سو دن پورے ہوگئے۔ ایک سادہ مگر پروقار تقریب بھی منعقد ہوگئی۔وزیر اعظم عمران خان نے حسب توقع اپنے مخصوص انداز میں خطاب بھی فرمالیا۔ عمران خان کی ایک عادت ان کے اور مخالفین کے یکساں کام آتی ہے اور وہ ہے دل کی بات کا بے دھڑک اظہار۔ اس بار بھی وہ کچھ ایسا کہہ گئے جو کافی عرصے ان کے مخالفین کو الجھائے رکھے گا۔ آخر یو ٹرن پہ ایک ہفتہ تو اپوزیشن نے نکال ہی لیا تھا۔ اپوزیشن جس کا کوئی کونہ دوسرے سے نہیں ملتا اور کیا چاہئے۔ رہی سہی کسر فواد چوہدری پوری کردیتے ہیں۔ اس طرح اپوزیشن خاصے دن نکال لیتی ہے۔ اس بار عمران خان کی زبان پھسلی تو بھینس کی بچی بھی پھسل کر اپوزیشن کی گود میں آن گری۔کٹوں اور مرغی کے انڈوں بچوں سے لے کر سیم زدہ زمین میں جھینگوں کی افزائش پہ بھی ٹھٹھے اڑا لئے گئے تھے مگر وہ ٹھٹھے ہی۔ بات تو تب ہوگی جب اپوزیشن سو دنوں کا وائٹ پیپر جاری کرے گی ۔ وہ لیکن جو اس میں اندراج کرے گی اس کا موازنہ شعوری اور غیر شعوری طور پہ عوام الناس ان پانچ سالوں سے کرے گی جس دوران معیشت کا ستیاناس ہوگیا تھا۔عوام کو عمران خان اپنے اپوزیشن کے دنوں میں خوب آموختہ رٹا چکے ہیں۔ نیب میں جاری کیسوں کی روزانہ بنیادوں پہ میڈیا کوریج کررہا ہے اور بدعنوانی کی ہوشربا داستانوں پہ مشتمل رپورٹیں اخبارات چھاپ رہے ہیں۔ جعلی بینک اکاونٹس سے لے کرڈرائیوروں کے نام پہ جائیدادیں اور نیب میں تگڑے وعدہ معاف گواہوں کے انکشافات، کچھ بھی تو چھپا نہیں ہے ۔ایسے میں اپوزیشن کے وائٹ پیپر کا مطلب محاوراتی زبان میں چھاج بولے سو بولے چھلنی بھی بولے جس میں سو چھید، ہے۔ اس تقریب میں وزیراعظم کے علاوہ دو اہم وزراء نے خطاب کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کی ترجیحات کیا ہیں۔ اس حوالے سے عمران خان نے کوئی یو ٹرن نہیں لیا۔ مجھ سے پوچھیں تو عمران خان نے کبھی یو ٹرن لیا ہی نہیں۔ انسان کا ایک اصولی موقف ہوتا ہے جس پہ وہ قائم رہتا ہے۔باقی باتیں ثانوی ہیں اور گپ بازی اور وقت گزاری کے لئے اچھی ہیں یا سوشل میڈیا پہ جگت بازی کے لئے مناسب ہیں۔ سنجیدہ اور متین لوگ ایسی باتوں پہ مسکرا دیتے ہیں ۔ غیر سنجیدہ لوگ کالم لکھ مارتے ہیں یا ٹاک شو کا پیٹ بھرتے ہیں۔ کامل ایک ہفتہ عمران خان کے یوٹرن نے پاکستان کے تمام اردو اور انگریزی اخبارات کو مشغول رکھا۔ شاباش عمران خان۔ بات ہورہی تھی دو اہم وزرا کی اور وہ تھے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر خزانہ اسد عمر۔اور یہی دو میدان ہیں جن میں گھوڑے دوڑانے کے عزم کا اظہار عمران خان کی حکومت نے کیا ۔ اور یہی دو دائرے ہیں جو ایک دوسرے کو اوورلیپ کرتے ہیں۔ معیشت اور خارجہ پالیسی۔آج ان سطور کے لکھے جانے تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں نمایاں کمی کا غلغلہ ہے اور اسے آئی ایم ایف کی روپے کی قدر گھٹانے کی شرط سے جوڑا جارہا ہے۔ اس کی تصدیق یا تردید حکومت ہی کر سکتی ہے لیکن اگر یہی سچ ہے تو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی۔ ایسا اسی سال جون میں بھارت میں بھی ہوا تھا جب بھارتی روپے کی قیمت اچانک گر گئی تھی جس کی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ کسی قسم کا خفیہ بیل آوٹ نہیں بلکہ مقامی میکرواکنامکس کے متغیرات کے انحطاط بالخصوص کرنٹ اکاونٹ خسارہ اور افراط زر، عالمی معیشت کی سخت صورتحال اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ تھا۔ پاکستان کے بھی بعینہ یہی مسائل ہیں۔گزشتہ حکومت جہاں دیگر معاملات میں شعبدے بازی دکھا رہی تھی وہیں معاشی جادوگر اسحاق ڈار نے حیرت انگیز طور پہ روپے کو جادو کی چھڑی کے ذریعے قابو میں کرنے کی کوشش کی تھی۔ہماری درآمدات بڑھتی اور برآمدات کم ہوتی جارہی تھیں لیکن زر مبادلہ کے ذخائر بڑھتے نظر آرہے تھے۔جب بھی روپے پہ دبائو بڑھتا حکومت ڈالر مارکیٹ میں پھینک دیتی۔ اب چونکہ یہ جادوگری نہیں ہورہی تو ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہیجان برپا ہورہا ہے اور حکومت کو سنگین الزامات کا سامنا ہے۔ بھارت میں روپیہ انتیس فیصد جبکہ پاکستان میں تیس فیصد گرا ہے لیکن بھارت میں یہ عمل بتدریج ہوا ہے جبکہ یہاں ایسا نہیں ہوا۔ اس کا سیدھا حل طویل مدت معاشی اصلاحات اور ان ٹھٹھے بازوں کے منہ کسی مناسب ترجمان کے ذریعے بندکرنا ہے جنہیں یہ بھی علم نہیں کہ چین اور جنوبی کوریا نے چھوٹی صنعتوں سے کتنی ترقی کی ہے۔یہی جھینگوں اور انڈوں والی صنعتیں۔ اس بات کا مذاق بنانے والوں کو یہ بھی علم نہیں کہ چین پاکستان کے لئے سمندری غذا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بن سکتا ہے اور کسی زمانے میں جاپان کو پاکستان کی انتہائی اعلی معیار کی سمندری اجناس ایکسپورٹ کی جاتی اور بھاری زر مبادلہ کمایا جاتا رہا ہے۔ یہ عجیب وزیراعظم ہے جو جھینگے پالنے اور بیچنے کی بات کرتا ہے تاکہ زرمبادلہ میں اضافہ کیا جاسکے جو سی پیک کی برکت سے اب اور بھی آسان ہو گیا ہے۔اسے چاہئے تھا ایک کانگلومریٹ بناتا اور چین میں اپنے آفس کھول کر مزے سے بزنس کرتا اور اتنی بھاری اور مشکوک ٹرانزیکشن کرتا کہ شنگھائی میں قائم پاکستانی بینک کی برانچ کا بھٹہ ہی بٹھا دیتا۔ خارجہ محاذ پہ دیکھیں تو گزشتہ پانچ سال کے آخری چند ماہ کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں تھا۔ من پسند اور نااہل ترین افراد کو اہم ترین ممالک میں سفیر لگادیا گیا تھا۔ ڈو مور کے جواب میں بڑھکیں ضرور ماری گئی تھیں لیکن کوئی متعین خارجہ پالیسی نظر نہیں آتی تھی۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بنیاد ذاتی مفادات اور کاروبار کی بڑھوتری تھا۔ اس کے لئے ہر حد پار کرلی گئی تھی۔ اس کے علاوہ ایک خاص اشتعال انگیز حرکت ، فوجی قیادت کو لاعلم رکھ کر رائیونڈ میں گلابی پگڑیاں پہن کر دعوت کھلانے کی کی گئی تھی۔ تمام عرصہ میں فوجی اور سیاسی اسٹبلشمنٹ پنجہ سے پنجہ لڑائے بیٹھی رہیں۔منی لانڈرنگ کا داغ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شمولیت اور ملک کی بدنامی اور عالمی تنہائی کا باعث بنا۔موجودہ حکومت کو اس کا کریڈٹ بہرحال جاتا ہے کہ سو دن کے اندر سعودی عرب اور امارات سے تجارتی معاہدے ہوئے اور ادائیگیوں کے توازن اور تیل کی تاخیری ادائیگی کا انتظام ہوا۔ براہ راست بیرونی انویسٹمنٹ میں اضافہ ہوا جو معاشی استحکام کا ایک بڑا اشارہ ہے۔ امریکہ کو منہ توڑ جواب دے کر عمران خان نے ایک بار پھر اپنے دیرینہ موقف کا اعادہ کیا کہ پاکستان کسی پرائی جنگ میں جہنم نہیں بنے گا۔ بھارت کے ساتھ امن مذاکرات کی دعوت دے کر دنیا کو پیغام دیا گیا کہ پاکستان تو امن چاہتا ہے۔ اس لوز بال کے بعد کرتار پور بارڈر کی وہ گوگلی کرائی گئی جس پہ بھارت کو بیک فٹ پہ جانا پڑا اور یہ اس کے گلے کی چھچھوندر بن گئی جو نہ اگلی جارہی ہے نہ نگلی۔ سو دن میں یہ دو سمتیں درست ہوجائیں تو اور کیا چاہئے۔