لکھنے والے کے لئے موضوعات کی کمی کب ہوتی ہے؟ کم سے کم وطن عزیز میں ہرگز نہیں جہاں صبح و شام ایک ہنگام ہاو ہو مچا ہوتا ہے۔دل لیکن اوب سا گیا ہے۔جہاں دیکھو گھما پھرا کر ایک ہی موضوع۔سو رنگ سے باندھا ہوا ایک ہی مضمون۔سیاست احتساب پکڑدھکڑ واویلا۔مانا موضوعات اہم بھی ہیںاور برمحل بھی،لیکن تابکے؟کبھی تو سلگتی سرخیوں سے دہکتا اخبار لپیٹ کر، چنگھاڑتے ٹی وی کا گلا گھونٹ کر کھڑکی سے باہر جھانکنا ہوگا۔کیا تمام کھڑکیاں بند ہوگئی ہیں؟میرے اوپری منزل پہ واقع کمرے کی کھڑکی جو باہر لان میں کھلتی ہے کیا دل لبھانے والے منظر دکھاتی ہے۔آج صبح دیکھا تو نیچے لان میں لگی سفید گلاب کی بیل کھڑکی کی چوکھٹ سے لپٹی دکھائی دی۔خدا جانے کب سے چپکے چپکے دیوار کے ساتھ لگی دبے پائوں بڑھتی چلی آرہی تھی۔کسی قبول ہوجانے والی دعا کی طرح۔کوئی دن جاتا ہے کہ کسی مناسب موسم میں،غالباًفروری میں ساری کی ساری بیل سفید گلابوں سے بھر جائے گی۔بالکل اچانک۔جاتے سرما کی دھوپ میں یہ سفید گلاب سفید ستاروں کی طرح چمکیں گے۔تب میری کھڑکی پہ چپکے سے دراندازی کرنے والی نازک سی شاخ پہ بھی ستارے کھل اٹھیں گے۔اس کا بھید کھل جائے گا۔ابھی اسے علم نہیں کہ میں نے اسے دیکھ لیا ہے۔مجھے ایسی خوشگوار حیرت دکھانی ہوگی جیسے بچوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے بڑوں کو دکھانی پڑتی ہے۔ مکمل مصنوعی حیرت ، بھرپور محبت کے ساتھ۔ سامنے والے گھر کی سرخ تکونی چھت پہ روز ایک چھوٹا سا سیاہ پرندہ آن بیٹھتا ہے۔سر تاپا سیاہ۔نامہ اعمال اور شب ہجر سا سیاہ۔اتنا کہ کبھی تو نظر بھی نہیں آتا۔ بول نہ پائے تو دکھائی بھی نہ دے۔لیکن وہ کیوں نہ بولے۔اسے داود کے رب کی طرف سے لحن ہی ایسا عطا ہوا ہے۔ایسا سریلا جیسے کسی نے چاندی کے گھنگھرو چاندی کے تھال پہ بکھیر دیئے ہوں اور وہ کسی کے قابو میں نہ آرہے ہوں۔بے تاب گھنگھرو بجتے چلے جاتے ہیں۔کبھی ایسا سر چھیڑے کہ آنکھ بندکرکے سنو تو ایسا محسوس ہو جیسے فیروزی دھند سے بھرے جنگل میں سیال چاندی سا آبشار بہہ رہا ہو۔ اتنی متنوع آواز میں نے تو پہلی بار سنی۔خدا جانے اس کا نام کیا ہے۔آواز سے گوگل کیا توپتا چلا کوئل کی نسل کا کوئی پرندہ ہے اور اپنی سیاہ روئی کی بنیاد پہ بلیک برڈ کہلاتا ہے حالانکہ ایسے سریلے گلے پہ اسے سنگنگ برڈ یا طائر خوش آواز کا نام بھی دیا جاسکتا تھا۔ دنیا تعصب سے بھری ہوئی ہے۔ ایک ننھا سا خوش گلو پرندہ بھی اس سے محفوظ نہیں۔اسی بلیک برڈ کی نسل کا ایک جوڑا رات ٹھیک ڈھائی بجے اسی چھت پہ سروں کا جادو جگاتا ہے حالانکہ رات کے اس پہر کرنے کے بہتر کام بھی ہیں۔یہ جوڑا وقت کا اتنا پابند ہے کہ اس کے پہلے سر سے گھڑی ملائی جاسکتی ہے۔ٹھیک دو بج کر تیس منٹ۔ایسی ہی ایک مینا ہمارے کراچی والے گھر کی منڈیر پہ ٹھیک سہہ پہر چار بجے بولا کرتی تھی۔نہ ایک منٹ اوپر نہ ایک منٹ نیچے۔ ٹھیک چار بجے۔خدا جانے اس پابندی وقت کا ان پرندوں سے کیا تعلق ہے لیکن کچھ نہ کچھ ہے ضرور۔شاید کوئی سگنل ہو جو دوسرے پرندوں کو دیا جاتا ہو یا کوئی دعا جو کسی مخصوص وقت میں مانگی جاتی ہو۔کوئی شبھ گھڑی۔کوئی مبارک وقت۔ہم نے ماحول کا جو بیڑہ غرق کیا ہے اس میں پرندے دعا تو کیا پناہ مانگتے ہونگے۔ہم تو مور جیسا رنگین پرندہ بھون کر کھاجاتے ہیں۔کسی حلال جانور کو زندہ دیکھنا ہمارے جذبہ ایمانی کے خلاف ہے۔حلال پرندے شوق سے کھائیں لیکن ہر پرندے کو حلال کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ہم چڑے جیسا نازک پرندہ کھاجاتے ہیں۔ایک چڑے میں کتنا گوشت ہوتا ہے۔ایک بوٹی بھر بھی نہیں۔لیکن ہم کھاجاتے ہیں۔کسی حکیم نے کان میں کچھ پھونک دیا ہوگا۔گوجرانوالہ سے کراچی تک چڑوں کی شامت آگئی۔کھال اترے ننھے ننھے پرندے دیکھ کر دل خراب ہوجاتا ہے۔ بخدا یہ بلیک برڈ جس کی خوش گلوئی کے میں نے قصیدے پڑھے اور جو اس وقت عافیت سے سرخ تکونی چھت پہ بیٹھا چہچہاتا ہے کسی لاہوری کے ہاتھ لگ گیا تو تصور میں بھی نہیں آرہا کہ طشت میں کھال اترا چپ چاپ پڑا کیسا غیر رومانی لگے گا۔تو اہلیان لاہور میں نے ایسے کسی پرندے کا ذکر نہیں کیا۔خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔پلیز بھول جائیے اور اگنور کیجیے۔ یہیںمیرے کمرے کی کھڑکی میں کسی پینٹنگ کی طرح سجے کچھ اور مناظر ہیں۔سرما کی ڈھلتی زرد دھوپ ہے جس نے سامنے والے لان کو پگھلے ہوئے سونے میں رنگ دیا ہے۔ہمارے گھروں کے درمیان کولتار کی پکی سڑک بھی زردیا گئی ہے۔سونے کی ہوگئی ہے۔ننھے بچے جس پہ خوامخواہ دوڑتے پھرتے ہیں۔ان کے خوشنما سروں پہ سونا پگھل رہا ہے اور شریر آنکھوں میں سورج آن پڑا ہے۔یہ تھک جانے تک کھیلتے رہیں گے۔ جہاں میری گلی ختم ہوگی اگر آپ اسے گلی کہنا چاہیں کیونکہ یہ انگریزی میں اسٹریٹ کہلاتی ہے، وہاں سے کھیت شروع ہوجاتے ہیں۔جب ان میں سرسوں لگتی ہے تو ڈھلتے سورج کی نارنجی دھوپ کھیت میں آگ سی لگا دیتی ہے۔ آج کل کوئی سبز چارے نما فصل لگی ہوئی ہے۔میں مکمل شہری ہوں اور نزدیک کے کسانوں سے کوئی بے تکلفی بھی نہیں تو مجھے اندازہ نہیں کہ یہ کس فصل کا موسم ہے۔جو بھی ہے آنکھوں کو بھلا لگتا ہے۔ان کھیتوں میں ننھے ننھے سبز پرندے کثرت سے پائے جاتے ہیں جو اکثر اڑ کر گھروں کے لان میں آن بیٹھتے ہیں اور میری انگور کی بیل پہ اس وقت تک دکھائی نہیں دیتے جن تک اڑان نہ بھریں۔انہیں دیکھتے رہو تو نظر سبز آ جاتی ہے،ہریا جاتی ہے اور ساون کے اندھے کی طرح دیر تک سب ہرا ہرا دکھائی دیتا ہے۔ کبھی ان ہی کھیتوں سے گیدڑ بھی نکل آتے ہیں ۔گویا بال بچوں کے ساتھ ہوتے ہیں لیکن کوئی فیملی والے شریف گیدڑ نہیں ہوتے اور لان کا ستیاناس کرنے کے علاوہ پنجروں میں بند پرندے بھی کھاجاتے ہیں۔ یہ کور ذوق نہ چہچہاتے پرندوں میں فرق کرتے ہیں نہ انڈے دینے والی مرغیوں میں۔یہ بس حملہ آور ہوتے ہیں اورمعصوم پرندوں کو بال وپر کے بے جان ڈھیر میں بدل دیتے ہیں۔یہ معروف روایت کے برعکس نہ بزدل ہوتے ہیں نہ محاورے کے مطابق شہر کا رخ کرنے سے ان کی شامت آتی ہے۔یہ دیدہ دلیر اور بے ہودگی کی حد تک حرامخور ہیں۔ان کا کچھ کرنا ہوگا ورنہ یہ کسی دن چہچہاتے بلیک برڈ بھی کھاجائیں گے اور انگور کی بیل سے لپٹے سبز پرندے بھی۔