں کے قریب ان سب کا سامان بھی پھیلا ہوا تھا۔ ’’دو اور قربانیاں۔ ‘‘میری آواز بھرائی ہوئی تھی۔ ذہن میں یہ سوال بھی تھا کہ طالب کے چلائے ہوئے برسٹ سے علی محمد اور زاہد ہلاک ہوگئے تھے تو سونیا کیسے بچ گئی۔ سونیا نے جلدی سے اپنا سامان سمیٹا۔ ’’ہمیں بہت تیز دوڑنا ہوگا۔ ‘‘میں نے سونیا سے کہا۔’’ وقت بہت کم رہ گیا ہے۔‘‘ اپنے دو ساتھیوں کی لاشوں پر الوداعی نظر ڈال کر ہم دونوں نے دوڑنا شروع کردیا۔ طیارہ اور ہیلی کوپٹر فضا میں چکر لگارہے تھے۔ میں اور سونیا ان پر بس اچٹتی سی نظر ڈال سکے تھے۔ یکایک ہم دونوں تیز روشنی میں نہاگئے۔ ہم نے چونک کر دیکھا۔ ہیلی کوپٹر سے ہم پر اسپاٹ لائٹ ڈالی گئی تھی۔ زمین سے اس کی بلندی میں بھی کمی آئی تھی۔ ’’ٹھیک ہے۔ ‘‘ہیلی کوپٹر سے کسی نے میگا فون پر کہا۔ ’’ہم نے یہ دیکھنے کے لیے لائٹ ڈالی تھی کہ دونوں طالبان تو نہیں بھاگ رہے ہیں، آپ کے ساتھ دو اور بھی تھے۔‘‘ ہیلی کوپٹر والوں کو ہمارے بارے میں بتایا گیا ہوگا۔ ہماری آواز ان لوگوں تک نہیں جاسکتی تھی۔ ہمارے پاس میگا فون نہیں تھے اور ہیلی کوپٹر کے انجن کا شور بھی ہماری آواز دبا سکتا تھا۔ سونیا نے بس ہاتھ کے اشارے سے بتانے کی کوشش کی کہ وہ دونوں اب نہیں رہے۔ ’’اور تیز بھاگیں۔ ‘‘ہیلی کوپٹر سے کہا گیا۔ ہم دونوں جتنی تیز دوڑ سکتی تھیں، دوڑ ہی رہی تھیں۔ ہیلی کوپٹر جو ہمارے اوپر معلق ہوا تھا، حرکت میں آیا اور ہم سے دور ہوتا چلا گیا۔ اس کے بعد شاید ایک منٹ گزرا ہوگا کہ ایک دھماکے سے ہمارے پیروں کے نیچے پتھریلی زمین بھی لرز اٹھی۔ اس کے بعد پے درپے چار دھماکے اور ہوئے۔ زمین کی لرزش کے باعث ہمیں اپنی رفتار کم کرنی پڑی تھی۔ میں نے مڑکر بھی دیکھا۔ شعلوں میں لپٹے ہوئے مکان کی کچھ دیواریں زمیں بوس ہورہی تھیں اور اینٹوں، دروازوں اور کھڑکیوں کے ٹکڑے بھی شعلوں میں لپٹے ہوئے خاصی بلندی کی طرف جارہے تھے اور ادھر ادھر بھی بکھر رہے تھے۔ ’’بچ سونیا! ‘‘میں نے چیختے ہوئے ایک طرف جست لگائی تو وہ سامان بھی بکھر گیا جو میں اپنے اوپر لادے یا ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے تھی۔ سونیا نے بھی وہ جلتا ہوا ملبہ اپنی طرف آتے دیکھ لیا تھا ۔ اس نے بھی جست لگائی ۔ ہم دونوں ہی اس ملبے کے نیچے آنے سے بچ گئے لیکن کسی چیز کا دہکتاہوا ایک ٹکڑا میری ران سے آٹکرایا ۔ میری چیخ نکل گئی ۔ ایسا محسوس ہوا تھا جیسے میری ران میں انگارے بھر گئے ہوں ۔ ’’ لیڈر!‘‘ سونیا چیخی ۔ تکلیف کی شدت کے باعث میں اسے کوئی جواب نہیں دے سکی ۔ جو چیز بھی میری ران سے ٹکرائی تھی ، اس نے میرے لباس کے اس حصے میں آگ لگادی جسے بجھانے کے لیے مجھے اپنے دونوں ہاتھ استعمال کرنے پڑے ۔ سونیا لپک کر میری طرف آئی لیکن اس کی مدد سے پہلے میں آگ بجھا چکی تھی ۔ اس مکان میں پے در پے دھماکے اب بھی جاری تھے لیکن اس کا سبب طیارے سے داغے جانے والے راکٹ نہیں تھے ۔اب اس مکان میں جمع شدہ بارود اور دیگر بارودی چیزیں پھٹ رہی تھیں ۔شعلے اتنے اٹھ رہے تھے کہ ان کی روشنی ہم تک پہنچ رہی تھی ۔ آگ بجھانے سے میرے دونوں ہاتھ بھی جل گئے تھے لیکن ان کی تکلیف ، ران کی تکلیف سے زیادہ نہیں تھی ۔ سونیا نے سامان میں سے فرسٹ ایڈکاسامان نکالا جو ہماری مہم کے سامان کا لازمی حصہ تھا ۔ ’’ ڈریسنگ میں خود کرلوں گی سونیا !‘‘ میں نے دانت پر دانت جماکر تکلیف ضبط کرتے ہوئے کہا ۔ ’’ تمہیں دقت ہوگی لیڈر !‘‘ سونیا نے کہا ۔‘‘ یہ کام مجھے ہی کرلینے دو ۔‘‘ فضاء میں گڑگڑاہٹ کی آواز سن کر میں نے نظریں اس طرف اٹھائیں ۔ ہم سے دور ہوجانے والا ہیلی کوپٹر اب پھر ہماری طرف آرہا تھا ۔ روشنی کی وجہ سے ان لوگوں نے شاید دیکھ لیا ہوگا کہ مجھ پر کیا گزری تھی۔ سونیا نے میرا زخم صاف کرنے کے بعد اس پر ایک مخصوص پائوڈر چھڑکنا شروع کیا ہی تھا کہ ہیلی کوپٹرہمارے سروں پر آکر معلق ہوگیا ۔ اس سے ایک سیڑھی لٹکائی گئی ۔ اس سیڑھی سے ائیر فورس کے دو آدمی اتر کر ہماری طرف بڑھے لیکن پھر یہ دیکھ کر جھجکے کہ میری ایک ٹانگ عریاں تھی ۔ وہ ہماری طرف پیٹھ کرکے کھڑے ہوگئے ۔ ان میں سے ایک بولا ۔ ’’ یہ بہت مناسب ہوا کہ آپ فرسٹ ایڈ سے واقف ہیں اور اس کا سامان بھی ہے آپ کے پاس !‘‘ ’’یہ حماقت ہی ہوتی اگر ہم فرسٹ ایڈ کا سامان لیے بغیر اس مہم پر آتے ۔‘‘ ’’ آپ ڈریسنگ کرلیں ۔‘‘ وہی آفیسر پھر بولا ۔’’پھر ہم آپ کی ہر قسم کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں ۔‘‘ اسی وقت ایک گولہ چلنے کی آواز آئی ۔ یہ اتفاق تھا کہ میری نظر اس مکان کی طرف تھی جہاں سے وہ گولہ نکلا تھا ۔ اس مکان میں کوئی اینٹی ائیر کرافٹ گن تھی جس سے پے در پے گولے داغے جانے لگے ۔ طیارے نے ڈائیو لگا کر خود کو ان گولوں سے بچایا اور بہت تیزی سے اس مکان کی طرف بڑھا جہاں سے اس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی تھی ۔ چند لمحے کے لیے سونیا کی توجہ بھی میری ڈریسنگ سے ہٹ گئی تھی ۔ ’’ او گاڈ! ‘‘میرے منہ سے نکلا۔ ایک گولہ ،طیارے کو ہٹ کرنے ہی والا تھا ۔ وزیرستان کی ہنگامہ پروری جاری ہے ! روزنامہ 92پڑھنا نہ بھولیے!