کل ہماری ملاقات ایک ایسے بزرگ سے ہوئی جن کی عمر (بقول اُن کے) نو ّے سال ہے۔ ہم نے اِتنی طویل ُ عمر پانے کا راز دریافت کیا تو کہنے لگے: اِس کا اصل سبب یہ ہے کہ میں سن 1922ء میں َپیدا ُہوا تھا۔ ہم نے فوراً لکھ لیا کہ لمبی ُعمر پانے کا ایک راز یہ ہے کہ اِنسان ماضی بعید میں َپیدا ہونے کی کوشش کرے ۔ ایک اَور بزرگ سے طویل ُعمر پانے کا سبب ُپوچھا تو اُنھوں نے کہا : اِس کا سبب ’’شوگر کی بیماری‘‘ ہے! ہم نے وضاحت چاہی تو بولے : ’’مجھے پچاس سال کی ُعمر میں شوگر کا مرض لاحق ُہوا تھا۔ اُس وقت میرا وزن ضرورت سے بہت زیادہ تھا اَور صحت اِنتہائی خراب تھی۔ میں نے خوراک میں زبردست پرہیز برتا اَور لمبی َسیر شروع کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج اٹھاسی سال کی ُعمر میں بھی روزانہ دو میل َپیدل چل لیتا ُہوں!‘‘ ایک اَور بزرگ نے فرمایا کہ اُن کی لمبی عمر کا راز یہ ہے کہ اُنھوں نے آج تک سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگایا۔ ایک دُوسرے بزرگ نے کہا کہ روزانہ اسّی سگریٹ پینے کی وجہ سے آج اُن کی ُعمر اسّی سال سے بھی زیادہ ہے۔ یہ سُن کر ہم نے اُنھیں مشورہ دیا کہ وہ سگریٹوں کی تعداد بڑھا کر سو تک لے جائیں! ایک دیہاتی بوڑھے نے کہا :دیسی گھی کے باقاعدہ اِستعمال کی وجہ سے آج چھیاسی سال کی ُعمر میں بھی تندرست و توانا ُہوں۔ ایک شہری بزرگ کہنے لگے:میری طویل ُعمر کا راز یہ ہے کہ دیسی گھی کی شکل تک دیکھنا مجھے گوارا نہیں! ایک پچانوے سال کے پہلوان کا کہنا تھا: جوانی میں میری روزانہ کی خوراک تھی: آدھا کلو مکھن، آدھا کلو شہد، آدھا بکرا ( َتلا ُہوا) ، دس کلو دُودھ، دو کلو یخنی اور چھ پراٹھے۔ ایک اَور بزرگوار بولے: میری لمبی ُعمر کا راز یہ ہے کہ میں نے گوشت کبھی نہیں کھایا۔ ایک ضعیف العمر شخص سے بڑی دِلچسپ گفتگو ُہوئی : ’’قبلہ! کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ کی لمبی ُعمر کا راز کیا ہے ؟‘‘ اُنھوں نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا: ’’انکل، میری ُعمرصرف چالیس سال ہے!‘‘ ’’برخوردار! تم نے اسّی سال کا سفر اِتنی کامیابی سے چالیس سال میں کیسے طے کر لیا ؟‘‘ کہنے لگے: ’’آپ نے ُسنا ہو گا کہ ہر کامیاب َمرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے۔ میں بھلا کامیاب کیوں نہ ہوتا … میرے پیچھے تو دوعورتیں تھیں۔‘‘ ’’ایک آپ کی بیوی اَور دُوسری غالباً آپ کی والدہ!‘‘ ’’جی نہیں انکل! ایک عورت میری بیوی ہے اَور دُوسری عورت میری دُوسری بیوی ہے۔ جب میری ایک ہی بیوی تھی، زِندگی کا سفر بڑی سست روی سے کٹ رہا تھا۔ ایک ہفتہ، مہینے ڈیڑھ مہینے میں کٹتا تھا۔ دُوسری بیوی کے آتے ہی زِندگی دِن دُونی رات چوگنی ترقی کرنے لگی۔ اسّی سال کا سفر چٹکی بجاتے طے ہو گیا، یعنی صرف چالیس سال میں!‘‘ ’’آپ کی چٹکی، بجنے میں، چالیس سال لیتی ہے کیا؟‘‘ ’’انکل!آپ سمجھے نہیں۔ بڑی ُ عمر کا یہی تو سیاپا ہے۔ میرا مطلب ہے، میں صرف چالیس سال میں اسّی کا ہو گیا۔ ‘‘ ’’خدا کرے، آپ سو سال جئیں!‘‘ ہم نے دُعا دی۔ ’’سو سال تک جینا کیا مشکل ہے! اگر میں تیسری شادی کر لیتا تو آج سو سال کا ہوتا۔ ‘‘ ایک اَور بزرگوار سے ہم نے یہی سوال کیا تو بولے: ’’میری لمبی ُعمر کا راز ایک دیوانی کیس ہے۔‘‘ یہ سُن کر ہم بہت حیران ہوئے بلکہ پشیمان بھی ہوئے کہ ناحق ایک دیوانے کو چھیڑ بیٹھے۔ تاہم ڈرتے ڈرتے کہا: ’’محترم، اگر آپ مینٹل کیس ہیں تو اِس کا لمبی ُعمر سے کیا تعلق ہے؟‘‘ (ویسے یہ بات ہماری سمجھ میں آ رہی تھی کہ آج کل پاگل ہی دیر تک جی سکتے ہیں) بولے: ’’میں نے کب کہا کہ میں مینٹل کیس ُہوں، میں تو یہ عرض کر رہا تھا کہ میری لمبی عمر کا راز ایک سِول ُسوٹ یعنی دیوانی مقدمہ ہے۔ بات یہ ہے کہ ایک مکان کی ملکیت کے سلسلے میں تیس سال سے ایک رِشتے دار سے مقدمے بازی چل رہی ہے۔ حال ہی میں یہ مقدمہ چودھویں سِول جج کے سپرد ُہوا ہے۔ ایک روز میرا مخالف کہنے لگا: ’’شاہ جی! یہ مقدمہ واپس لے لیں۔اَب تو آپ کی ٹانگیں بھی قبر کے اَندر تک پہنچ گئی ہیں۔‘‘ یہ سُنتے مجھے اِتنا طیش آیا کہ میں نے چیخ کر کہا: ’’امیر علی شاہ، غور سے سن لے! جب تک اِس مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوتا، میں نہیں مروں گا۔‘‘ چنانچہ تب سے مَیں ہر نماز کے بعد اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگنے لگا کہ ’’یا باری تعالیٰ! جب تک اِس مقدمے کا فیصلہ نہ ہو جائے، مجھے زِندہ رکھنا… اللہ نے میری دُعا قبول کر لی اَور میں اَب تک زِندہ ُہوں۔‘‘ ’’تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ مقدمے کا فیصلہ جلد ہوجائے؟ ‘‘ ’’سچ پوچھو تو اَب جی چاہتا ہے، یہ مقدمہ دس پندرہ سال اَور چلے تاکہ میں ُعمر کی سنچری مکمل کر لوں!‘‘ اَب ذرا خواتین کا تذکرہ ہو جائے۔ایک اَدبی محفل میں ایک بزرگ خاتون سے ملاقات ُہوئی تو ہم نے ان سے پوچھا: ’’خالہ جان! ماشاء اللہ اِتنی عمر کے باوجود آپ کی صحت قا بلِ رشک ہے۔ اِس کی وجہ بتا سکیں گی آپ؟‘‘ ہمارا سوال سنتے ہی اُس خاتون کی بھنویں تن گئیں۔ مُنہ، دو تین سینٹی میٹر تک ُکھل گیا اَور چہرے کا میک اَپ کانپنے لگا۔ چیخ کر بولیں: ’’خالہ تیری ماں، خالہ تیری ُ ّپھپھی، خالہ تیری ماسی! بدتمیز، مجھے خالہ کہتا ہے… میں تیری خالہ کیسے ہوگئی! اَپنی ُعمر دیکھ اَور شرم سے ڈوب مر!‘‘ ہم نے وہاں سے دَوڑ لگا دی ۔ یاد آیا… ہم نے ایک اَور خاتون کو بھی غلطی سے ’’خالہ جان‘‘ کہہ، کر، اُس کی لمبی ُعمر کا راز ُپوچھ لیا تھا اَور جواب میں اُس نے کہا تھا: ’’انکل، ویسے تو میری ُعمر کافی ہے لیکن آپ سے آٹھ دس سال کم ہی ہو گی! پھر اُس کے چہرے پر جو مسکراہٹ نمودار ُہوئی، وہ ہمارے لیے پہلے والی خالہ کی گالیوں سے کہیں زیادہ تکلیف دِہ تھی۔ ‘‘ ’’اِن تلخ تجربات کے بعد ہم نے اپنا طر یقِ کار بدل لیا۔ ایک موقع پرہم نے ایک اسّی بیاسی سال کی ’’دوشیزہ‘‘ سے کہا: ماشاء اللہ، ساٹھ سال کی ُعمر میں بھی آپ چالیس سال سے زیادہ کی نہیں لگتیں۔ غالباً آپ باقاعدگی سے ِجم (gym) جاتی ہیں!‘‘ وہ اِتنی خوش ُہوئی کہ اُس نے ہمیں اپنے ساتھ ہی صوفے پر بٹھا لیا۔ ہم نے حوصلہ پا کر ُپوچھا: ’’قیامِ پاکستان کے وقت آپ کی ُ عمر کیا رہی ہو گی؟‘‘ وہ بھولی بھالی خاتون آسانی سے ہمارے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئی ۔ کہنے لگی: ’’میں بالکل جوان تھی۔ میری نئی نئی شادی ُہوئی تھی۔ ابھی تو میرا بچہ بھی نہیں ہُوا تھا۔‘‘ ہم نے دِل میں حساب لگایا۔ گویا اِس کی ٹوٹل عمر ہوئی تقریباً 88برس… اَب ہم میں اِتنا حوصلہ کہاں رہا تھاجو اُس سے لمبی ُ عمر کا راز ُپوچھتے! آخر میں ہمیں یہ کہنا ہے کہ لمبی ُعمر کا راز ُپوچھنے کے لیے ہم ایک عرصے سے اُس عا شق کی تلاش میں ہیں جس نے ایک فلم میں گاتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ: سو سال پہلے، مجھے تم سے پیار تھا آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا