13جولائی 2018ء کا دن ایک طرف سیاست کی سنسنی سے بھرا تھا تو دوسری طرف سانحہ مستونگ کے لہو رنگ منظر سے رنگا ہوا تھا۔ سنسنی اور سانحے کے درمیان الیکٹرانک میڈیا کی بے سمتی اور بے حسی بے حد تکلیف دینے والی تھی۔ ریٹنگ گلیمر اور سنسنی کے پیچھے بھاگنے والے میڈیا پر بیٹھے ہوئے تجزیہ نگاروں اور اینکر پرسنز کے تبصروں اور تجزیوں میں مستونگ کے پتھریلے پہاڑوں پر بہہ جانے والوں بے گناہ بلوچوں کے لہو پر تاسف اور دکھ کی حیرانی کم کم تھی۔ ہاں نان سٹاپ تجزیوں اور تبصروں میں اتحاد ایئر ویز کی پرواز سے آئے ہوئے میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے واپس آنے‘ جیل جانے اور ملکی سیاست کے منظر نامے پر اثر انداز ہونے کی ہر ہر زاویے سے تشریح موجود تھی نہ صرف یہ بلکہ اس واپسی کے اثرات و مضمرات پر سیر حاصل گفتگو کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ الیکشن مہم پر دہشت گردی کے منحوس اور وحشت انگیز سائے پڑ چکے ہیں ۔ خیبر پختونخواہ میں خونی سانحہ ہوا اور 13جولائی کو ایک خبر بنوں سے دہشت گردی کی آئی جس میں اکرم درانی بال بال بچ گئے لیکن یہ مستونگ والا سانحہ تو 130قیمتی جانیں لے گیا۔ایک لمحے کے لیے سوچیں خدانخواستہ اگر دہشت گردی کا یہ سانحہ کراچی یا لاہور میں ہوا ہوتا تو کیا پھر بھی اس کو الیکٹرانک میڈیا پر ایسے ہی نظر انداز کیا جاتا۔؟ بلوچوں میں اس طرح کے معاملات پر احساس محرومی کا پیدا ہونا یا مین سٹریم میڈیا سے شکوہ شکایت کا پیدا ہونا ایک فطری بات ہے۔ ہاں مگر سوشل میڈیا پر اس سانحے پر رنج و غم کا اظہار زیادہ تھا اور ساتھ لوگ مین سٹریم میڈیا کو کوس رہے تھے کہ مستونگ میں بوڑھے ماں اور بوڑھی مائیں جوان بیٹوں کی لاشیں اٹھا رہی ہیں۔ دکھ اور وحشت کے ناقابل بیان مناظر ہیں اور ٹی وی پر تجزیہ نگار اینکر پرسنز خوش گپیاں لگانے ‘ ہنستے مسکراتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر بلوچستان لہولہان ہے تو کیا اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں کیا بلوچوں کا خون سستا ہے۔؟ ایسے تمام احساسات اور جذبات کا اظہار سوشل میڈیا پر کھل کر کیا جاتا رہا۔ ٹوئٹر پر بلوچستان بلیڈنگ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ میں رہا لیکن وائے حسرت کہ مین سٹریم میڈیا اس سارے سانحے کو اوسط درجے کی کوریج دے کر اتحاد ایئر ویز کی پرواز کے انتظار میںنظریں بچھائے بیٹھا رہا۔س میں کوئی شک نہیں کہ عدالت سے سزا یافتہ میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کا پاکستان واپس آنے کا فیصلہ ایک بڑی خبر تھی۔ روایت کے مطابق اس ساری سیاسی ڈویلپمنٹ کی پل پل خبر دینا اور بریکنگ نیوز کی سنسنی پھیلائے رکھنا‘ یہ سب ہمارے ٹی وی چینلز نے کرنا ہی تھا لیکن قومی یکجہتی کا تقاضا یہ تھا کہ اگر ملک کے ایک حصے میں دہشت گردی کا المناک سانحہ ہوا ہے درجنوں لوگ اس میں شہید ہوئے ہیں انتخابی مہم چلاتے جواں سال سراج رئیسانی لقمہ اجل بن گئے تو پھر اس المناک سانحے پر بلوچستان کے بہن بھائیوں کے دکھ میں شریک ہونا نہایت ضروری تھا اور اس سانحے کو مناسب کوریج دینا میڈیا کا فرض تھا۔ غم کی اس گھڑی میں بلوچوں کے ساتھ تعزیت کرنے ‘پرسہ دینے اور یکجہتی کا اظہار کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ تھا۔ اور اب بات کرتے ہیں اتحاد ایئر ویز کی پرواز کی جس کی پل پل کی خبر ہمیں دی گئی کہ اب لاہور کی حدود میں داخل ہو گئے۔ اب فیروز پور روڈ کراس کر رہے ہیں۔ اب لینڈ کرنے والے ہیں۔جہاز میں گرفتاری دینے سے لے کر اڈیالہ جیل منتقل ہونے کے دوران سب کچھ انتہائی پرامن طریقے سے ہوا کہیں کوئی غیر ضروری مزاحمت اور بدمزدگی کا ناخوشگوار واقعہ پیدا نہیں ہوا اور اس امن اور سکون کی کیفیت سے سنسنی کے چارے پر پلتے ہوئے میڈیا کو کچھ مایوسی ہوئی۔ ایک دو فوٹیج جو جہاز کے اندر سے بنائی گئیں تھیں۔ وہ تمام چینلز ایکسکلیسو کے ٹائٹل کیساتھ بار بار دکھاتے رہے۔ نواز شریف کے واپس آنے کے فیصلے نے ان پر سے بزدلی اور بھگوڑے ہونے کے داغ کو مٹا دیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ورکر کے اندر بھی ایک نئی توانائی آئی ہے۔ ویسے 13جولائی کو پورے شہر میں جس طرح سے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں مسلم لیگ ن کے ورکرز کی پکڑ دھکڑ کی گئی وہ بلا جواز تھی۔ یہ ساری صورت حال مسلم لیگ ن کے حق میں چلی گئی۔ ریاستی سطح پر کسی سیاسی پارٹی کو دبانے کے لیے ایسے حربے ہمیشہ اسے ابھارنے کی وجہ بنتے ہیں۔ یعنی رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور ۔ مزاحمتوں اور رکاوٹوں نے مسلم لیگ ن کے ورکرز کو ریاست کے بالمقابل کھڑا کر دیا اور یوں اسے اپنی سیاسی طاقت کا احساس دلایا اسی طرح میاں نواز شریف کے واپس آنے پر جس طرح کا ماحول بنا دیا گیا۔ اس کا سیاسی فائدہ نواز شریف کو ہوا مسلم لیگ ن بطور ایک سیاسی پارٹی کے ایک سیاسی قوت ہے اور اس سیاسی جماعت کو جمہوری دائرہ کار میں رہ کر اپنے قائد کی واپسی پر جو ردعمل ظاہر کرنا تھا وہ انہیں کرنے دیتے۔اس سے کسی کو خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہ تھی۔ اگر ریاستی انتظامیہ نارمل انداز میں بی ہیو کرتی تو مسلم لیگ ن کا ورکر بھی اتنا ردعمل ظاہر نہ کرتا۔ چونکہ مسلم لیگ کے کارکنوں کا مزاج مزاحمتی ریلیوں کا ہے ہی نہیں تو اس صورت میں میاں صاحب کے استقبال کو ورکرز بڑی تعداد میں گھروں سے ہی نہ نکلتے۔ کیونکہ سزا کے بعد ورکروں میں ایک بددلی اور مایوسی تو یقینی طور پر پائی جاتی ہے۔ ایسے میں بغیر کسی بگ ڈیل کے میاں صاحب اپنی صاحبزادی کے ساتھ پاکستان میں لینڈ کرتے اور اڈیالہ جیل پہنچا دیے جاتے۔ ایسی صورت میں مسلم لیگ ن اور سابق وزیر اعظم کے بیانیے کو سیاسی فائدہ نہیں ہونا۔ مگر اب صورت حال کچھ مختلف ہے۔ ایک طرف تو شہباز شریف بھی اپنے بڑے بھائی کے مزاحمتی بیانیے پر بیعت کر چکے ہیں۔ ان کی استقبالیہ ریلی اگرچہ ایئر پورٹ سے پہلے ہی کہیں رکی رہی لیکن بہرحال مفاہمت کی بات کرنے والے شہباز شریف نے 13جولائی کو ریاستی انتظامیہ کی مزاحمتوں کے سامنے مسلم لیگ ن کی ریلی کی قیادت خود کر کے نواز شریف کے بیانیے کو مضبوط کیا دوسری بات سابق وزیر اعظم جس طرح بستر مرگ پر لیٹی اپنی اہلیہ کو چھوڑ کر جیل جانے کے لیے پاکستان آئے ہیں اس سے انہوں نے مسلم لیگ کے بدظن ووٹرکا دل ضرور جیت لیا ہے۔